• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بظاہر ایک سیدھے سادے جمہوری اور آئینی عمل یعنی عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت کو اقتدار سے فارغ کیا گیا ہے۔ لیکن عمران خان اور ان کے فین کلب یعنی دیوانوں نے اس آئینی عمل کے ردّ ِ عمل میں جو غیر آئینی اور غیر جمہوری حرکات کی ہیں، اس نے ہر باشعور پاکستانی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ 3اپریل 2022کے دن سے جب یہ تحریک ِ عدم اعتماد پیش ہوئی۔

عمران اور اس کے ممبروں نے اسمبلیوں کے اندر اور باہر جو اودھم مچایا ہوا ہے، اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ عمران نہ تو جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پیروکار کسی اخلاقی ضابطے کو مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک سچ وہی ہے جو وہ چاہتے ہیں۔

 اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار ہو کر غیر جمہوری طریقوں سے برسرِ اقتدار آجائیں اور ہر بحران سے نکلنے کے لیے ان کی طاقت استعمال کریں تو پھر فوجی قیادت بھی عظیم اور جمہوریت پسند کہلاتی ہے۔ لیکن جب وہ چارسال تک عمران خان کو برقرار رکھنے کی وجہ سے ہونے والی معاشی تباہی اور رسوائی میں حصّہ دار بننے سے انکار کریں اور خود کو غیر جانبدار ڈکلیئر کردیں تو وہ راتوں رات ’’ سازشی‘‘ قرار دے دیے جاتے ہیں۔

 پاکستان کی تاریخ میں عمران خان وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے ’’ سفید جھوٹ‘‘ بولنے کو یوٹرن کا نام دے کر ایک قابل ِ تحسین کارنامہ قراردیا اور بڑے فخر سے کہا کہ ’’ اسی یوٹرن نے مجھے وزیر اعظم بنایا ہے‘‘۔ اس وقت بھی مجھ سمیت کئی تجزیہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ عمران خان اپنے لانے والوں کے ساتھ جو سلوک کریں گے وہ کسی نے نہیں کیا ہوگا۔

یہ بات اس مفروضے کی بنا پر کہی گئی تھی کہ جب اسٹیبلشمنٹ کی عمران حکومت کو ہر طرح سے سپورٹ حاصل ہو گی تو وہ ’’ شاندار‘‘ ٹیم کے ساتھ ’’ شاندار‘‘ کارکردگی کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوشش میں تصادم کی طرف جائیں گے کیونکہ وہ ایک خود پسند شخصیت کے مالک ہیں لیکن یہ بات تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی کہ وہ اپنی ’’بدترین ٹیم‘‘ کے ساتھ’’ بدترین کارکردگی‘‘ کے باوجود شرمندہ ہونے کی بجائے اپنے محسنوں کے ادارے میں بھی پھوٹ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

اور عثمان بزدار اور محمود خان جیسے نا اہل وزرائے اعلیٰ کو اپنے محسنوں کے مشورے سے تبدیل کرنے کی بجائے ان کے اپنے اداروں میں بھی پوسٹنگز اور ٹرانسفر ز میں دخل اندازی کریں گے۔

عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک مکمل غیر سیاسی شخصیت ہیں۔ وہ ایک سیلیبرٹی یا مقبول ِ عام کرکٹر ہونے کی وجہ سے ایک سیاستدان سے مختلف اوصاف کا مالک ہے۔

 سیلیبرٹی یا مقبول غیر سیاسی شخصیت کے پیچھے لوگ خود آتے ہیں کیونکہ وہ اس کے مدّاح ہوتے ہیں چنانچہ اس شخصیت کے اندر خود پسندی، تفاخر اور عوام سے دور رہنے کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جبکہ ایک حقیقی سیاستدان عوام کے پیچھے آتا ہے جن سے اسے عاجزی، برداشت اور ملنساری سے ملنا پڑتا ہے۔ اسے ایک سیلیبرٹی کی نسبت سیاست میں اپنا مقام بنانے کے لیے قید و بند اور دیگر کئی مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔

اس لیے ایک سلیبرٹی کے اندر ایک سیاستدان کی نسبت ’’ فاشزم‘‘ کے رجحانات کئی گنا زیادہ پائے جاتے ہیں۔ جس کا سب سے خوفناک اظہار ’’ خود کو عقلِ کل اور دوسروں کو کمتر سمجھنا‘‘ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کسی جگہ یا شعبے کا ذکر کیا جائے توعمران صاحب کا ایک ہی جواب ہوتا ہے ’’مجھ سے زیادہ کون جانتا ہے‘‘ چونکہ حکومت انہیں نہ صرف پلیٹ میں رکھ کر پیش کی گئی بلکہ اقتصادی اور خارجہ محاذ پر بھی ان کی ہر غلطی کو ادارے ملکر درست کرتے رہے۔ چنانچہ’’ ایک کریلا اوپر سے نیم چڑھا‘‘ کے مصداق وہ خود کو سب سے اوپر سمجھنے لگے اور ہر ادارے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ انکے اتحادی، اپنی پارٹی کے لوگ او ر انہیں لانے والے سبھی ایک ایک کر کے انہیں چھوڑ تے گئے۔ لیکن وہ اسے بھی غیر ملکی سازش قرار دیتے رہے۔ انہوں نے آئین شکنی کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑدیں۔ عدالت ِ عظمیٰ نے انہیں بحال کردیا تو وہ عدالتوں کے خلاف ہوگئے لیکن دوسری طرف وہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے امریکی مراسلے کو سازش نہ قرار دینے پر اسے عدالتوں میں لانے پر مصر ہیں۔ انہوں نے فاشسٹ ہٹلر کی طرح اپنے سیاسی مخالفین کو غدّار قرار دے دیا ہے گستاپو کی طرز پر ’’ ٹائیگرفورس‘‘ بنائی اپنے مخالفین کے خلاف ہیروئن کے جھوٹے مقدمے قائم کئے۔ اسمبلیوں کو اکھاڑ ا بنا دیا۔ اس کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مداحوں کی ایسی ٹیم بنا دی ہے جو اپنے مخالفین کے خلاف کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔

 وہ ریاست ِ مدینہ بھی چاہتے ہیں، مغربی جمہوریت بھی، چائنا کا نظامِ حکومت بھی انہیں مرغوب ہے اور محمد بن سلمان کے اختیارات بھی۔ وہ صدارتی نظام کے ذریعے ون پارٹی رول بھی چاہتے ہیں اور پیوٹن کی طرح آمرِ مطلق بننا بھی۔ لیکن یہ سوال ابھی تک معمہ بنا ہوا ہے کہ آخر وہ چاہتا کیا ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین