• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلطنتِ مغلیہ کے تیسرے فرماں روا جلال الدین محمد اکبر واحد شہنشاہ تھے جن کے نام کے ساتھ ’اعظم‘ کا لاحقہ لگتا ہے، اکبر اعظم ہی ایک مضبوط اور بڑھتی ہوئی مغل سلطنت کے 50سال تک بادشاہ رہے جبکہ اورنگزیب عالمگیر ختم ہوتی ہوئی مغل سلطنت کے 50سال تک حکمران رہے، اکبر اعظم جب 14سال کی عمر میں بادشاہ بنے تو مغلیہ سلطنت شدید ترین انتشار کا شکار تھی لیکن اکبر نے اپنے تدبر اور مصاحبین کے بہترین مشوروں کی بدولت ہندوستان میں مذہبی، نسلی اور اعتقادی رواداری و ہم آہنگی پر مبنی ایسی پالیسیاں بنائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے لوگ بھی اکبر اعظم کے معتقد ہوگئے اور اسی لیے اس دور میں مغلیہ سلطنت کی حدود تقریباً پورے برصغیر تک پھیلی ہوئی تھی جبکہ بہادر شاہ ظفر کے دور میں مغل سلطنت کی حدود دہلی تک محدود ہو گئی تھی۔ اکبر نے اپنے مخالفین سے بھی عزت و احترام کا رشتہ رکھا، انہوں نے ہندوستان میں موجود مسیحیوں، زرتشتوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کیساتھ یکساں روّیہ رکھا، یہی اکبر کی وہ حقیقی کامیابی تھی جس نے ہندوستان کو متحد رکھنے، اسے مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اکبر اگرچہ انتہائی کم عمری میں بادشاہ بنے لیکن آخر کیا وجہ تھی کہ وہ اپنے بزرگوں بلکہ بعد میں آنے والی اپنی اولاد میں بھی کامیاب ترین حکمران تھے؟ یقیناً اس کی سب سے بڑی وجہ اکبر اعظم کے نورتن تھے، یہ وہ 9قابل مشیر تھے جنہوں نے اکبر کے 50سالہ کامیاب ترین دورِ اقتدار میں اہم ترین کردار ادا کیا، ان نابغہ روز گار شخصیات میں 1۔ بیرم خان: جنہوں نے اکبر کو انسان شناسی اور سپاہیانہ فطانت سے آشنا کیا۔ 2۔راجہ بیربل: سنسکرت کے جید عالم اور صاحبِ حکمت دانشور تھے۔ 3۔ابوالفیض فیضی: شگفتہ مزاج عالم تھے اور انہوں نے قرآن مجید کی تفسیر بھی لکھی۔ 4۔ابو الفضل: بلند پایہ منصف اور فلسفی تھے۔ 5۔تان سین: جن کا نام آج بھی ہندوستان کے موسیقارِ اعظم کی حیثیت سے ہر ایک کی زبان پر ہے۔ 6۔عبدالرحیم خان خاناں: بہادر سپاہی، عالم فاضل، عربی، فارسی، سنسکرت، ہندی اور ترکی زبان کے ماہر تھے۔ 7۔راجہ مان سنگھ: انہوں نے بادشاہ کو اپنائیت اور محبت کا درس دیا، وہ بہادری اور جوانمر دی میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ 8۔مُلا دو پیازہ: جن کا اصل نام ابوالحسن تھا، خوش خلق اور معاملہ فہم تھے۔ 9۔راجہ ٹوڈرمل: سپاہ گری اور معاملہ فہمی میں اپنی مثال آپ تھے۔ لہٰذا اکبر کے نورتنوں کا یہ مختصر سا تعارف تھا جن کی وجہ سے جلال الدین محمد، اکبر اعظم کے خطاب سے جانے گئے۔

اب جناب عمران خان کے نو رتنوں کی قابلیت ملاحظہ فرمائیے۔

1۔ شہباز گل: جس نے کبھی پاکستان میں کونسلر تک کا الیکشن نہیں لڑا، ملائیشیا سے لی گئی تعلیمی ڈگری پر بھی سوالیہ نشان ہے، ماضی کی داستانوں پر نہ بھی دھیان دیا جائے تو موصوف کا کُل سیاسی تجربہ سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا مشیر ہونا ہے لیکن اپنے توہین آمیز رویے اور سوقیانہ زبان کی وجہ سے یہ پاکستان کی سیاست و صحافت کے ایوانوں میں ناپسندیدہ ترین ہو گئے تو اس ”مہارت“ کے صلے میں عمران خان نے اپنا مشیرِ خاص بنا لیا۔ 2۔ فواد چودھری: ذومعنی جملہ بازی، مخالفین پر تیز طراز حملے ان کی خاص پہچان ہیں، سیاسی کامیابی اس قدر کہ پاکستان پیپلز پارٹی، مشرف لیگ، مسلم لیگ ق اور آزاد حیثیت سے جہلم کے مختلف حلقوں سے الیکشن میں پے در پے ناکامیوں کے بعد پی ٹی آئی جو اُس وقت ”کنگ پارٹی“ تھی، کے ٹکٹ پر کامیابی کے بعد مختلف وزارتوں تک کا سفر۔ 3۔ عثمان بزدار المعروف وسیم اکرم پلس: سیاسی تجربہ کاری اتنی کہ مسلم لیگ ق کے دور حکومت میں تحصیل ناظم پھر مسلم لیگ ن کی طرف مراجعت اور 2018کے الیکشن سے کچھ عرصہ قبل ’’پی ٹی آئی‘‘ میں شمولیت۔ 4۔فیاض الحسن چوہان: سیاسی مخالفین اور صحافیوں کیلئے رکیک بیان بازی ان کا مرکزی اصول ہے، 2002میں ’’ ایم ایم اے‘‘ پھر مسلم لیگ ق اور بعد ازاں پی ٹی آئی میں شامل ہوئے۔ 5۔ فردوس عاشق اعوان: بنیادی طور پر ڈاکٹر ’’سیاست کا شوق‘‘ اور یہ بھی اپنی ادنیٰ درجے کی سیاسی بیان بازی اور عامیانہ زبان درازی کے لیے مشہور و معروف رہیں اور یہی ان کا کل سیاسی اثاثہ ٹھہرا۔ 6۔شیخ رشید 1988میں ’’اسلامک ڈیموکرٹیک الائنس‘‘ پھر مسلم لیگ ن، مشرف دور میں مسلم لیگ ق سے ہوتے ہوئے اپنی جماعت ’’عوامی مسلم لیگ‘‘ اور اب ’’پی ٹی آئی‘‘ کا دم بھرتے ہیں۔ ان کا بھی سیاسی اثاثہ لوگوں کو ماڑ دھاڑ اور افراتفری کیلئے اکسانا، مزاحیہ یا غیراخلاقی مُبتذل زبان درازی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ 7۔ زُلفی بخاری: نہ سیاست دان نہ ٹیکنوکریٹ، نہ بیوروکریٹ بلکہ کروڑ پتی اور عمران خان کا دوست ہونا ہی ان کی تمام تر اہلیت ٹھہری۔ 8۔صاحبزادہ جہانگیر عرف چیکو: شخصی کوالٹی یا مہارت کچھ نہیں، عمران خان کا دیرنہ دوست ہونا مشیر بننے کیلئے کافی ہے۔ 9۔معید یوسف، ثانیہ نشتر وغیرہ وغیرہ چونکہ امریکہ میں رہتے ہیں، اس لیے خان کی مشاورت کیلئے کوالیفائی کر گئے اور بس۔

اب اکبر اعظم اور عمران خان کے نو رتنوں کا فرق یا تقابلی جائزہ لیا جائے تو یقیناً کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔ اکبر اعظم کے نو مشیروں نے اپنے علم و فضل، تدبر، تجربے، صلح جُو پالیسیوں اور نیک نامی کی بدولت اپنے ’’باس‘‘ کی طاقت میں اضافہ کیا، یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی اکبر اعظم سے مطمئن و خوش تھے جبکہ اِدھر عمران خان کے ’’نو رتن‘‘ نہ علم و فضل میں باکمال تھے، نہ تہذیب یا فتگی میں بےمثال، نہ اقدار و افعال اور معاملہ فہمی میں لاجواب اور نہ ہی گفتار و کردار کے غازی، بلکہ یہ سب کے سب اپنے سیاسی مخالفین پر لایعنی جملے، پھبتیاں کسنے اور مبالغہ آرائی کے ماہر، کذب و دشنام طرازی کے نانگا پربت اور دھمکیاں دینے میں کوہِ ہمالہ تھے، یہی وجہ رہی کہ یہ لوگ اپنے ’’باس‘‘ کے لیے راستہ ہموار کرنے کی بجائے اس کیلئے راستے کے پتھر ثابت ہوئے۔ شہنشاہ اکبر نے تو 50سالہ دور کے بعد اپنے ترکہ میں پانچ ہزار ہاتھی، بارہ ہزار گھوڑے، ایک ہزار چیتے، 10کروڑ روپے، پانچ سو تولہ کی ہزاروں اشرفیاں، 272من سونا، 310من چاندی اور ایک من جواہرات وغیرہ چھوڑے اور عمران خان نے اپنے تین سال 8ماہ کے دور کے بعد اپنے سیاسی ترکہ میں کیا چھوڑا، اس کی کیلکولیشن تو قارئین خود کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے لیے تو ان کا ترکہ یہی ہے کہ

ہر اک بات پہ کہتے ہو تُم کہ تُو کیا ہے

تمہی کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

تازہ ترین