وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کابینہ ارکان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، تجربہ کار افراد کابینہ میں ہیں جنہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔
گزشتہ روز حلف اٹھانے والی نئی وفاقی کابینہ کا پہلا اجلاس اسلام آباد میں وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ آپ کی قیادت کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے آپ کو یہ ذمے داری سونپی، عوام کو جو توقعات آپ سے ہیں آپ خلوص سے پانسہ بدل دیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم غربت، بے روزگاری اور افراطِ زر جیسے چیلنجز سے نبرد آزما ہیں، مشکلات کے خلاف جنگ میں گزشتہ حکومت بری طرح ناکام رہی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا کہ زہریلے پروپیگنڈے کا حقائق کی مدد سے جواب دینا ہو گا، ساڑھے 3 سال میں جو کرپشن عروج پر تھی اس کو ختم کرنا ہے، عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی عطا کی، یہ اتحاد پاکستان کی تاریخ کا خاصہ وسیع اتحاد ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کی تشکیل میں8، 10 دن لگے، اس دوران ہم پر تنقید کے تیر بھی برسائے گئے، حکومتی وسیع اتحاد پر تعریف اور تنقید بھی کی جا رہی ہے، کابینہ کے ارکان اپنا تجربہ اور قابلیت پوری طرح بروئے کار لائیں گے، عوام آپ سے جو توقعات لگائے ہوئے ہیں، امید ہے کہ آپ پانسہ بدل دیں گے۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ پچھلی حکومت بری طرح ناکام رہی ہے، آپ کے سامنے کئی چیلنجز ہیں، لوڈ شیڈنگ کا چیلنج ہے، آپ کو لوڈ شیڈنگ سمیت دیگر معاملات پر بریفنگ دی جائے گی، درجنوں کارخانے ایندھن اور بجلی نہ ہونے سے بند ہیں، مسائل حل کرنے کے لیے ہمیں اپنا پورا زور استعمال کرنا ہو گا، باقی صوبوں کے مسائل بھی دردِ دل رکھ کر حل کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ چینی کہاوت ہے کہ جہاں چیلنج ہے وہاں موقع بھی ہے، عزم سے کام کریں گے تو پہاڑوں اور دریاؤں کو بھی سر کر سکیں گے، پاکستان کی پہلی کابینہ ہے جو جھرلو کی پیداوار حکومت کو آئینی طور پر ہٹا کر وجود میں آئی ہے، الیکشن ہوں گے تو سب کو اپنے منشور اور سوچ کے مطابق عوام میں جانا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ زہریلے پروپیگنڈے کا حقائق سے جواب دینا ہو گا، غلط بیانی سے نہیں، سچائی جھوٹ کو زمین بوس کر دے گی، گزشتہ دورِ حکومت میں کی جانے والی کرپشن کا راستہ روکنا ہے، قوم کے بچوں کا آخری بال بھی قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جرمنی نے اپنی شکست کو رونے دھونے میں تبدیل نہیں کیا، اسی لیے واپس اوجِ ثریا تک پہنچ گئے، ہمیں قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک کی ناؤ کو کنارے لگانا ہے، ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا، چاروں صوبوں بالخصوص بلوچستان کے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔
وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پونے 4 سال میں ملک کے ساتھ جو ہوا وہ ناقابلِ یقین ہے، بدترین انتقامی کارروائی پہلے کبھی نہیں دیکھی، اس عرصے میں فسطائیت اور سنگدلی کا مظاہرہ کیا گیا، کوئی جادو کی چھڑی کام نہیں آئے گی، چاروں صوبوں کے عوام کو آپ سے توقعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ باہمی مشاورت سے چیلنجز پر قابو پا لیں گے، مجھے آپ کو مشورے دینے ہیں جو اچھے بھی ہوں گے اور تلخ بھی، مشاورت سے چلیں گے تو کامیابی قدم چومے گی، قائدِ اعظم کی روح بھی تڑپ رہی ہو گی کہ یہ وہ پاکستان نہیں جس کے لیے قربانی دی۔
وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ وقت لگا لیکن ایک قابل وفاقی کابینہ تشکیل پا چکی ہے، ایک ہی راستہ ہے، محنت، محنت اور محنت، معیشت کی بحالی کے لیے مزید وسائل پیدا کرنے ہوں گے، ہمارے اتحادیوں کو ماضی میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، میں آپ کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجے میں اس منصب پر فائز ہوا ہوں۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی کابینہ نے ای سی ایل کمیٹی کی منظوری دے دی، یہ کمیٹی ای سی ایل سے متعلق ٹی او آرز کا جائزہ لے کر کابینہ کو رپورٹ دے گی، نام ای سی ایل میں ڈالنے یا نکالنے سےمتعلق فیصلہ بھی ای سی ایل کمیٹی کرے گی۔
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں نئے پاکستان کی چھوڑی ہوئی معاشی صورتِ حال پر بریفنگ دی گئی۔
ذرائع کے مطابق کابینہ کو بریفنگ دی گئی کہ 18-2017ء میں جی ڈی پی کا گروتھ ریٹ 6 اعشاریہ 1 فیصد تھا جو 22-2021ء میں صرف 4 فیصد رہا۔
بریفنگ میں وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ اشیائے خور و نوش کی مہنگائی کی شرح 18-2017ء میں 2 اعشاریہ 3 فیصد تھی، گزشتہ دورِحکومت میں اشیائے خور و نوش کی مہنگائی کی شرح بڑھ کر 22-2021ء میں 10 اعشاریہ 8 فیصد پر پہنچ گئی۔
وفاقی کابینہ کو بتایا گیا کہ سی پی آئی انڈیکس کے تحت 18-2017ء میں مہنگائی کی شرح 3 اعشاریہ 9 فیصد تھی جو 22-2021ء میں بڑھ کر 10 اعشاریہ 8 فیصد ہو گئی۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ ایس پی آئی انڈیکس کی شرح 18-2017ء میں 0 اعشاریہ 9 فیصد تھی جو 22-2021ء میں بڑھ کر 17 اعشاریہ 3 فیصد ہو گئی۔
ذرائع کے مطابق کابینہ کو ملک کی معاشی صورتِ حال پر تفصیلی بریفنگ میں بتایا گیا کہ گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں و غلط فیصلوں کی بدولت تقریباً 5600 ارب روپے کے مالی خسارے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
وفاقی کابینہ کو بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کی منظوری سابق وزیرِاعظم عمران خان نے دی، ایف بی آر اور وزراتِ خزانہ کی تجاویز کو نظر انداز کر کے یہ منظوری دی گئی۔