• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

95فی صد کم پانی کے ساتھ فصلیں اُگانے کا تصور کریں یا ایسے طریقوں سے گوشت حاصل کرنے کا سوچیں کہ اس سے دنیا کی 80فی صد زرعی زمین خالی ہوجائے۔ عالمی سپلائی چین سے کاربن اخراج کو ختم کرنے کے لیے پیداواری یونٹس کو صارفین کے قریب لے جانے سے متعلق کیا خیال ہے؟ وہ تصورات جو کچھ عرصہ قبل تک محیّرالعقول معلوم ہوتے تھے، گرین ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہورہے ہیں۔

گرین ٹیک، ٹیکنالوجی اور سائنس پر مبنی حل کا نام ہے، جو زراعت سے لے کر تعمیرات تک، کئی شعبہ جات میں ماحول پر منفی انسانی اثرات کو کم کرتا ہے۔ عالمی کاربن اخراج 16 فی صد نقل و حمل کی وجہ سے ہوتا ہے، 19 فیصد زراعت، 27 فیصد توانائی کی پیداوار، 31 فیصد تعمیرات اور پیداوار، جب کہ باقی 7 فی صد اخراج حرارت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گرین ٹیکنالوجیز کو کاربن خارج کرنے والے ان تمام شعبوں میں لاگو کیا جا سکتا ہے، اس طرح پائیدار ترقی کے لیے وسیع حل پیش کیے جا سکتے ہیں۔

گرین ٹیک کیا کرسکتا ہے؟

زراعت کے میدان میں، عمودی کاشت کاری سبزیوں کی پیداوار میں انقلاب لا سکتی ہے۔ برلن میں قائم انفارم روایتی کاشتکاری کے مقابلے میں 99فی صد کم رقبہ، 75فی صد کم کھاد اور 95فی صد کم پانی استعمال کرتا ہے۔ پروٹین بھی زیادہ بہتر طریقے سے تیار کی جا سکتی ہے۔ پلانٹڈ نامی سوئس اسٹارٹ اَپ 74فی صد کم کاربن اخراج کے ساتھ کباب سے لے کر پیکنگ بطخ تک پودوں پر مبنی (اور مزیدار) گوشت کا متبادل تیار کرتا ہے۔ پودوں پر مبنی گوشت کی پیداوار کے فوائد اور بھی بڑھ جاتے ہیں: اس کام کے لیے دنیا بھر میں مویشیوں کے لیے استعمال ہونے والی 80فی صد زرعی زمین کو فصلوں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ایک اور اختراع جسے شاید گرین ٹیکنالوجی کے طور پر کم دیکھا جاتا ہے، وہ ہے 3D پرنٹنگ۔ اس کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے راکٹ تیار کرنے والی ’ریلیٹیویٹی سپیس‘ نامی کمپنی پر نظر ڈالیں، جو ایک عام راکٹ کے مقابلے میں سو گنا کم حصوں کا استعمال کرتے ہوئے مکمل راکٹ کے ساتھ ساتھ ان کے انجن بھی 3D پرنٹ کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم پارٹس کو حتمی تنصیب کے لیے پروڈکشن سائٹس پر بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس طرح پروڈکشن فیسلٹیز کو سینٹرلائزڈ سے ڈی-سینٹرلائزڈ انفراسٹرکچر کی طرف لایا جاسکتا ہے، جس سے کارخانوں کے ساتھ ساتھ سپلائی چین میں خارج ہونے والے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ، گرین ٹیک توانائی کی پیداوار اور ذخیرہ کرنے کے طریقے کو تبدیل کرتا ہے۔ توانائی کے شعبہ میں سب سے زیادہ اختراعی کمپنیوں میں ’انرجی والٹ‘ شامل ہے، جو قابل تجدید توانائی کو مؤثر طریقے سے ذخیرہ کرنے کے لیے کشش ثقل کی توانائی کا استعمال کرتی ہے۔ ’ہیلیوجن‘ ایک اور توانائی کمپنی ہے جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے سبز ہائیڈروجن پیدا کرتی ہے۔

ہرچندکہ عمودی کاشت کاری، تھری ڈی پرنٹنگ اور توانائی ذخیرہ کرنے سے مختلف ہےلیکن ان سب میں ایک چیز مشترک ہے: وہ تکنیکی ترقی کو ہمارے سیارے کی پیداواری حدود سے ہم آہنگ کرتے ہیں اور پائیدار ترقی کو ممکن بناتے ہیں۔ اس طرح گرین ٹیک دنیا بھر میں لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے اور اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیارے اور معاشرے کے لیے گرین ٹیک سے مکمل طور پر استفادہ کرنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ گرین ٹیک اختراعات کو کس طرح تیز تر ترقی دی جاسکتی ہے؟ بنیادی طور پر ہمیں سرمایہ حاصل کرنے اور دنیا بھر کے ٹیلنٹ کو گرین ٹیک کی طرف راغب کرنا ہوگا۔

جہاں تک مطلوبہ سرمایہ کا تعلق ہے، متعدد سرمایہ کاروں نے اس شعبہ سے اپنی بلند توقعات کا اظہار کیا ہے۔ اس کی ایک مثال بلیک راک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر لیری فینک ہیں، جن کا ماننا ہے کہ آئندہ ایک ہزار ’یونی کارن‘ اسٹارٹ-اَپس (یونی کارن سے مراد وہ اسٹارٹ اَپ کمپنیاں ہیں، جن کی کم از کم مارکیٹ مالیت ایک ارب ڈالر ہو) کا تعلق گرین ٹیک سے ہوگا۔

بِل گیٹس گرین ٹیک کے حوالے سے انتہائی پرجوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں وہ اس شعبہ میں 8 سے 10 ٹیسلا، ایک گوگل، ایک ایمیزون اور ایک مائیکروسوفٹ جیسی کمپنیاں دیکھ رہے ہیں۔ یہی وہ مواقع ہیں، جن پر سرمایہ کاروں کی نظریں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس شعبہ میں سالانہ نمو کی شرح 210فی صد تک جا پہنچی ہے۔ اگر اس بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری کو اختراعی دماغوں اور انٹرپرنیورز کے ساتھ جوڑدیا جائے تو گرین ٹیک کو بڑے پیمانے پر متعارف کرایا جاسکتا ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ اس میں ’یونیورسٹی ایکو سسٹم‘ کا کردار انتہائی اہم ہوسکتا ہے۔ پھر بھی، گہرے تکنیکی علم کے ساتھ ساتھ گرین ٹیک شعبے میں کامیابی کے ساتھ ایجاد کرنے اور تجارتی بنانے کے لیے درکار کاروباری مہارتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک نئے اور اوپن سسٹم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو حدوں کو توڑتے ہوئے مختلف شعبوں کے درمیان مزید تعاون کو فروغ دے۔

اس طرح ٹیکنیکل یونیورسٹیوں اور بزنس اسکولوں کے طلبا اور اساتذہ کے درمیان نئے روابطہ قائم ہوسکتے ہیں تاکہ گرین ٹیک سلوشنز کے ذریعے مثبت تبدیلی لانے کے لیے ماہرین کی ٹیمیں تشکیل پاسکیں۔ گرین ٹیک پائیدار ترقی کی طرف ایک ایسا راستہ کھولتا ہے جو ٹیکنالوجیکل ترقی کو ہمارے سیارے کی پیداواری حدود کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس سفر کو شروع کریں۔