حذیفہ احمد
ماہرین ِارضیات اور آثار قدیمہ کے ماہرین قدیم رکازی (فوسل) دریافتوں کی عمر کا پتا لگانے کے لیے جو طریقے کار استعمال کرتے ہیں اس کو ’’کاربن ڈیٹنگ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن جاننا یہ ہے کہ کسی شے کی عمر کا پتا لگانے کا یہ سائنسی طر یقہ کس طر ح کام کرتا ہے۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ تمام جان دار، نباتات و حیوانات، ہائیڈرو کاربن کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے جسم میں ہائیڈروجن اور کاربن پر مشتمل خلیے ہوتے ہیں۔ کاربن ایسا ایٹم ہے، جس کے مرکز (نیوکلیس) میں چھ پروٹون اور چھ نیوٹرون ہوتے ہیں، مگر تمام کاربن ایٹم ایک جیسے نہیں ہوتے۔
کچھ ایسے کاربن ایٹم بھی پائے جاتے ہیں جن کے نیوکلیس میں سات یا آٹھ نیوٹرون ہوتے ہیں۔ اس طرح کاربن کی تین شکلوں کو کاربن 12، کاربن13، اور کاربن 14کہا جاتا ہے۔ ہمارے قدرتی ماحول میں کاربن 12کی تعداد کاربن 13اور کاربن14 کے مقا بلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ ہم نے تجربے سے معلوم کیا ہے کہ ہوا کے کسی بھی نمونے میں اگر ایک ہزار کاربن 12کے ایٹم ہیں تو ساتھ میں صرف ایک کاربن 14 کاایٹم ہوتا ہے۔ تو پھر کاربن 12 اور کاربن 14کا یہ تناسب ان تمام جان داروں میں پایا جائے گا جو ہوا کو سانس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک اچھی بات یہ ہے کہ کاربن 14 تاب کار ہوتا ہے اور وقت گزرنےکے ساتھ یہ ایک نائٹروجن ایٹم بن جاتا ہے۔ اس کی یہی تاب کارخاصیت ہماری معاون ہے۔ اگر آپ کے پاس کسی جان دار کی ہڈی کا نمونہ ہو ،جس میں کاربن12 اور کاربن14 کا تناسب ایک ہزار بٹا ایک ہو تو آپ سمجھ جائیں گےکہ یہ ہڈی بالکل نئی ہے، کیوں کہ اس میں کاربن12 اور کاربن 14 کا تناسب وہ ہی ہے جو فضا میں ہے۔
لیکن اگر آپ کے پاس ایسی ہڈی ہو، جس میں ایک ہزار کاربن 12 کےایٹم ہوں ،مگر ایک بھی کاربن 14 کاایٹم نہ ہو توآ پ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ہڈی پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ پانچ ہزار سال پہلے اس ہڈی میں کاربن 12 اور کاربن 14 کا وہ ہی تناسب تھا جو فضا میں ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ کاربن14کا ایٹم نائٹروجن میں تبدیل ہوگیا اور اب اس نمونے میں صرف کاربن12کے ایٹم بچے ہیں۔ اس طرح کسی بھی رکاز یافوسل کی قدامت کا تخمینہ کاربن ڈیٹنگ کے ذریعے لگایاجاسکتا ہے۔
ہم اسے یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری زمین کی انتہائی بالائی فضاء میں موجود نا ئٹر و جن گیس سورج یا دیگرستاروں سے آنے والی تیز اور ر یڈ یا ئی شعاؤں کی وجہ سے اپنی نیوکلیائی ساخت بدل لیتی ہے اور ریڈیو ایکٹیو کاربن14 کے طو ر پر فضا میں شامل ہو جاتی ہے۔ یہ کاربن ایٹم چوں کہ زیادہ دیر تک اس شکل میں نہیں رہ سکتے، اس لیے یہ آکسیجن کے ساتھ مل کر کاربن ڈائی آکسائیڈ بنا لیتا ہے۔ درخت اور پو دے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں۔ دیگر جان داریہ پودے کھاتے ہیں۔ ان جان داروں کو گوشت خور جانور کھاتے ہیں۔ اس طرح کاربن14 ہماری فوڈ چین میں شامل ہو جاتاہے۔
ریڈیو کاربن ڈیٹنگ قدرتی اشیا میں موجود ان ہی کا ر بن ایٹمز کی تعداد کے لحاظ سے یہ اندازہ لگاتی ہے کہ اس مادّے کو ڈی کمپوز ہوتے یا اجزا میں بکھرتے ہوئے کتنا عر صہ گزر چکا ہوگا۔ 87 دراصل فضا میں موجود ہر گیس کا خاص تناسب ہو تا ہے۔ یہ خاص تناسب کم و بیش ہمیشہ یکساں رہتا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہم اس فضا میں سانس نہیں لے سکتے۔ سانس کے ذریعے ہوا کا یہ خاص تناسب تمام جان داروں کے ا جسام میںیک ساں انداز میں موجو د ہے۔
جب کوئی جا ن دار مر جاتاہے تو کیمیائی ٹوٹ پھوٹ کے عمل کی وجہ سے گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور یہ تناسب بدلنا شروع ہو جاتاہے۔تاب کارعناصر ایک خا ص تناسب سے ڈی کمپوز ہوتے ہیں۔ان کے ڈی کمپو ز ہونےکا عمل وقت سے منسلک ہے۔ یعنی ایک خاص عر صے میں ایک خا ص مقدار ہی ڈی کمپوز ہوگی۔ اس طرح جب کسی مادّے میں موجود تاب کار کاربن کے ایٹمز کا تنا سب دیکھا جاتا ہے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ما دّے کو گلتے ، سڑ تے ہوئے کتنا وقت گزرچکا ہے۔ اسی محتا ط اندازے کو’’ ر یڈیو کاربن ڈیٹنگ‘‘ کہا جاتا ہے۔
کاربن ڈیٹنگ کس حد تک قابل اعتبارہے یا یہ کتنی پرانی اشیاء کی عمر بتا سکتی ہے، اس ضمن میں بہت سے افراد کو تحفظات ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ کاربن ڈیٹنگ کا طریقہ قابل اعتبار نہیں ہے۔ لیکن سائنس دانوں کی اکثریت اسے درست مانتی ہے اور اگر نمونے کی مقدار اور معیار اچھا ہو تو تقریباً 95 فی صدتک درست نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کتنے عرصے پر ا نے نمونےاس طریقے سے پرکھے جا سکتے ہیں تواس کا تعلق بھی ریڈیو ایکٹیوکاربن 14 سے ہے،کیوںکہ اس کے ختم ہونے کا ایک وقت مقرر ہے۔ موجودہ ہوا کے تنا سب سے تقریباً 50 ہزار سال پرانے نمونوں کی عمر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے پرانے مادّے میں چوں کہ کاربن کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے، اس لیے اس کی عمر کا اندازہ لگانے کا عمل بھی کم زور سے کم زور تر ہوتا جائے گا۔