• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس دریافتوں کی حیرت انگیز اور دلچسپ دنیا میں حقیقت تخّیل سے بھی زیادہ عجیب اور حیران کن ہے۔ میں نے اپنے گزشتہ مقالے میں ہوشیار جنگٰی ہتھیاروں کا ذکر کیا تھا کہ کیسے دیوار کے پیچھے چھپے دشمن کو ایک مخصوص گن کی مددسے نشانہ لگا کر چھوٹے بم کی مانند گولی سے اڑایا جا سکتا ہے ۔ کس طرح ٹینک اور آبدوز کو دشمن کی نظروں سے ایک مخصوص مادّے ("metamaterial") کے ذریعے اوجھل کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور حیران کن دریافت ہے کہ اب بینائی سے محروم افراد اپنی زبان کے ذریعے دیکھ سکتے ہیں۔ا ن کے چشموں میں ایک کیمرہ نصب کر دیا جاتاہے جو کہ ارد گرد کے ماحول کی تصاویر لیتا ہے اور ان کو ایک چھوٹے سے آلے کی مدد سے برقی خاکوں میں تبدیل کرتا ہے جو کہ بصارت سے محروم افراد کے منہ میں لگے لالی پاپ جیسے آلے تک پہنچتے ہیں جس میں محرک قبول (sensors) موجود ہوتے ہیں جو کہ ان خاکوں کو زبان کے اعصابی نظام سے دماغ تک پہنچاتے ہیں اور دھندلی بصارت حاصل ہوجاتی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی امریکی کمپنی وائی کیب Wicabجو Wisconsin میں واقع ہے، وہاں تیّار کی گئی ہے اور اب تجارتی طور پر بھی دستیاب ہے۔اس ٹیکنالوجی کا استعمال ان برطانوی اور امریکی سپاہیوں کے لئے کیا گیا تھا جو افغانستان اورایران کی جنگوں کے دوران اپنی بصارت سے محروم ہو گئے تھے۔
چیزوں کو اپنی سوچ کے تابع ادھر سے اُدھر کرنے کی ٹیکنالوجی بھی دریافت ہو گئی ہے۔ایک ٹوپی جس میں محرک قبول (sensors) موجود ہوتے ہیں اسے پہننے سے مکمل اپاہج یا فالج زدہ شخص جو کہ انگلی تک نہ ہلا سکتا ہومحض اپنی سوچ کے بل بوتے پر مطلوبہ جگہ تک پہنچ سکتا ہے ۔ اسکی سوچوں کے ذریعے احکامات کو ٹوپی میں لگے سینسرز شناخت کر کے کمپیوٹر تک پہنچاتے ہیں اور کمپیوٹر ان احکامات کو وہیل چیئر میں نصب ایک چھوٹی سی موٹر تک پہنچاتا ہے جو کہ وہیل چئیر کو سوچ سے ملنے والے حکم کے مطابق سمت کی طرف لے جانے میں مدد کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مد د سے گزشتہ سال جرمنی میں BMW گاڑی چلائی گئی جو محض سوچ کے بل بوتے پر چلائی گئی تھی۔
انسانی دماغ کائنات کی سب سے پیچیدہ شے ہے۔ یہ تقریباً 100کھرب نیورون (neurons)․پر مشتمل ہوتا ہے جس کا ایک نیورون تقریباً 7,000 دوسرے نیورونneurons) ( کے گچّھے سے جڑا ہوتا ہے۔یہ سات سو ہزار کھرب نیورونز کا حیرت انگیز تانابانا ہمیں سوچنے ،سمجھنے اور کام کر نے کی صلاحیت بخشتا ہے ۔ سوچ کو پہلے مادّے سے جدا کوئی اور چیز سمجھا جاتا تھا جبکہ سوچ درحقیقت آپس میں منسلک سالموں کا ایک سیٹ ہے جسے مختلف انداز سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔مثلاً بازار میں بہت سی سکون آور گولیاں دستیاب ہیں جو کہ مایوسی یا افسردگی سے چھٹکارا دلاتی ہیں۔ میری تحقیق کاکچھ حصہ یادداشت کے سالموں اور ان سے مختلف مرکّبات (glycoproteins) کے تعلق کا بھی اعادہ کرتا ہے کہ کیسے تخیّلات کی تشکیل، ان کا ذخیرہ اور یادداشت میں یہ مرکّبات معاون ثابت ہوتے ہیں USA) (Pure Appl. Chem., 74(4), 511 (2002), لہذٰا تخّیلات کوئی غیر مادّی شے نہیں بلکہ انکی ایک سالم حقیقت ہے۔وہ دن دور نہیں جب جینیات کی تحقیق کرتے کرتے ہم عا م انسانوں میں ’اعلیٰ ذہانت‘ کا عنصر پیدا کر سکیں گے۔
کیا ہم غذاکے ذریعے اپنی یادداشت بڑھا سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے ، ہاں۔کم مقدار میں غذا کھانے اور غذا میں شامل حراروں پر قابو رکھنے سے ہم اپنی قوّتِ حافظہ میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔جامعہ Munster جرمنی میں Agnes Floelاور انکے ساتھیوں کی تحقیقاتی ٹیم کے مطابق جب 30% کم حراروں والی غذا 60 سال کی عمر کے لوگوں کے ایک گرو پ کو دی گئی تو انہوں نے ذہانت کے ٹیسٹ میں دوسرے مساوی گروپ کی نسبت 20% زیادہ نمبر حاصل کئے ۔
جہاں کیمیا انسا نی جسم کے ہر کام میں شامل ہے وہاں کیا یہ جنسی روّیوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے ؟ بہت سے جانوروں کے معاملے میں یہ بات طے ہے کہ مخالف جنس کو اپنی جانب متوجّہ کرنے کے لئے کسی خاص کیمیائی اجزاء کا اخراج ہوتا ہے مثلاً مکھّیوں اور کیڑوں میں مخالف جنس کو اپنی طرف متوجّہ کرنے کا بڑا ہی پیچیدہ نطام ِ موجود ہوتا ہے جس میں ایک خاص ہار مون ("pheromones"). کا اخراج ہوتا ہے۔ ان کیمیائی اجزاء کے اخراج کی طرف کیڑوں کی حسّاسیت اسقدر زبردست ہوتی ہے کہ آپ کا دماغ چونکا دیگی۔مثال کے طور پر اگر ایک چھوٹی سی بوتل میں کسی خاص کیڑے کا ہارمون موجود ہو تو سات سے آٹھ میل دورسے پتنگا اور تتلی اس ہارمون کی کشش محسوس کر کے پھڑ پھڑانا شروع ہو جاتی ہیں۔اسی حسّاسیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مادہ کیڑوں کو پکڑنے کے لئے ان ہارمونز کا جال بچھایا جاتا ہے تاکہ ان کیڑوں کی افزائش ِ نسل کو روکا جا سکے۔انسانوں میں کیا ہوتا ہے؟ بہت سی آرائشِ حسن کی کمپنیاں اس جستجو میں لگی ہوئی ہیں کہ مخالف جنس کو اپنی طرف متوجّہ کرنے والی خوشبوئیں دریافت کر لیں ۔بلکہ کچھ کیمیائی اجزاء تو بنانے میں کامیاب بھی ہو گئے ہیں جو کہ خواتین کومخالف جنس کی سمت کھینچتے ہیں۔مثال کے طور پر مردوں کی بغلوں سے خارج ہونے والا مرکّب ("androstadienone") خواتین میں دباؤ کے ہارمون ("cortisol")کو بڑھادیتا ہے جس کی وجہ سے خواتین مردوں میں کشش محسوس کرتی ہیں۔
مردوں میں ("testosterone") ہارمون کا استعمال جنسی کشش بڑھانے کا بہت ہی پرانا علاج ہے ۔ اور بھی دیگر مرکّبات تجارتی بنیادوں پر مردوں میں بڑھتی عمر کے ساتھ بڑھنے والی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے دستیاب ہیں ۔ اس لئے جب ہم کسی صحیح جوڑی کے لئے یہ جملہ کہتے ہیں کہ "right chemistry" ہے تو تصوّر کریں کہ اس جملے میں کس قدر حقیقت ہوتی ہے ۔سائنس کے میدان میں مستقل ہر شعبے میں ترقّی ہو رہی ہے ۔پاکستان میں بھی آپ نے گزشتہ دہائی میں اعلیٰ تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی میں شاندار تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ہوگا جو کہ 2002ءء میں میری سرپرستی میں بحیثیت چےئر مین ہائر ایجوکیشن کمیشن شروع کئے گئے پروگراموں کے تحت رونما ہوئی تھیں۔ یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اپنے منشور میں اعلان کیا ہے کہ دیگر اقوام کے لئے ایک بہترین ماڈل کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آنے والے اس شاندار ادار ے HECکی خود مختاری کی حفاظت کرے گی ۔یہ نہایت ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کو ان شیطانی طاقتوں سے بچایا جائے جو گزشتہ پانچ سالوں سے اس کے گرد ڈیرہ ڈالے ہوئی ہیں ۔کبھی بے ضابطہ حکاّم کی شکل میں کبھی جعلی ڈگریوں کے حامل سیاستدانوں کی شکل میں ۔
پاکستان کا مستقبل اس کی نوجوان نسل میں ہے ۔یہ مستقبل اسی وقت سنور سکتا ہے اور پاکستان اپنی مایوسیوں کے اندھیروں سے نکل کر ترقی یافتہ اقوام کی صف میں پر وقار طریقے سے اسی وقت کھڑا ہو سکتا ہے جب وہ اپنی نوجوان نسل پرتعلیم و تربیت کے لئے سرمایہ کاری کرے اور انہیں ایسے مواقع فراہم کرے جن سے جدّت طرازی پنپ سکے۔
تازہ ترین