پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے 2022ء میں 75ویں عیدالفطر منا رہا ہے۔ عید کے موقعے پر ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق خوشیوں کا اہتمام کرتا ہے، لیکن شاید ہمیں(بالخصوص نوجوان نسل) کو کبھی بھولے سے بھی خیال نہ آتا ہو کہ پون صدی قبل جب پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے وجود میں آیا، تو برّ ِصغیر میں مسلمانوں، بالخصوص ہجرت کرنے والوں کی پہلی عید کیسے گزری؟
پاکستان 14اگست 1947ء، 27رمضان المبارک کو آزادی کی منزل سے ہم کنار ہوا۔ چار روز بعد، 18اگست کو عید تھی۔ یہ وہ دَور تھا، جب مشرقی اور مغربی پنجاب کے تقریباً تمام علاقے آگ و خون کی لپیٹ میں تھے۔ بلوائیوں اور فسادیوں نے نہتّے مسلمانوں پر وہ مظالم توڑے کہ جن کی مثال نہیں ملتی۔ ہجرت کرنے والا کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا، جس کے افراد نے جانوں کا نذرانہ پیش نہ کیا ہو۔ ایسے حالات میں ایک آزاد مُلک کی پہلی عید بھی، تاریخ میں خوشیوں اور مسرّتوں کی بجائے، غم و اندوہ کا استعارہ بن گئی۔
تحریکِ پاکستان کے سرگرم بزرگ کارکن اور گولڈ میڈلسٹ، کرنل (ر) محمّد سلیم ملک اِس وقت 95برس کے ہیں۔ اُن کی آزاد مملکت میں پہلی عید کیسی گزری، اس حوالے سے وہ کہتے ہیں،’’ہمارا خاندان شروع ہی سے ساندہ، لاہور میں آباد تھا۔ قیامِ پاکستان کے وقت، مَیں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، لاہور میں تھرڈ ایئر کا طالبِ علم تھا۔ تحریکِ پاکستان کے دَوران اِس کالج کی حیثیت ایک جنرل ہیڈ کوارٹر کی سی تھی۔ یہاں کے طلبہ تحریک پاکستان کا ہر اول دستہ تھے، جن پر قائدِ اعظمؒ بہت بھروسا کرتے تھے۔
اُن کی اِس کالج سے محبّت کا یہ عالم تھا کہ تحریکِ پاکستان کے دَوران 19مرتبہ یہاں تشریف لائے اور طلبہ کو ہدایات دیں۔ اگرچہ، مَیں مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا کوئی عُہدے دار نہیں تھا، لیکن ایک 20سالہ امنگوں اور عزائم سے بھرپور نوجوان کی شبانہ روز سرگرمیاں تحریکِ پاکستان کے لیے وقف تھیں۔ آزادی کے اعلان کے بعد جب عید آئی، تو مَیں ساندہ ہی میں تھا، لیکن یہ بھی کیا عید تھی۔ پورا شہر سنسان تھا، ہر طرف خوف کا عالم تھا، کسی کو علم نہ تھا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ فسادات کی خبریں آنے لگی تھیں۔
لاہور میں شاہ عالم مارکیٹ اور چند دوسرے علاقوں میں آگ لگی ہوئی تھی، ایسے میں مجھے آسمان پر عید کا چاند نظر آیا، تو صرف نئی مملکت اور عوام کی سلامتی ہی کی دُعا کی۔ مجھے تو ہلالِ عید بھی نم ناک اور افسردہ نظر آیا۔ حالات ایسے تھے کہ ہم ایک دوسرے کو مبارک باد دینا بھی بھول گئے۔ یہ جو آج کل چاند رات منائی جاتی ہے، اُس وقت اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ ہر طرف آگ کے بھڑکتے شعلوں اور دھویں کے سیاہ بادلوں نے چاند کو بھی چُھپا لیا تھا۔ غیر یقینی کیفیت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ ابھی پاکستان اور بھارت کی سرحدوں کا تعیّن نہیں ہوا تھا اور لوگوں کو پتا نہیں تھا کہ اُن کی قسمت کس مُلک کے ساتھ وابستہ ہوگی۔
مائونٹ بیٹن اور ہندو رہنمائوں کی کوشش تھی کہ لاہور، گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کو امرت سَر کی طرح ظلم و ستم کر کے مسلمانوں سے خالی کروا لیا جائے۔ بہرحال، مَیں نے عید کے روز دُھلے ہوئے کپڑے پہنے اور مسجد میں نمازِ عید ادا کی۔نمازیوں میں محض 14، 15افراد شامل تھے اور خوف کے سبب سوٹوں، ڈانگوں اور بلموں سے مسلّح چند نوجوان پہرے پر کھڑے تھے تاکہ کہیں سے حملہ نہ ہو جائے۔نماز کے بعد ہم لوگ بغل گیر تو ہوئے، لیکن ہمارے چہرے خوشی سے محروم تھے۔ ہم لاہور کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے اپنے رشتے داروں سے متعلق پریشان تھے کہ ہر جگہ سے خون خرابے کی خبریں آ رہی تھیں۔
اُس زمانے میں مختلف محلّوں اور رشتے داروں کی خیر خیریت معلوم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ تانگوں کے کوچوان تھے، جن کا مختلف علاقوں میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہم اُنہی کے ذریعے رشتے داروں کو چِٹھیاں بھجواتے اور جواب وصول کرتے۔ اُس وقت تانگے بھی خال خال تھے۔ ہمارے پاس ایک تانگہ آیا، تو مَیں نے اُسے شملہ پہاڑی والی سڑک پر گورنر ہائوس کے ساتھ ایک عمارت تک لے جانے کو کہا۔ اُس چھوٹی سی عمارت پر 10اگست سے ریڈیو پاکستان کا بورڈ لگا ہوا تھا اور پاکستان کا لفظ پڑھ کر دل میں ایک عجیب سا ولولہ پیدا ہوتا۔ مَیں اُس بورڈ کو دیکھ کر ایسے خوش ہوا، جیسے عید کے دن لوگ ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں۔ عید کے روز سویّاں تیار کرنا اور نئے کپڑے سِلوانا ایک عام روایت ہے، لیکن اُس روز ہمارے گھر سادہ سا کھانا تیارہوا کہ میٹھے پکوانوں کی کسے فکر تھی۔ وہاں تو لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔‘‘
کرنل (ر) سلیم ملک نے مزید بتایا،’’ ہمیں جو خبریں موصول ہو رہی تھیں، اُن سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ مسلمانوں نے عید کیسے منائی۔ بعدازاں،’’ امرتسر جل رہا ہے‘‘ کے مصنّف، خواجہ افتخار نے بتایا کہ’’ عید کے روز مشرقی پنجاب اور بھارت کے دیگر صوبوں میں عید کی نماز ادا کرنے والے سیکڑوں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔‘‘ خواجہ افتخار کا کہنا تھا کہ’’ اگست 1947ء کی عید بھی اپنی نوعیت کی عجیب عید تھی، آزادی کی اِس پہلی عید پر بچّوں نے گوٹا کناری والے کپڑے پہننے کا تقاضا کیا، نہ نئے جوتے خریدنے کی فرمائش ۔ لڑکیوں نے روایتی انداز میں منہدی لگائی، نہ عید کارڈز اور تحائف کا تبادلہ ہوا۔
کسی کو میٹھی سویّاں کھانے کا خیال آیا اور نہ کسی نے عیدی مانگی۔‘‘کرنل (ر) سلیم ملک نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا،’’ مَیں دوپہر کو گھر واپس آنے کی بجائے سیدھا اسلامیہ کالج چلا گیا، جہاں تحریکِ پاکستان کے نوجوان ورکرز جمع تھے۔ اُن دنوں امرت سَر، جالندھر، بٹالہ اور دوسرے علاقوں سے مسلمان مہاجرین کی آمد جاری تھی۔ ابھی والٹن کیمپ نہیں بنا تھا۔ اُنہیں لاہور ریلوے اسٹیشن کے نواح میں واقع ایک کُھلے میدان میں ٹھہرایا جاتا۔ اُن کے لیے کھانا اسلامیہ کالج روڈ میں باورچی پکاتے اور ہم طلبہ وہاں جا کر مہاجرین میں تقسیم کرتے۔ چناں چہ اُس روز بھی ہم 10، 15لڑکے وہاں کھانا لے کر گئے اور اپنے ہاتھوں سے تقسیم کیا۔
عورتیں، مرد، بچّے، بزرگ نوجوان بے سروسامانی کی حالت میں عارضی خیموں میں مقیم تھے۔ ان مہاجرین میں ہر خاندان زخم خوردہ تھا۔ کسی کی ماں شہید ہوگئی تھی، تو کسی کا بیٹا، کسی کی بہن، تو کسی کا بھائی آزادی کی راہ میں قربان ہوگیا۔ اُن کے لیے عید کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اُنہیں پتا تھا کہ ماہِ رمضان کے بعد اب عید کا تہوار ہے، لیکن اُن کی نظریں تو چاند کی بجائے اپنے کھوئے ہوئوں کو تلاش کر رہی تھیں اور بچّے عیدی کی بجائے روٹی کے ٹکڑوں اور دودھ کے لیے ترس رہے تھے۔ ہم کافی دیر تک ان مغموم لوگوں کو دِلاسا دیتے رہے۔ شام کو گھر واپسی، میرے یومِ عید کا اختتام تھا۔بس، عید کیا تھی، ایک سوگوار دن تھا، لیکن پھر بھی دل میں ایک احساس جاگزیں تھا کہ ہمارے آبائو اجداد تو غلامی کی زندگی بسر کر کے دنیا سے رخصت ہوگئے، تاہم اب ہمارے بچّے ایک آزاد اور خود مختار وطن میں سانس لیں گے۔‘‘
کرنل (ر) سلیم ملک نے ایک واقعہ بھی سُنایا کہ’’ تحریکِ پاکستان کے کارکنان نے مال روڈ پر ایک کمرا کرایے پر لے کر دفتر قائم کیاتھا، جس کے سامنے اینٹوں کے سہارے پاکستان کا پرچم بلند کر رکھا تھا۔یہ 1992ء کی بات ہے، جب غلام حیدر وائیں وزیرِ اعلیٰ پنجاب تھے۔ ایک بار وہاں سے گزرتے ہوئے، وہ ہمارے پاس رُکے اور ہمارا مقصد جان کر خوش ہوئے۔اُنھوں نے بتایا کہ’’ وہ بھی ہجرت کرکے والٹن پہنچے، تو کئی روز کے بھوکے تھے، کھانے کو کچھ نہ ملا، تو زمین پر پڑی ایک سوکھی روٹی بھگو کر پیٹ کی آگ بُجھائی۔‘‘یاد رہے، غلام حیدر وائیں نے والٹن کے مقام پر بابِ پاکستان بنانے، نظریۂ پاکستان ٹرسٹ قائم کرنے اور تحریکِ پاکستان کے کارکنان کو گولڈ میڈلز دینے کی منظوری دی تھی۔‘‘
جالندھر سے تعلق رکھنے والے 90سالہ، حاجی اللہ دتا (گولڈ میڈلسٹ کارکن تحریکِ پاکستان) نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی عید جالندھر چھائونی میں گزاری، جہاں بعض نمازی ایسے بھی تھے، جن کے کپڑوں پر زخموں سے رِسنے والے خون کے دھبّے تھے۔ حاجی اللہ دتا نے ماضی کی یادیں کریدتے ہوئے کہا کہ’’مَیں جالندھر شہر میں 1931ء میں پیدا ہوا۔ہم پانچ بھائی اور چار بہنیں تھے۔ میٹرک کے بعد ایک مقامی فیکٹری میں نکل پالش کا کام کرتا تھا۔قیامِ پاکستان کے وقت کسرتی جسم کا 16سالہ نوجوان تھا۔بھائی مجھے پہلوان بنانا چاہتے تھے۔
جالندھر میں اکثریت کانگریس کی ہم نوا تھی اور بہت سے مسلمان بھی کانگریس کے ہم درد تھے، لیکن جب قائدِ اعظم محمّد علی جناح وہاں تشریف لائے اور عوام کو کانگریس کے عزائم سے آگاہ کیا، تو مسلمان کانگریس سے بے زار ہو کر ایک نئی مسلم مملکت کا خواب دیکھنے لگے۔ 14اگست 1947 ء کو آزادی کا اعلان ہوا، تو مَیں فیکٹری میں کام کر رہا تھا۔ فوراً گھر آیا اور سامان باندھنا شروع کر دیا، لیکن اِسی دوران افواہ اُڑی کہ پاکستان کی سرحد دلّی تک ہو گی، جس پر ہم نے سامان کھول دیا اور مطمئن ہو کر بیٹھ گئے، لیکن بعد کے چار روز، عید کے دن تک، ہمارے لیے قیامت کے دن تھے۔ آزادی کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع ہوگئے اور بلوائیوں کے حملوں میں میرے چار بھائی شہید ہو گئے۔
جب ہمارے لیے وہاں رہنا مشکل ہو گیا، تو ہم نے سامان باندھا اور ایک فوجی ٹرک میں بیٹھ کر جالندھر چھائونی کی طرف روانہ ہو گئے۔ میرے ساتھ 4 بہنیں اور والدہ تھیں۔دوسرے دن عید تھی، لیکن کسی کو عید کا چاند دیکھنے کا خیال تک نہ تھا۔عید کی صبح کا سورج طلوع ہوا، تو ہم جالندھر چھائونی کے ایک کُھلے میدان میں بے یارومددگار پڑے تھے۔ سویّاں اور پکوان میٹھی عید کی روایات ہیں، لیکن وہاں کھانے کو بھی کچھ میّسر نہ تھا۔دس پندرہ بزرگوں نے ایک کُھلے میدان میں نمازِ عید ادا کی۔بعدازاں، ایک فوجی ٹرک ہمیں جالندھر ریلوے اسٹیشن چھوڑ گیا اور پھر ہم ایک ٹرین پر بیٹھ کر اٹاری کی طرف روانہ ہو گئے۔
ٹرین پر بلوچ رجمنٹ کے دو سپاہی بندوقیں تانیں بیٹھے تھے۔ یہ ٹرین لوگوں سے کھچا کھچ بَھری ہوئی تھی اور اس کی چھت پر بھی لوگ سوار تھے۔راستے میں ایک جگہ انجن کی خرابی کا بہانہ بنا کر ٹرین روک لی گئی اور پھر بلوائی ایک ڈبّے سے کئی نوجوان لڑکیوں کو کھینچ کر اپنے ساتھ لے گئے، مزاحمت کرنے والوں کو کرپانیں گھونپ دی گئیں۔ڈرائیور نے اٹاری کے بعد انجن کی خرابی کا بہانہ بنا کر ایک بار پھر ٹرین چلانے سے انکار کر دیا۔ صاف ظاہر تھا کہ پھر حملہ ہونے والا تھا، لیکن بلوچ رجمنٹ کے سپاہی ڈرائیور کے پاس گئے اور بندوق تان کر دھمکی دی کہ اگر ٹرین نہ چلائی، تو گولی چلا دیں گے، مَیں بھی اپنے ڈبّے سے نکل کر انجن کے پاس آ گیا تھا، ابھی سپاہیوں نے تین تک گنتی مکمل نہیں کی تھی کہ سِکھ ڈرائیور نے کہا،’’مہاراج !گاڑی چلاتا ہوں۔‘‘ یوں گاڑی والٹن پہنچی، تو ہم نے اللہ کا شُکر ادا کیا۔
لاہور میں ایک جاننے والے نے عرب ہوٹل میں کمرا لے دیا، جہاں ہم مقیم ہو گئے۔ والد اور مَیں نے روزی روٹی کے لیے جوتے پالش کرنا شروع کر دیے، لیکن یہ کام زیادہ نہ چلا، پھر کسی کے کہنے پر ماموں کانجن منتقل ہو گئے اور وہاں قلفیاں بیچیں۔ اب لاہور میں اپنی بیوی کے ساتھ تنہائی اور کسم پرسی کی زندگی بسرکر رہا ہوں۔ اگرچہ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے مجھے تحریکِ پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے گولڈ میڈل دیا ہے، جس کی قدر کرتا ہوں، لیکن اِن میڈلز سے پیٹ نہیں بَھرا جا سکتا۔ مَیں آج بھی ہر عید کے موقعے پر’’ بابِ پاکستان‘‘ جاتا ہوں اور اُس جگہ کو دیکھتا ہوں، جہاں ہم نے ایک آزاد سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ گو کہ عید پر ماضی کے زخم تازہ ہو جاتے ہیں، لیکن آزاد وطن میں عید کا خوش گوار احساس مرہم کا کام دیتا ہے۔‘‘
قائد اعظم محمّد علی جناح کا آزاد پاکستان کی پہلی عید پر پیغام
قائدِ اعظم، محمّد علی جناح نے 18اگست 1947ء کو آزاد پاکستان کی پہلی عید کے موقعے پر قوم کے نام پیغام میں کہا کہ’’یہ آزاد پاکستان کی پہلی عید ہے، جو آزادی کے فوراً بعد آئی ہے۔ یہی اِس تہوار کی خصوصیت ہے کہ ہم آزاد پاکستان میں پہلی عید منا رہے ہیں۔ مَیں تمام مسلمانوں کو اِس موقعے پر مبارک باد دینا چاہتا ہوں۔ اُمید ہے اب خوش حالی کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوگا، یہ اسلامی اقدار کے احیاء کی طرف ایک قدم ہوگا۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اقوامِ عالم میں ایک عظیم اسلامی مُلک بننے کی طاقت عطا کرے۔
اِس میں شک نہیں کہ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا ہے، لیکن ابھی تو آغاز ہے، ایک نصب العین کی طرف بڑھنے کا۔ ہم پر عظیم ذمّے داریاں عائد ہوتی ہیں اور اِس حساب سے ہمارے عزائم بھی عظیم اور مستحکم ہونے چاہئیں۔ اب ٹھوس کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان متحد ہو کر تمام رکاوٹوں پر قابو پا لیں گے۔ اِس موقعے پر ہمیں اُن بھائیوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ جنہوں نے قربانیاں دی ہیں تاکہ ہم آزاد زندگیاں بسر کرسکیں۔
ہم دُعا کرتے ہیں کہ اُن کی روح کو سکون نصیب ہو۔ جو لوگ بھارت رہ گئے ہیں، اُنہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہم اُنہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے، ہمارے دل اُن کے ساتھ ہیں۔ ہم اِس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اُن کی زندگیاں محفوظ رہیں۔‘‘