• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن میں میرے گھر کے سامنے ایک نہر ہے، میں روزانہ صبح چھ بجے اس نہر کے کنارے واک کیلئے جاتا ہوں لیکن یہ 10اپریل اوراتوار کا دن تھا، میں نے صبح کی سیر ملتوی کی اور ٹیلی ویژن کے سامنے ڈٹ کر بیٹھ گیا کیونکہ یہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں ایک تاریخی دن تھا۔ اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کیخلاف ’’تحریکِ عدم اعتماد‘‘ کے سلسلہ میں سپریم کورٹ کے آرڈر کے مطابق ووٹنگ ہونا تھی لیکن عمران خان کے اسپیکر تاخیری حربے استعمال کرتے ہوئے صبح 10بجے سے لے کر رات 12بجے تک اس آدھے گھنٹے کے پراسس کو لے گئے چنانچہ کروڑوں لوگ 14گھنٹے کی یہ طویل سیاسی فلم دیکھتے رہے۔ میرا دیرینہ دوست اظہر مانی تقریباً 35سال پہلے روزنامہ جنگ لاہور میں میرا کولیگ تھا، مانی بھی کئی دہائیوں سے لندن میں رہائش پذیر ہے، ووٹنگ سے اگلے روز اُس کا فون آیا، کہنے لگا کل والی فلم تو بڑی لمبی تھی، میں نے پوچھا کون سی فلم؟ وہ ہنستے ہوئے بولا! تحریکِ عدم اعتماد والی 14گھٹنے کی فلم۔ واقعی اس نے درست کہا کیونکہ عمران خان کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور صدر عارف علوی نے اپنے ’باس‘ کی ہدایت کاری میں ان 14گھنٹوں کو پل پل پل پل تبدیل ہوتے مناظر کی ایک فلم میں تبدیل کر دیا تھا جہاں سچائی کے بجائے ڈرامائی، قانون کی بجائے لاقانونیت اور آئین کی بجائے آئین شکنی کے پے در پے سین تھے اور ہر سین غیر متوقع تھا چنانچہ اس فلم نے معلوم فلمی دُنیا کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ ہالی ووڈ نے 1963میں ’’قلو پطرہ‘‘ بنائی تو یہ آج تک دُنیا کی سب سے طویل فلم تھی جس کا دورانیہ 248منٹ یعنی 4گھنٹے 8منٹ تھا لیکن 10اپریل کو پاکستان کی قومی اسمبلی سے ریلیز ہونے والی سسپینس سے بھرپور اس فلم کا دورانیہ 14گھنٹے تھا جس نے ’’قلو پطرہ‘‘ کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔

یوں تو عمران خان کی حکمرانی کے گزشتہ تین سال سات ماہ بھی ایک سیاسی فلم جیسے ہی تھے جہاں چور ڈاکو کے فلک شگاف نعرے تھے، چھوڑوں گا نہیں، این آر او نہیں دوں گا، جیلوں میں بھیجوں گا، میں ان کو رُلاؤں گا، میں خطرناک ہو جاؤں گا، جیسے ’’نازی اور فاشسٹ‘‘ رویے و نعرے یا ڈائیلاگ اور نہ ایفا ہونے والے وعدے تھے جن سے پاکستان کے عوام محظوظ تو ہوئے لیکن ان کے فوائد سے بہرہ مند نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر 50لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں، 1400ارب ڈالر واپس لاؤں گا۔ 200ارب ان کے منہ پر ماروں گا، بجلی 2روپے فی یونٹ ہو جائے گی، آئی ایم ایف سے بھیک نہیں مانگیں گے، بیرون ملک سے لوگ پاکستان ملازمتیں کرنے آئیں گے، نوکریوں کی بارش ہو گی، قرضے لینے سے پہلے خودکشی کر لوں گا، ریاستِ مدینہ کے ڈائیلاگ، ملک ترقی کرے گا، کاروبار وافر ہوں گے، انصاف سب کیلئے ہوگا، کشمیر آزاد کرائیں گے، نیا پاکستان، پہلے پرویز الہٰی ڈاکو تھا اب پی ٹی آئی کا وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار، لوٹوں کو پارٹی میں نہیں لوں گا، 100دن میں تبدیلی آئے گی، عافیہ صدیقی کو واپس لائیں گے وغیرہ جیسے 100سے زیادہ فلمی ڈائیلاگ اس قوم نے سنے لیکن حکومت ختم ہوئی تو پتا چلا کہ یہ تو طویل دورانیے کی ایک فلم تھی جس کی ہدایت کاری، مکالمے بازی اور ایکٹنگ وغیرہ بھی ایک ہی شخص کی ذمہ داری تھی۔

کوئی تین سال سات مہینے کی اس فلم اور پھر 14گھنٹے کے اس آخری سین نے فلم کے ڈائریکٹر و ہیرو کے فین فالوورز کو ایسا سحر زدہ کر دیا کہ ان کے اذہان کسی قسم کی تہذیب، اخلاقیات، اچھے اور عمدہ اوصاف و کردار سے ناپید ہو گئے۔ سوقیانہ اور بازاری زبان ان کا تکیۂ کلام بن چکا ہے، گالم گلوچ، دشنام طرازی، سر پھٹول، دوسروں کی بےعزتی اور خود ستائی یا نرگسیت کا کلچر ان فالوورز کے اعلیٰ انسانی اور مہذب اوصاف کو گھن کی طرح چاٹ چکا ہے۔ اس نوع کے اندازِ گفتگو نے لڑائی جھگڑے اور تُوتکار، کو معمولی بنا دیا ہے۔ آج جوانوں کا ایک نیا طبقہ وجود میں آ چکا ہے جو بدتمیزی کے اس رجحان کو اپنی برتری سمجھتے ہوئے شتر بےمہار ہے۔

پاکستان میں تو شاید لوگوں کو زیادہ محسوس نہ ہوتا ہو لیکن یہاں ہم اوورسیز پاکستانی اس قسم کے غیر مناسب رویے سے سخت شرمندگی کا شکار ہیں۔ مغربی ملکوں کے ملٹی کلچرل معاشرے میں رہتے ہوئے ہمیشہ امن و آشتی کا ماحول چاہتے ہیں، حالت یہ ہو چکی ہے کہ یہ لوگ جتھے بنا کر سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملہ آور ہو رہے ہیں یا کوئی سیاسی مخالف فیملی کے ساتھ کھانا کھا رہا ہو تو یہ لوگ وہاں جا کر بھی ہلڑ بازی شروع کردیتے ہیں کیونکہ ان کے رہنماؤں نے اپنے قول و فعل اور کردار سے سبق ہی یہ دیا ہے کہ کسی کی عزت نہ کرنے سے ہی آپ کی توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ ادب و وقار سے گفتگو یا اختلاف کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ اب اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری کے رویے کو ہی دیکھ لیں، ان لوگوں کا کیا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ پاکستان کی پارلیمنٹ کے کسٹوڈین بنتے نہ کہ عمران خان کے ترجمان۔ یہی روّیہ صدر عارف علوی کا بھی رہا، کیا یہ ان کی آئینی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ مملکت کے صدر بنیں اور شہباز شریف سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیں؟ کیا صدر ممنون حسین نے عمران خان سے وزارتِ عظمیٰ کا حلف نہیں لیا تھا؟ لیکن عارف علوی نے بھی ریاست پر اپنی پارٹی کو ترجیح دی۔ مسلم لیگ ن سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے بھی 2018کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا لیکن کیا وہ سب گزشتہ تین سال سات مہینے سے پارلیمنٹ کا حصہ نہیں رہے؟ ابھی چند روز پہلے تک جو لوگ اپنا اور اداروں کا ایک پیج پر ہونے کا غوغا کرتے تھے آج انہی اداروں پر سرعام دشنام طرازی کر رہے ہیں، وہی عمران خان جو اداروں کو نیوٹرل اور پرو ڈیموکریٹک قرار دے رہے تھے، آج وہی افواجِ پاکستان کو اپنے کارکنوں سے گالیاں نکلوا رہے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے تک وُہ جس عدلیہ کے انصاف کی قسمیں کھاتے تھے آج اسی عدلیہ کے ججز پر یکطرفہ فیصلوں کا الزام لگا رہے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب کہ یہ روش ہیرو مِتھ میں مبتلا ہمارے بعض لوگوں کی بدتہذیبی اور نفرت قوم کو کس پاتال میں لے جائے گی۔ گُزرے ہفتے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جھگڑے کے ایک واقعہ نے اس کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور پھر ایسی ہی سیاسی بحث کے نتیجہ میں بدقسمتی سے ایک قتل بھی ہو گیا لیکن جناب خالد شریف سے معذرت کے ساتھ حالیہ صورتحال یوں ہے کہ؛

نکلا کچھ اس ادا سے کہ تہذیب ہی بدل گئی

اِک شخص آدھی قوم کو بد زُبان کر گیا

تازہ ترین