• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مینوفیکچرنگ کے عمل میں ٹیکنالوجی کا استعمال

ٹیکنالوجیز ہر صنعت کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں لیکن تقریباً ہر مینوفیکچرنگ ورٹیکل (مثال کے طور پر کارسازی، الیکٹرانکس، فارماسیوٹیکل، ویئرہاؤسز وغیرہ) میں اگلی دہائی میں زبردست تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ فیکٹری کی ڈیجیٹلائزیشن اور آٹومیشن منافع بخش طویل مدتی سرمایہ کاری ہیں کیونکہ یہ اَپ ٹائم میں اضافہ، مزدوری کی لاگت اور غلطی کی شرح کو کم کرتے ہیں۔ مسابقتی رہنے کے بہت زیادہ دباؤ کو دیکھتے ہوئے مینوفیکچررز اپنے آپریشنز کو ڈیجیٹائز کرنے اور خودکار بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں۔ 

بالخصوص عالمی سطح پر کووڈ-19کے منظر عام پر آنے کے بعد سے مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ مینوفیکچررز اب تیزی سے نئی ٹیکنالوجیز کی طرف دیکھ رہے ہیں، جو مسابقتی رہنے کے لیے پیداواری صلاحیت کو بڑھاتی ہیں۔ مینوفیکچرنگ کے ارتقاء پر نظر ڈالیں تو انسانی طاقت سے چلنے والی صنعت میں ٹیکنالوجی متعارف ہونے سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ لیبز میں جدید روبوٹکس سے لے کر گوداموں تک میں کمپیوٹر ویژن جیسی ٹیکنالوجیز سے کام لیا جارہا ہے۔

موجودہ مارکیٹ

2020ء سے کووڈ-19وبائی امراض، قدرتی آفات اور تجارتی تناؤ کے اثرات نے عالمی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 2022ء میں بڑھتی ہوئی صارفین کی طلب، مزدوروں کی قلت اور سپلائی چین کے مسائل کے باعث مینوفیکچررز کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں۔ کئی دہائیوں سےمینوفیکچرنگ کے شعبے نے روزگار میں نمایاں کمی دیکھی ہے، خاص طور پر جب آبادی میں اضافے کا حساب لگایا جائے۔ 

عالمی سطح پر مینوفیکچرنگ میں افرادی قوت سکڑنے کی اہم وجہ ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔ مینوفیکچرنگ کی پیداواری صلاحیت بڑھ رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہی نتائج حاصل کرنے کے لیے کم ملازمین کی ضرورت ہے۔ روزگار میں کمی کے باوجود مینوفیکچرنگ ویلیو ایڈڈ عالمی جی ڈی پی کے تقریباً 16 فیصد پر برقرار ہے۔

تاہم،2020ء تک امریکی جی ڈی پی کے تقریباً ایک چوتھائی حصے کی نمائندگی کرنے کے باوجود مینوفیکچرنگ نسبتاً کم ڈیجیٹائزیشن کا شعبہ بنی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر، دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں اوسطاً 200 سے کم روبوٹ فی 10ہزار ملازمین ہیں، جو تجویز کرتے ہیں کہ فیکٹری میں آٹومیشن اور روبوٹکس سرمایہ کاری کے لیے کافی گنجائش موجود ہے۔ مینوفیکچرنگ ٹیک کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی بات کریں تو پچھلے 5 سال کے دوران، 2021ء میں اس شعبے کے لیے ایکویٹی فنڈنگ تقریباً تین گنا بڑھ کر $6.8ارب ڈاکر تک پہنچ گئی ہے۔ 

کووڈ-19وبائی مرض نے ابتدائی طور پر ڈیجیٹائزیشن کی کوششوں کو سست کردیا۔ ایک سروے کے مطابق 2020ء میں تقریباً 38فیصد مینوفیکچررز نے اسمارٹ فیکٹری پر سرمایہ کاری کو روک دیا تھا۔ اس کے باوجود، 2021ء تک 80فیصد مینوفیکچررز نے رپورٹ کیا کہ اسمارٹ فیکٹریاں مستقبل میں ان کی کامیابی کی کلید ہیں۔ ممکنہ طور پر اس شعبے میں سرمایہ کاری جاری رہے گی۔

عالمی مسابقت کا نئے حل کی طلب بڑھانا 

عالمگیریت نے دنیا بھر میں مینوفیکچررز کے لیے مسابقت میں اضافہ کیا ہے، خاص طور پر جب مینوفیکچرنگ کم مزدوری کی لاگت والے ممالک میں منتقل ہو گئی ہے۔ کانگریشنل ریسرچ سروس کے مطابق، اس مقابلے نے عالمی مینوفیکچرنگ سرگرمیوں میں امریکی حصہ داری کو1980ء کی دہائی کے اوائل میں 29 فیصد سے 2011ء میں تقریباً 16 فیصد تک کم کر دیا ہے۔ امریکا میں مینوفیکچرنگ پر دوبارہ زور دینے کی وجہ سے 2018ء میں یہ حصہ داری بڑھ کر 18فیصد ہو گئی تھی۔ 

امریکی فیڈرل ریزرو کے ایک مقالے کے مطابق، امریکا میں مینوفیکچرنگ آؤٹ پٹ میں کمی کے علاوہ، چین سے بڑھتی ہوئی درآمدات کی وجہ سے مصنوعات کے مارک اَپ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک ہی وقت میں، اضافی مسابقت نے مصنوعات کے معیار کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ اوسط صارفین کے لیے اچھی خبر ہو سکتی ہے، لیکن اضافی لاگت کو برداشت کرنے والے مینوفیکچررز کے لیے یہ مشکل رہا ہے۔

مسابقتی ماحول میں مقابلہ کرنے کے لیے امریکا، جاپان، جنوبی کوریا اور یورپی ممالک مینوفیکچرنگ کے عمل میں لاگت کو کم کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز تلاش کر رہے ہیں۔ عالمگیریت کے نتیجے میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی طلب میں بھی اضافہ ہوا ہے، جہاں مینوفیکچرنگ کے نئے عمل بشمول ڈیجیٹائزیشن اور آٹومیشن کی کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ فارماسیوٹیکل، ٹیکنالوجی، ایرو اسپیس اور دیگر شعبوں میں بڑی کمپنیاں اب ہر سال ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرتی ہیں، جس میں بہت سے صنعت کار کارپوریٹ خرچ کرنے والوں کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔

مینوفیکچررز، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ خرچ کو مزید ممالک میں پھیلا رہے ہیں کیونکہ وہ مقامی مارکیٹوں کو بہتر طور پر سمجھنے، مقامی ہنر اور بنیادی ڈھانچے کو شامل کرنے اور مزید بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کرہ ارض میں مزید انضمام اور دنیا بھر میں اشیا کی ترسیل میں نسبتاً آسانی کے ساتھ مینوفیکچررز آنے والی دہائیوں تک عالمگیریت کے اثرات کا سامنا کرتے رہیں گے۔

ری شورنگ کی لاگت

ترقی یافتہ دنیا میں کمپنیوں پر آف شورنگ مینوفیکچرنگ روکنے کے لیے شدید سیاسی دباؤ ہے۔ لیکن منسلک بین الاقوامی سپلائی چین، سستی لیبر، کاروباری لاگت میں کمی اور حکومتی مالی مراعات کے امتزاج کو کمپنیوں کے لیے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ اس کے نتیجے میں حالیہ دہائیوں میں ترقی یافتہ ممالک میں مینوفیکچرنگ کے روزگار میں نمایاں کمی ہوئی۔ تاہم، 2014ء کے بعد سے ری شورنگ (کمپنیوں کی بیرون ملک مینوفیکچرنگ کو ان کے اپنے ممالک میں واپس لانے کا عمل) امریکا اور یورپ کے بیشتر حصوں میں روزگار کے اعداد و شمار میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ ری شورنگ کی موجودہ تیزی کے پیچھے تین عوامل کارفرما ہیں:

٭ آٹومیشن، روبوٹکس، ڈیجیٹائزیشن اور دیگر ٹیکنالوجیز کی ترقی کام کرنے والوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ چونکہ یہ ٹیکنالوجیز سستی ہوتی جاتی ہیں، لہٰذا وہ لیبر کی زیادہ لاگت کے باوجود مینوفیکچرنگ کو ’ری شور‘ کرنا معاشی طور پر زیادہ ممکن بناتی ہیں۔

