• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علمی وجاہت، اسلام کے ساتھ گہری وابستگی اور اِسلامیانِ ہند کے سیاسی معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی کی بدولت علامہ محمد اسد کا حلقۂ اثر وسیع ہوتا گیا۔ چودھری نیاز علی جنہوں نے اسلام کی اشاعت کے لیے پٹھان کوٹ کے قرب میں دارالسلام ٹرسٹ قائم کیا تھا، اُن سے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے تھے۔ سر سکندر حیات، مولانا داؤد غزنوی، مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل نوابزادہ لیاقت علی خان اور خواجہ عبدالرحیم سے بھی اُن کا ملنا جلنا تھا۔ وہ ’صحیح بخاری‘ کے منصوبے کے لیے مالی امداد حاصل کرنے ریاست حیدرآباد دَکن گئے جس کے وزیرِاعظم کے نام علامہ اقبال پہلے ہی خط لکھ چکے تھے۔ معقول اعانت کا اہتمام بھی ہو گیا اور اُنہیں سہ ماہی انگریزی جریدے "Islamic Culture" (اسلامی تہذیب) کی ادارت بھی پیش کی گئی۔ یہی وہ زمانہ تھا جب سید ابوالاعلیٰ مودودی ماہنامہ ’ترجمان القرآن‘ خرید کر اُسے اسلام کے انقلابی تصورات اور قرآن کی تفہیم کا ایک مؤثر ذریعہ بنا رہے تھے۔ اُن کی تحریریں جو اُردو اَدب کا شاہکار تھیں، وہ قاری کے جذبات میں زبردست ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ دوسری طرف علامہ محمد اسد اِسلامی کلچر کے ذریعے مغربی تہذیب کی فکری اور اَخلاقی لغزشوں کی نشان دہی اور اِسلامی ثقافت کی مثبت قدروں کی جدید لہجے میں تشریح کر رہے تھے۔ اُن کے مضامین ہندوستان کے علاوہ یورپ میں بھی بڑے شوق سے پڑھے جا رہے تھے۔ یوں اسلامی نشاۃِ ثانیہ کی جستجو کا ایک عہد شروع ہو چکا تھا۔

علامہ محمد اسد دو بار دَارالسلام گئے۔ ایک دفعہ پانچ سالہ قید سے رہائی کے بعد 1945 کے وسط میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے تشریف لائے۔ دوسری بار وُہ اُس وقت آئے جب ہندوستان تقسیم ہو چکا تھا اور دَارالسلام کے مضافات میں چودھری نیاز علی اور جماعتِ اسلامی کے کارکن محصور تھے۔ وہ خواجہ عبدالرحیم کے تعاون سے تین بسیں اور کچھ فوجی جوانوں کے ساتھ پہنچے تھے۔ ایک بس چودھری نیاز علی کی طرف بھیج دی گئی جبکہ دو بسوں میں جماعتِ اسلامی کی خواتین، مولانا عبدالجبار غازی کی سربراہی میں لاہور خیریت سے آ گئی تھیں۔

پاکستان قائم ہوا، تو مغربی پنجاب کے وزیرِاعلیٰ نواب افتخار حسین ممدوٹ نے ’’محکمہ احیائے ملتِ اسلامیہ‘‘ قائم کیا اور علامہ اسد کو اُس کا ناظم بنا دیا۔ وہ اِس سے قبل جریدہ ’عرفات‘ کا اجرا کر چکے تھے اور اُس میں پاکستان کے قیام کی غرض و غایت اور اِسلامی دستور کی اہمیت پر مضامین لکھ رہے تھے۔ یہی وہ دِن تھے جب مولانا مودودی نے ’مطالبہ نظامِ اسلامی‘ کی مہم شروع کر رکھی تھی۔ ممدوٹ صاحب نے اسد صاحب سے کہا کہ آپ نے ’اسلامی دستور کی جانب‘ جو مضمون ’عرفات‘ میں لکھا ہے، اُسے مزید شرح و بسط کے ساتھ ایک میمورنڈم کی صورت دے دیجیے، مَیں اُسے حکومت کی طرف سے شائع بھی کروں گا اور وَزیرِاعظم لیاقت علی خان سے اُس پر تبادلۂ خیال بھی ہو گا۔ چند ہفتوں بعد وزیرِاعظم کی طرف سے اسد صاحب کو کراچی آنے کی دعوت موصول ہو گئی۔

جناب محمد اسد لکھتے ہیں کہ مَیں قیامِ پاکستان سے قبل اُن سے گاہے گاہے ملتا رہتا تھا۔ اُس ملاقات میں اُنہوں نے مجھے اسلامی دستور پر قدرے تفصیل سے لکھنے کی خواہش ظاہر کی اور یہ بھی کہا کہ فی الفور ہم دستورسازی کا عمل شروع نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمیں تو اپنا وجود برقرار رَکھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ کشمیر پر بھارت نے قبضہ کر لیا ہے اور ہمارے پٹھان بھائیوں کی سری نگر پر قبضے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ بھارت فوجی اعتبار سے ہم سے مضبوط ہے۔ ہم تو ابھی حکومتی مشینری کے کُل پرزے درست کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ مَیں وزیرِاعظم کی گفتگو سے متاثر ہوا۔ اِس کے بعد میری کابینہ کے سیکرٹری چودھری محمد علی سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں جن سے یہ تاثر ملا کہ سب سے سنگین مسئلہ معیشت کا ہے۔ اِس دوران وہ ’عرفات‘ میں ریاست کے نظریاتی اور آئینی تقاضوں کے حوالے سے بلندپایہ مقالات لکھتے اور اِسلامی آئین کا مکمل خاکہ تیار کرتے رہے۔ اِس طرح پاکستان میں مطالبہ اسلامی نظام کے حق میں جو عوامی تحریک چل رہی تھی، اُس کی تائید میں اعلیٰ سیاسی اور حکومتی حلقوں میں بھی کسی قدر فضا تیار ہونے لگی۔ اُن کی فکرانگیز تحریریں برکلے یونیورسٹی نے Principles of State and Government in Islam (اسلام میں ریاست و حکومت کے اصول) شائع کی جو اعلیٰ تحقیق کی ایک گراں قدر تصنیف ہے۔

لیاقت علی خان نے 1948 کے اوائل میں علامہ محمد اسد کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ آپ مشرقِ وسطیٰ کے حالات و وَاقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور عربی اور فارسی پر بھی دسترس ہے، اِس لیے آپ وزارتِ خارجہ میں شعبۂ مشرقِ وسطیٰ میں ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ اُن کا وزارتِ خارجہ میں ڈپٹی سیکرٹری کی حیثیت سے تقرر ہوا اَور بعدازاں اُنہیں اقوامِ متحدہ میں تعینات کر دیا گیا جہاں پروفیسر پطرس بخاری سفیر تعینات تھے۔ اُن کا مزاج علامہ محمد اسد سے یکسر مختلف اور خودپسندانہ تھا۔ حُسنِ اتفاق سے اُنہی دنوں اقوامِ متحدہ میں اُن افریقی نوآبادیاتی ممالک کے مستقبل پر غوروخوص کے لیے ایک اہم کمیشن قائم ہوا جس میں علامہ محمد اسد نامزد کر دیے گئے۔ اُس کے ارکان نے پاکستان کو اپنا صدر منتخب کر لیا۔ اِس حیثیت سے علامہ محمد اسد نے فرانس کے خلاف سخت موقف اختیار کیا جس کے باعث تمام افریقی ممالک جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، پاکستان کے حلقۂ اثر میں آ گئے۔

سرکاری ذمےداریوں سے فارغ ہو کر اُنہوں نے قرآن کا رواں ترجمہ اور تفسیر شائع کی اور یورپ اور اَمریکہ میں اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر روشناس کرایا۔ 1957 میں پنجاب یونیورسٹی میں اسلام پر ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد ہوا جس کی ذمےداری اُنہیں سونپی گئی تھی۔ اُنہوں نے بلندپایہ اسکالر مدعو کیے، مگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر بشیر کی خودنمائی کے سبب وہ سیمینار میں مدعو ہی نہیں کیے گئے۔ وہ دِلبرداشتہ ہو کر پاکستان سے بلغاریہ اور ہسپانیہ چلے گئے۔ 1992 میں خالقِ حقیقی سے جا ملے اور غرناطہ کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ جناب محمد اکرم چغتائی نے اُن کی خودنوشت کا ترجمہ کر کے اردوداں طبقے پر بڑا اِحسان کیا ہے اور اُن کی شخصیت پر مبنی ایک نہایت عمدہ کتاب بھی دستیاب ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین