• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم عمران خان پر اِن دِنوں ذوالفقار علی بھٹو بننے کا جنون سوار ہے حالانکہ حکومت میں آنے سے پہلے وہ اسی قبیلے میں شامل تھے جو بھٹو شہید کے خلاف وطن دشمنی تک کے الزامات عائد کرتا رہا ہے لیکن جب سے وہ اپنی نا اہلی اور ہر ادارے سے چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے سیاسی مشکلات کا شکار ہیں، انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی یاد بہت ستا رہی ہے۔

 وہ اقتدار میں آکر بھٹو شہید کی طرح متفقہ آئین اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام جیسا کوئی بڑا کارنامہ تو کجا، روٹین کی حکومت چلانے میں بھی ناکام رہے ہیں۔ ان کا پونے چار سال کا دور سیاسی انتشار، اقتصادی بدحالی اور انتظامی افراتفری کا دور رہا۔

اس پورے دور میں حکومت نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی تھی ما سوائے اپوزیشن، صحافیوں، کسانوں، وکیلوں، عدلیہ، الیکشن کمیشن اور اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے۔ لیکن جب وہ اپنے غیر سیاسی رویّوں کی وجہ سے چاروں طرف سے محصور ہوگئے تو انہوں نے خود کو پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی جینئس ذوالفقار علی بھٹو کے ہم پلّہ قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا کہ بھٹو کی طرح انہیں بھی امریکی سازش کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

 اس باب میں روٹین کے ایک سفارتی مراسلے کو جواز بنایا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ قومی سلامتی کمیٹی نے بھی اس کی توثیق کر دی ہے، جس میں مسلح افواج کیااعلیٰ ترین قیادت بھی شامل ہے جس نے پہلے غیر ملکی خبر رساں ادارے رائیٹر ز اور بعد میں ڈی جی آئی ایس پی آر کے ذریعے سختی سے کسی قسم کی امریکی سازش کو مسترد کر دیا ہے۔

 نیز نئی حکومت نے بھی اس سلسلے میں آزادانہ تحقیقات کرانے کا حکم دیا ہے۔ لیکن عمران خان جن کی سیاست ہی جھوٹ پر مبنی ہے اور جس کو وہ بڑے فخر سے یوٹرن قرار دیتے ہیںبضد ہیں کہ امریکہ ان کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ اور وہ بصد خرابی حکومت سے باہر نکلنے کے بعد اس جھوٹ کے سہارے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیںجو ایک خطرناک کھیل ہے جس سے پاکستان نہ صرفخارجہ محاز پر مزید تنہا ہو سکتا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی خانہ جنگی کا ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

بد قسمتی سے بعض حلقوں اور اداروں نے برسہا برس کی محنت سے عمران خان کا امیج ایک دیوتا کے طور پر بنایا جو کبھی غلطی نہیں کر سکتا اور نہ ہی جھوٹ بول سکتا ہے لیکن گزشتہ پونے چارسال کی تباہ کن کارکردگی کے بعد یہ دونوں امیج زمین بوس ہوگئےاور ان کے ووٹران سے دور ہوگئے جس کا ثبوت دس میں سے 9ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی عبرتناک شکست ہے۔

لیکن ان کا فین کلب بھی ہے جس کے بارے میں اوریا مقبول جان نے کہا ہے کہ عمران خان اگرنعوذ بااللہ نبوت کا بھی دعویٰ کردے تو یہ جنونی کلب اسے قبول کر لے گا۔

جہاں تک عمران کا خود کو بھٹو قرار دینے کا معاملہ ہے تو دونوں میںکوئی مماثلت نہیں۔ بھٹو شروع سے خود کو سیاست کیلئے تیار کر رہے تھے۔ جبکہ عمران کا آکسفورڈ میں ایڈمیشن بھی کھیلوں کی بنیاد پر ہوا۔

 ذوالفقار علی بھٹو نے 1958سے لیکر 1967تک حکومت میں وزیرِ معدنیات سے لیکر وزیرِ خارجہ تک خدمات سرانجام دیں اور اِس دوران ان کے پاس حکومتی انتظامی امور کا نہ صرف وسیع تجربہ تھا بلکہ وزیرِ خارجہ کی حیثیت سے وہ پاک چائنہ دوستی کے معمار اور سامراج مخالف سیاسی رہنما اور عالمی دانشور کے طور پر جانے جاتے تھے۔

انہوں نے 28اپریل 1977کو قومی اسمبلی میں اپنی تقریر میں سفید ہاتھی یعنی امریکہ کو اپنے مخالف ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے وہ فلسطین، ویتنام، قبرص اور کشمیر کے بارے میں میرے موقف کو ابھی تک نہیں بھولا۔

امریکی وزیرِ خارجہ نے ایٹمی پروگرام ختم کرنے کی وارننگ دیتے ہوئے جناب بھٹو کو عبرتناک مثال بنانے کی دھمکی دی، انہوں نے اسلامی ممالک کو یکجا کرنے اور تیل کا ہتھیار استعمال کی حکمت عملی بنائی اور سب سے بڑھ کر افغانستان کی صورتِ حال میں امریکہ کسی حالت میں بھٹو کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔

اس لیے اس نے نہ صرف بھٹو کو فوجی بغاوت کے ذریعے اقتدار سے نکالا بلکہ اسے پھانسی کی سزا بھی دلوائی۔ سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان نے پونے چار سال میں وہ کونسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کی بنیاد پر امریکہ اسے ہٹانا چاہتا ہے اور وہ بھی خط لکھ کر جب کہ عمران خان کی آزاد خارجہ پالیسی نے چین سے لیکر سعودی عرب تک کو ناراض کر دیا ہے تو امریکہ اسے کیوں ہٹائے گا؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ عمران اپنی بدترین کارکردگی کا ملبہ امریکی سازش پر ڈال کر سیاسی شہید بننا چاہتا ہے جو ممکن نہیں ہوگا کیونکہ کاٹھ کی ہنڈیا بار بار نہیں چڑھتی۔

بھٹو شہید اور عمران میں بڑا فرق یہ ہے کہ بھٹو کی موت کے بعد بھی اس کے خلاف عدم اعتماد نہیں ہوا جبکہ عمران کی زندگی میں ہی اس کے اپنے لوگوں نے اس کے خلاف عدم اعتماد کر دیا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین