دنیا بھر میں مہنگائی کی وجہ سے جہاں ہر قسم کی خوردونوش کی قیمتیں بڑھی ہیں وہیں ان میں سب سے اہم شئے جس کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے، اس کا تعلق براہ راست انسانی زندگی اور صحت سے ہے۔میرا اشارہ ادویات کی طرف ہے۔پاکستان میں ادویہ سازی کی صنعت کافی تیزی سے ترقی کررہی ہے۔ گرچہ کہ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیز مختلف وجوہات کی بناء پر اب پاکستان میں اپنا آپریشن موقوف کر چکی ہیں ،تاہم کچھ ابھی بھی ہنوز کاروبار میں مصروف ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مقامی فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے بھی ترقی کے بام عروج کو چھو لیا ہے۔ اس وجہ سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کم ازکم دواؤں کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں۔
مقامی فارماسیوٹیکل صنعت میں نئی دواؤں کی تخلیق پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اس لیے کہ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیز محض مشہور کمپنیوں کے ایکسپائر پیٹنٹ فارمولے کو اپنا کر ان کی جینیرک دوا تیار کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس طرح کم سے کم سر مایہ کاری میں زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاتا ہے لیکن بہرحال اس سے عوام کی ضرورت بھی پوری ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 800سے زیادہ چھوٹی یا بڑی فارماسیوٹیکل انڈسٹریز ہیں جن کی خام مال (Raw Material) کی تقریباً تمام تر ضروریات بیرون ملک درآمد سے پوری ہوتی ہیں۔
یہاں خام مال سے مراد وہ میٹیریل ہے جسے سائنسی زبان میں ہم active pharmaceutical ingredient یا مختصراً API بھی کہتے ہیں۔ انہیں Bulk Drug بھی کہا جاتا ہے۔ دراصل دوا یہی ایک مالیکیول ہوتا ہے۔ یعنی وہ مالیکیول جو دراصل کسی بھی بیماری کے خلاف کام کرتا ہے۔ دیگر مواد جو اس مالیکیول کو باہم جوڑ کر اسے ایک ٹیبلیٹ، کیپسول، سیرپ یا کسی بھی شکل میں ایک جگہ رکھنے اور بعد میں جسم کے اندر بروقت ضرورت خون میں شامل کرنے کے لیےسرگرم عمل ہوتے ہیں انہیں excipients کہا جاتا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ زیادہ ادویات میں استعمال ہونے والا APIاپنی کیمیائی ترکیب کے لحاظ سے ایک پیچیدہ مالیکیول ہوتا ہے، جس کی تیاری بھی پیچیدہ اور مشکل مراحل پہ مشتمل ہوتی ہے اور اس میں لاگت بھی زیادہ آتی ہے۔
اینٹی بائیوٹک مالیکیولز بھی اسی زمرے میں آتے ہیں جن کی ساخت پیچیدہ ہوتی ہے۔ مقامی کمپنیز یہی آسان سمجھتی ہیں کہ ہر قسم کے خام مال کو بیرون ملک سے درآمد کیا جائے اور خود عام جینیرک مصنوعات بنا کر مارکیٹ کریں۔ کچھ مقامی کمپنیز اس طرح بھی کام کر رہی ہیں کہ دوسرے ممالک سے سستی قیمت میں جینیرک دوائیں درآمد کرکےپاکستان میں اپنے نام سے مارکیٹ کرتی ہیں۔ اس طرح پاکستان کی فارماسیوٹیکل کمپنیز 90فی صد دواؤں کی ضرورت مقامی طور سے پورا کرنے کی اہل ہیں لیکن API کی مد میں محض 12 فی صد ضروریات پوری کر پاتی ہیں۔ باقی تمام کے تمام مواد غیر ممالک خصوصاً چین یا بھارت سے درآمد کی جاتی ہیں۔
یہی اصل دوا کی قیمت بڑھنے کی ایک ٹھوس وجہ بھی ہے۔حال ہی میں کوویڈ-19کے نتیجے میں ہونے والی درآمدات و برآمدات کی راہیں مسدود ہوجانے کی وجہ سے دنیا بھر میں ایسی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ مقامی طور پر دواؤں پر آنے والی لاگت کو کم کرنے لوگوں تک اس کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں API کی پیداوار کی طرف توجہ دیں۔ کچھ دوائیں ایسی ہیں جن کے بنیادی مالیکیول بہت سادہ اور آسان ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثالpain killers ہیں۔ ان ادویات کو OTCیعنی Over The Counter Medicines بھی کہتے ہیں۔ ان کے بنیا دی جُز یعنی IPA ایسے کیمیکلز ہیں جو کیمسٹری کے طالب علم لیبارٹری میں تیار کرسکتے ہیں ۔
ان کی تیاری میں جن کیمیکلز کا استعمال ہوتا ہے وہ انتہائی عام، سستے اور آسان کیمیائی عمل کے ذریعے تیار کئے جاتے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس میدان میں پاکستان میں کم سے کم کمپنیز ہیں اور ہم صرف 4 فی صد ضرورت مقامی طور پر پوری کر پاتے ہیں جب کہ 90فی صد سے زائد ضروریات کے لیے ہمیں بیرون ملک سے مدد لینی پڑتی ہے۔ ایسی بہت سی API ہیں جو نسبتاً آسانی کے ساتھ تیار کی جاسکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ہیلتھ ریگولیٹرز یا صحت سے متعلق وہ ادارے جو دواؤں کی تیاری اور اس سے متعلق تمام تر عمل کو قواعد و ضوابط کے دائرے میں رکھتے ہیں، قوانین بناتے اور ان پر سختی کے ساتھ عمل کرواتے ہیں، وہ خام موادکی تیاری میں ان قواعد و ضوابط کو کافی نرم رکھتے ہیں۔ ان قوانین کو عرف عام میں( Good Manufacturing Practices (GMP کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ فارماسیوٹیکل انڈسٹریز کو GMP کی شقوں پر عملدرآمد کرنے کی مد میں کافی خطیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ دنیا بھر میں دواؤں کی مینوفیکچرنگ ہو یا ان سے متعلق API کی تیاری، دونوں صورتوں میں ان کی نگرانی ایک ہی قسم کے بنیادی قوانین کرتے ہیں، تاہم موّخرالذکرکے لیےان قوانین کی بہت سی شقیں اتنی سخت نہیں رہتیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس خام مال کو ایک اور سخت پروسیس سے گزار کر ہی مکمل دوائی کی شکل دی جاسکتی ہے۔ اس لیےایک صارف کے لیے اس بات کی مکمل گنجائش ہوتی ہے کہ جب اصل پروڈکٹ یعنی دوائی اس کے ہاتھ میں پہنچتی ہے تو وہ اس قدر سخت قواعد و ضوابط سے گزر چکی ہوتی ہے کہ اس کی کوالٹی یا تاثیر میں کسی قسم کی کمی بیشی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ اس لیے API کی مینوفیکچرنگ کرنے والی کمپنیز کو نسبتاً کم مسائل کا سامنا ہوتا ہے،جس کی وجہ سے ان کی تیاری میں نسبتاً کم لاگت آتی ہے اور بہت سے دوسرے اخراجات جو GMP برقرا رکھنے کے لیے ادا کرنے ہوتے ہیں، یہ اس سے بچ جاتے ہیں۔
نیز اس میں قسم قسم کی مشینوں کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر ٹیبلیٹ یا کیپسول بنانے کے لیے ابتدائی طور پر مکسنگ اور دیگر کئی مراحل سے گزرنے کے بعد آخر میں انتہائی پیچیدہ اور اسٹیٹ آف دی آرٹ tablet press یا encapsulator کا استعمال ہوتا ہے،جس سے ایک ٹیبلیٹ یا کیپسول اپنی اصل شکل میں آتاہے۔ اور پھر اس کے بعد ان کی مختلف مراحل میں پیکنگ کی باری آتی ہے۔ یعنی دوا کو موسمی اثرات سے بچانے کے لیے پہلے اسے ایلمونیم کے کور میں پیک کرنا ہوتا ہے جسے primary packaging کہتے ہیں اور جو بہت نازک مرحلہ ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد اس کی boxing یعنی secondary packaging کی جاتی ہے۔
اس وقت پاکستان میں صرف سات ایسی کمپنیز ہیں جو تقریباً تیس کے قریب APIs تیار کر رہی ہیں۔ ان میں کچھ اینٹی بائیوٹکس بھی شامل ہیں۔ لیکن 800سے زائد فارما انڈسٹریز کے لیےصرف سات API مینوفیکچررز یقیناً ایک انتہائی مایوس کن تعداد ہے۔ بھارت میں اس وقت ملک میں مصروف کار فارماسیوٹیکل کمپنیز کی API کی ضروریات کا 70 فی صد قومی طور پر پورا کیا جاتا ہے جب کہ سالانہ ساڑھے تین بلین امریکی ڈالر قیمت کا خام مال برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکاری سطح پر پاکستان میں API کی تیاری کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
اس صنعت میں کم لاگت بھی ہے، اور زیادہ منافع بھی۔ جب کہ ملک کا زرِ مبادلہ بچانے، دواؤں کی قیمت کم کرنے اور عام شہریوں اور مریضوں کی مدد کرنے کا احساسِ تفاخر اپنی جگہ ہوگا۔ سرمایہ کاروں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اپنے سرمائے سے ایسا انقلاب لائیں کہ جس سے صرف انہیں ہی فائدہ نہ ہو بلکہ ملک کا بھی فائدہ ہو۔
اس سے مزید تیکنیکی صلاحیتوں میں اضافہ ہوگا، صنعت سازی کو مزید فروغ ملے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قومی معیشت پروان چڑھے گی۔اس سلسلے میں DRAP (ڈرگ ریگولیٹوری اتھارٹی آف پاکستان) کو APIکی مینو فیکچرنگ کے حوالے سے منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ حکومتی نمائندے اس بات پر غور تو کریں کہ انہیں اس صنعت کی ترقی میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آخر ہم کب تک اوروں کے سہارے چلتے رہیں گے۔