تسلیم اشرف
اسسٹنٹ پروفیسر،سابق صدر
شعبہ ارضیات وفاقی اردویونیورسٹی
ارضی طبیعیات کے توسط سے دورِ حاضر میں اس حقیقت کی تصدیق ہو چکی ہے کہ زیر زمین موجود ارضی تہیں نہ صرف حرکت کرتی ہیں بلکہ ان کے رد ِعمل سے خارج ہونے والی توانائی کے زیراثر جہاں مختلف اقسام کی ساختی بگاڑ پیدا ہوتی ہیں وہیں ’’ہائیڈرو کاربن‘‘ یعنی تیل و گیس (پیٹرولیم) بردار ساخت کی بھی تشکیل ہوتی ہے ،جس میں یہ قدرتی وسیلہ جو توانائی کے حصول کا اہم ذریعہ ہے چاروں طرف سے مقید ہو کر ایک معاشی نوعیت کے تیل و گیس کے ذخائر میں سامنے آتا ہے۔ اس قسم کی ساخت کو تیل و گیس کی دریافت کے حوالے سے ’’پیٹرولیم‘‘ بردار ’’حصار‘‘ کہتے ہیں مثلاً نمک قبہ (Salt Dome) اس قسم کی ساخت کی تخلیق میں نمک براہ راست حصار نہیں بناتا بلکہ اپنی اٹھان سے تیل گیس بردار ساخت کو معروض وجود میں لاتا ہے۔
یہ ارضی تہوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی خمیدگی ہوتی ہے جسے ’’ڈائی پیرک خمیدگی‘‘(Dia paric Folding)کہتے ہیں۔ یہاں پر قبہ سے مراد دائرہ تا نیم دائرہ ساخت ہے۔ اگر یہ ساخت نمک کے اٹھان سے بنتی ہے تو یہ ’’نمک قبہ‘‘ کہلاتی ہے لیکن اگر یہ مڈ (Mud)کے اٹھان سے بنتی ہے تو یہ ’’مڈ ڈوم‘‘ (Mud Dome)کہلاتی ہے۔ سالٹ ڈوم یا نمک قبہ کی تخلیق اس وقت ہوتی ہے ،جب نمک جو اوپر موجود چٹانی تہوں کے مقابلے میں کم کثیف ہوتا ہے حرارت کے زیرِ اثر قوت اچھال (Bouney Force) کی زد میں آکر اوپر کی طرف دبائو پیداکرکے اس میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کے لئے نمک کی دریافت100-200میٹر ہونی چاہئے نمک کے اس طرح اوپر اٹھنے کے میکنیزم کو ’’ہیلو کاٹنیٹکس‘‘ (Halokinamiatics) یانمک ٹیکٹونیات(Salt Tectonics) کہتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعہ جو ’’حصار‘‘ بنتے ہیں۔ اس میں بیک وقت متعدد قسم کے ’’حصار‘‘ شامل ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس میں تیل و گیس کی کثیر مقدار ذخیرہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ تیل و گیس کے حوالے سے اس قسم کے ’’حصار‘‘ کو بڑی فوقیت حاصل ہے۔
متحرک ارضی پرتوں کی حرکت کے دوران ایک طرف حرارت کی مناسبت مقدار سے نمک پھیلتی ہے تو دوسری طرف چہار طرفہ دبائو (Confining pressure) کے زیرِاثر اوپر اٹھتی ہوئی نمک اطراف میں موجود استعداد تہوں میں داخل ہوتی ہے، جس سے نمک کا عددی اُٹھان ہوتا ہے۔ یعنی محور کے ساتھ زاویہ میلان 90ہوتا ہے۔ یعنی میکنیزم تیل و گیس بردار ساخت (حصار) کی تخلیق کرتا ہے، جس میں موجود خمیدگی اور دیگرحصارکی تہوں میں ٹھوس نمک کالم کے درمیان مقید ہوجاتا ہے۔ لیکن ایک نفع بخش پیٹرولیم ساخت کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ تحلیل شدہ نامیاتی مواد کی وافرمقدار منتقل ہوکر ماخوز مقام سے حصار تک سفر کرکے ذخیرہ اندوز چٹان (مثلاً ریت پتھر) اور حفاظتی تہہ (مثلاً تبخیری معاون)کے درمیان مقید ہو جائے۔
اب یہ تحقیق مستند ہو چکی ہے کہ تیل و گیس کی ابتدائی تخلیق نامیاتی اشیاء یعنی حیوانات اور نباتات کے باقیات یا پھر دونوں کے باہمی اشتراک سے رسوبی اور تحقیقی ماحول مثلاً ڈیلٹائی خطے میں ہوتی ہیں جو بعد میں زمینی حرکت کے ردِعمل سے معروضِ وجود میں آئےساخت (حصار) میں ذخیرہ اندوز ہو جاتی ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تیل و گیس کی ابتدائی تخلیق ماخذ مقام پر ہوتی ہے اور ذخیرہ اندوزوں یعنی حتمی قیام کسی میلان ساخت یعنی ’’حصار‘‘ میں۔
یاد رہے کہ ماخذ مقام سے حتمی مقام کے درمیان کا سفر ایک صوبہ سے دوسرے صوبے، ایک ملک سے دوسرا ملک یا ایک براعظم سے دوسرا براعظم اس کا انحصار حصارکی موجودگی کے فاصلے پر ہوتا ہے۔ یہ تیل و گیس کے ہجرت کا عمل ہوتا ہے۔ اگر ماخذ مقام اورحتمی قیام کے درمیان فاصلہ کم ہوتا ہے تو اسے کم فاصلے والی ہجرت کہتے ہیں لیکن اگر دونوں کے مابین فاصلہ زیادہ ہو تو اسے طویل فاصلہ ہجرت کہتے ہیں۔ تیل و گیس کے ہجرت کی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ اس کے بغیر تیل و گیس معاشی طور پر سود مند نہیں ہوتا۔
اس حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ نامیاتی اجزاء براعظمی حاشیہ یا براعظمی عرشہ (Continental Shelf)پر دیگر بحری نامیاتی رسوب کے ساتھ مرکوز ہوکر ماخذ مقام کا کردار ادا کرتے ہیں ساتھ ہی بڑے دریا بھی جوڈیلٹائی ذخیرہ بناتے ہیں نامیاتی اشیاء کی شمولیت کا ذریعہ بنتی ہیں ،اس سلسلے میں سائنسی وجہ یہ ہوتی ہے کہ تیل کی تخلیق زیادہ تر حیوانی پروٹین سے ہوتی ہے جب کہ گیس تبدیل شدہ عرشہ اور ڈیلٹائی علاقے کے اتھلے ساحلی پانی میں ہوتی ہے۔ یہ تمام نامیاتی اجزاء (بشمول معدنی اجزاء) وہاں سے طلاطم خیز لہروں(Turbidity current)کے باعث پھسل کر سمندر کی گہرائی 900-4000)میٹر( تک پہنچ کر طلاطم خانوں (Turbidity Wedge)کے قریب جمع ہوجاتے ہیں۔ جہاں پر نامیاتی اشیاء کو تیل و گیس میں تبدیل ہونے کے لیے حرارت کی درست مقدار یعنی حرارت 0-150ڈگری سینٹی گریڈ او ردبائو یا گہرائی 5کلو میٹر اور درست وقفے سے مہیا ہونی چاہیے جو رسوبی اجسام میں موجود نامیاتی اجزا ء کی تبدیلی کے لئے ضروری ہوتا ہے۔
یعنی وہ منزل ہے جہاں پہ زمینی حرکت کا ردعمل سامنے آتا ہے ،کیوں کہ اس کے ذریعہ ’’کنویکشن کرنٹ‘‘گرم مقام یا تپشی خانوں کی تخلیق کرتاہے۔ جیسے ہی اوپر موجود وافر نامیاتی رسوبی تہہ تپشی خانوں کے اوپر سے گزرتی ہے تو حرارت کی وہی مقدار میسر ہوتی ہے جو نامیاتی اجزاء کی تیل و گیس یعنی مائع حالت میں تبدیل ہونے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم درختوں کے جڑوں کے اطراف کی خشک مٹی (جو کالے رنگ کی ہوتی ہے اور ہوس کہلاتی ہے) جس میں نامیاتی اجزاء جڑوں کے ذریعہ پیوست ہوتے ہیں۔ اس طرح سے نہایت ہی قدیم نامیاتی اجزاء اربوں اورکھربوں کی تعداد میں تحلیل اور پھر پیوست ہو کر رسوبی چٹانوں میں مرکوز ہوتی گئیں جو ہائیڈروکاربن کی تخلیق کا ذریعہ بنتی گئیں۔
یہی میکنیزم ’’تپشی خانوں‘‘سے خارج ہونے والی حرارت سے ہوتا ہے، کیوں کہ جب یہ حرارت آنچ کی صورت میں خارج ہوتی ہے تو اوپر موجود نامیاتی رسوب کو پکانے کے عمل سے گزارتی ہیں۔ اس طرح نامیاتی رسوب بتدریج ایک لمبے عرصہ سے گزر نے کے بعد مائع حالت میں تبدیل ہو کر وسیع پیمانے پر تیل و گیس میں تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف یہ عمل اس وقت بھی ہوتا ہے جب زیرِ زمین کوئی ’’منہائی علاقہ‘‘ بنتا ہے(جب ایک بھاری کثافت کی ارضی تہہ ہلکی کثافت کے نیچے جاتی ہے تو منہائی علاقہ کی تشکیل ہوتی ہے) اس عمل کے دوران بھی حرارت خارج ہوتی ہے جو چٹائی ردِعمل کی دوسری منزل ہے۔ حرارت حاصل ہونے کی ایک ممکنہ وجہ ’’رفٹنگ‘‘کا عمل ہے۔
یعنی جب دو چٹانی تہیں ایک دوسرے سے پرے ہوتی ہیں تو سمندری پھیلائو کا عمل ہوتاہے اور ساتھ ہی ارضی طبق کی وسعت کے عمل سے اس دوران ایک نئی سمندری فرش یعنی سمندری کریسٹ وجود میں آتی ہے۔ نامیاتی اجزاء سے پیوست رسوبات نئی سمندری فرش پر ذخیرہ ہوتی ہے جہاں نیچے سے درجہ ٔحرارت کی مناسب مقدار ملتی رہتی ہے۔ یہا ںپر میکنیزم کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ نئے سمندری فرش پر تبخیری معدہ خصوصی طور پر نمک سمندری فرش پر جمع ہوتا رہتاہے۔ یہ نمک کی تہہ ہزاروں فٹ کی دریافت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔
مثلاً بحرقلزم میں جہاں نمک کی بہت ہی دبیز تہہ موجود ہے سمندری فرشی پھیلائو کی وجہ سے نیچے موجود حرارت کے بہائو سے منسلک ہوتی ہے۔ اگلے مرحلے میں وسعت پاتے ہوئے سمندری فرش یا طاس میں ماحول کی تبدیلی نظرآتی ہے جو بلند شوریت سے تمام شوریت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ نمک کے ذخائر جوگہرے پانی میں براعظمی حاشیے پر ہوتے ہیں۔ براعظمی رسوب کے ساتھ سمندری فرش پر دفن ہو جاتے ہیں جو نامیاتی مواد میں خود کفیل ہوتا ہے۔ حرارتی بہائو ’’طلاطم ویج‘‘ کے نیچے تہہ ہوتی ہے لیکن مناسب مقدار اوپر پہنچتی ہے، جس کی وجہ سے فرش پر موجود نامیاتی رسوب کے پکانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے رسوبات کے اندرونی اطراف میں خام تیل اور قدرتی گیس کی تیاری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
اسی دوران نیچے موجود ’’سالٹ بیٹنگ‘‘( نمک تہہ) کا کچھ حصہ سطح کے اوپر عموداً زبردست قوت کے ساتھ انجیکٹ کرتا ہے یہ عمل بتدریج ہوتاہے، جس کے نتیجے میں تیل و گیس بردار’’حصار‘‘ سالٹ ڈوم تشکیل پاتی ہے۔ لہٰذا نمک کی ٹیکٹیونک‘‘ تیل گیس بردار ساخت کے حوالے سے ان علاقوں میں خصوصی طور پر توجہ طلب ہوتی ہے چٹان نمک کی موٹی تہہ ایک خاص ’’ارضیاتی عمر‘‘ میں موجود پائی گئی ہیں۔ مثلاً مشرقی امریکا کے وسیع علاقوں میں سلورین(Silurian)دور کی نمک موجود ہے۔ اس طرح گلف آف میکسیکو میں پرمین (Permian)جیوراسک (Jurassic)دور کی نمک کے ذخائر موجود ہیں۔ جن کے ’’حصار‘‘ زیادہ تر ’’نمک قبہ‘‘ پر مشتمل پائے گئے ہیں۔ پاکستان میں بھی خیر پور، کندھ کوٹ، جیکب آباد گیس فیلڈ ایویسین (Eocene) دورکے’’ نمک قبہ ‘‘جیسی ’’حصار‘‘ پر مشتمل پائی گئی ہیں۔
اس لئے تیل و گیس بردار ’’حصار‘‘ کی دریافت کے لئے ضروری ہے کہ ارضیاتی تاریخ اور ارضیاتی نمبر(Gcological Time Pericd) کے بارے میں قبل میدانی ساخت معلوم ہو، کیوںکہ بعض ادوار میں نہ معلوم وجوہات کی بناء پر ایک خاص قدرتی وسیلہ عالمگیر پیمانے پر کثرت سے ملتے ہیں اور اگر انہیںکسی اور ادوار میں تلاش کیا جائے تو یا تو مفقود ہوتے ہیں یا بہت ہی کمیاب۔ چناں چہ ’’نمک قبہ‘‘ کی تشکیل انہی علاقوں میں ہوئی ہے جہاں نمک کی تہہ زیرِزمین دبیز تہہ کے ساتھ موجود ہو جو سرکی قوتوں کے ردِعمل سے قبہ نما ساخت میں تبدیل ہو گئی اور اسی حوالے سے یہ ان علاقوں میں نمایاں طورپر دریافت ہوئی ہیں۔
یہاں بحرالکاہل کے اطراف پرمین اور جیوراسک دور کے رسوب میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اس حصہ سے لے کر بحرالکاہل کے مستعد ہونے تک ایک وسیع علاقہ نشیب کے ساتھ پایا جاتا تھا۔ جہاں بہت کم بارش ہونے کی وجہ سے نمک کے ڈھیر جمع ہوگئے اورجو براعظمی علیحدگی (continental drift)کے بڑے سپر براعظم (افریقا، یورپ اور امریکا) کی نمائندگی کرتا ہے ۔آج یہی صورتحال بحرقلزم اور بحریہ دار کے اطراف موجود ہے۔ جرمنی اورڈنمارک میں پرمین سالٹ مسلسل مثالی بحریہ میں باہر کی طرف جارہا ہے اور ’’جیوٹیکیٹونک‘‘ حرکت نے اسے قبہ نماساخت میں تبدیل کردیا جوبہت ہی فعال حصار ثابت ہورہا ہے۔
مثلاً علاقہ’’ایکوفسک‘‘ (Ekofisk)اس قسم کے نمک کی طاس بحراوقیانوس کے ابتدائی پھیلائو کے وقت جیورامسک اورتخلیقی دور میں اس وقت تخلیق ہوئی جب یہ بہت ہی تنگ (Narrow) تھا اور اس وقت کی بنی ہوئی نمک آج بھی بحیراوقیانوس کے خاشیوں میں موجود ہے جو ارضی تہوں کی قوت کے ردِعمل سے ’’نمک قبہ‘‘ساخت میں تبدیل ہوگئی ہے جسے تحقیق اورمشاہدے کے بعد تیل و گیس بردار ساخت کے درجہ پر فائز کر دیا گیا ہے۔ دورِ جدید میں ’’سالٹ ڈوم‘‘ مغربی افریقا ساحل اورگلف آف میکسیکو دونوں میں پائے جاتے ہیں۔ عالمی ماہرین ارضیات نے نئے تیل و گیس کے ذخائر کی دریافت کے افریقا آف شورزون (Africa off Shore zone) کو فوقیت دی ہے۔
’’ٹیکساس ‘‘اور ’’لوسینسیاگلف کوسٹ ‘‘ میں تیل و گیس کی حصار بندی آف شور میں موجود ہے لیکن گلف آف میکسیکو میں سالٹ ڈوم کی موجودگی گہرائی میں ہے جو اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ مزید غیر دریافت اور غیر مقید پیٹرولیم کے ذخائر گہرائی میں موجود ہے جہاں قدیم ارضیاتی دور میں براعظمی تصادم ہوا ہے، جس سے سالٹ ڈوم کے ساتھ سوچر (Suture)زون کی بھی تشکیل ہوئی ہے اورآنے والے دور میں یہ اُمید کی جاتی ہے کہ سوچر لائن کہ دونوں اطراف پیٹرولیم بردار ساخت میں تیل و گیس کی موجودگی ہوسکتی ہے ۔
مثلاً روس کے کئی خود کفیل آئل فیلڈ یورل پہاڑوں (Ural mountain)کے دونوں جانب موجود ہے جو ایک سوچر زون اور ’’سالٹ ڈوم‘‘کی حد بندی کرتاہے جب زبردست زیر ِزمین قوت کے ردِعمل سے قدیم سمندری فرش کے ٹکڑے دوچٹانوں کے درمیان داخل ہو کر وسیع علاقوں میں موجود ہو اور سطح زمین پر نمودار ہوجائے تو اس طرح ایک پٹی یا زون کی تشکیل ہوتی ہے اسے ’’اوفی لائیٹک مواد‘‘ (ophiolite material)کہتے ہیں، جس میں سمندری فرش کے مرکبات شامل ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی ارضی حرکات کے تصادم سے ’’سوچر زون‘‘ کی تشکیل ہوئی ہے جو ہمالین اوفی لائٹ سے شروع ہو کر بلوچستان میں’’گڈانی‘‘تک نظر آتا ہے ،پھر یہ زیرِ آب ہوتا ہوا عراق کے دیگر پہاڑی سے منسلک ہو گیا ہے۔
یہ ہمالیہ اوفی لائٹ کا جنوبی وسعت ہے۔ سوچر زون کی تشکیل محوری پٹی (Arial belt)کی صورت میں ہوئی ہے۔ جہاں دو چٹانوں کے درمیان ’’ویلڈنگ‘‘ کی کیفیت نظرآتی ہے۔ یہ صورت حال وزیرستان سے لے کر لسبیلہ تک نظرآتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سوچر زون کے دونوں جانب پاکستان میں بھی تیل و گیس اور دیگر قدرتی وسائل کی دریافت ہوئی ہے جن کی تخلیق اور ذخیرہ اندوزی قدیم زمینی حرکات سے وابستہ نظرآتی ہے۔ اس حوالے سے آج بھی دنیا بھر میں یہ بات زیرِ بحث ہے کہ یہ تمام علاقے بشمول امریکا کا اینڈیز (Andes) پہاڑی سلسلوں کا مشرقی کنارہ اس امرکی نشاندہی کرتا ہے کہ قدیم براعظمی تصادم کے ردِّعمل کے دوران نامیاتی رسوبی بردار خانوں (Organic Sedimentary bearing wedge) میں مقید ہو گئے جسے حرارت ملنے پر نئے تیل و گیس کے ذخائر کی تخلیق ہو سکتی ہے اور آنے والے دور میں مزید تیل و گیس کی دریافت ہوسکتی ہے، کیوں کہ ایک عالمی تجزیے کے مطابق یہ علاقے ارضی زیریں طاس (Geosyncline) پر مشتمل ہے ،جس سے مراد ایک ایسا نشیبی علاقہ جس میں مختلف ادوار میں مختلف قسم کی رسوبی چٹانیں تہہ نشیں ہوتی ہیں اور اس میں مختلف اقسام کی ارضی ساعتیں مثلاًرخنہ زدگی، خمیدگی اورنمک قبہ جیسی تیل و گیس بردار ساعتیں معروضِ وجودمیں آئیں۔