٭ کووڈ-19کے دوران بہت سے ایشیائی ممالک کے درمیان سخت لاک ڈاؤن کے ساتھ، ری شورنگ کی ترغیب میں اضافہ ہوا، کیونکہ مغربی ممالک میں لاک ڈاؤن نسبتاً کم شدید تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، 2020ء میں امریکا میں ایک لاکھ 9ہزار ملازمتیں ری شور کی گئیں، ان میں سے 46فیصد پوزیشن چین سے آئیں۔ کووڈ-19کو بنیادی وجہ کے طور پر درج کیا گیا تھا اور ان میں سے زیادہ تر عہدے دواسازی اور ذاتی حفاظتی سامان (PPE) کے حوالے سے تھے۔

٭ غیرممالک پر انحصار کم کرنے اور محفوظ سپلائی چین قائم کرنے کے لیے اہم صنعتوں میں مانگ کو بڑھانا۔ حریف ممالک کی طرف سے تجارت پر پابندی لگا کر شدید اقتصادی نقصان پہنچانے کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے، اور اس کی وجہ سے ری شورنگ کا سلسلہ شروع ہورہا ہے۔

لیبر کی لاگت اور قلت

کانفرنس بورڈ کے مطابق، دنیا بھر میں مینوفیکچرنگ لیبر کی لاگت میں فرق نمایاں ہے، سوئٹزرلینڈ میں یہ 60ڈالر فی گھنٹہ، امریکا میں39ڈالر فی گھنٹہ جبکہ میکسیکو اور چین میں تقریباً 5 ڈالر فی گھنٹہ ہے۔ ٹیکسٹائل اور کنزیومر الیکٹرانکس جیسی محنت کش صنعتوں کے ساتھ، لاگت کے اس تفاوت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے اور مینوفیکچرنگ کو کم لاگت والے ممالک میں منتقل کرنے کی یہ ایک اہم وجہ ہے۔ لیبر کی زیادہ لاگت بھی روبوٹکس اور آٹومیشن کی مانگ کو بڑھا رہی ہے۔ درحقیقت، یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ روبوٹکس 2025ء تک عالمی سطح پر لیبر کی لاگت میں 16 فیصد کمی کرسکتا ہے۔

جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے لیبر کی لاگت اور کمی سے نمٹنے کے لیے روبوٹکس کو جارحانہ انداز میں اپنایا ہے۔ دونوں ممالک کو عمر رسیدہ آبادی کے ساتھ مجموعی آبادی میں بھی کمی کا سامنا ہے، جس سے ان کے لیے روبوٹس کو لوگوں کی جگہ لینے کے لیے تیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ جاپان میں صنعتی سطح پر روبوٹ بنانے والوں نے 2017ء میں دنیا بھر میں فراہم کیے گئے 50فیصد سے زیادہ روبوٹس تیار کیے، جب کہ جنوبی کوریا کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں فی 10ہزار ملازمین زیادہ صنعتی روبوٹ استعمال کرتا ہے۔

دنیا بھر میں، مینوفیکچرنگ لیبر اور ہنر کی کمی کی وجہ سے سُکڑ رہی ہے۔ 55سال سے زیادہ عمر کے لوگ امریکا میں تکنیکی افرادی قوت کا بڑا حصہ بناتے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان ملازمین زیادہ تعداد میں بڑی عمر والوں کی جگہ نہیں لے رہے۔ دریں اثناء، مینوفیکچرنگ کے لیے تکنیکی مطالبات بڑھ گئے ہیں، جس کی وجہ سے صحیح ورکرز کی خدمات حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ مجموعی طور پر، یہ رجحانات آٹومیشن، روبوٹکس، اور دیگر ٹیکنالوجیز کی زیادہ مانگ کا باعث بن رہے ہیں تاکہ اعلیٰ کارکردگی والے ورکرز اور زیادہ لچکدار سپلائی چینز کو قابل بنایا جا سکے۔

پائیداری کے اقدامات

مینوفیکچررز اپنے ماحولیاتی اثرات کے بارے میں تیزی سے آگاہی حاصل کر رہے ہیں، خاص طور پر پائیدار طریقوں کے لیے صارفین کی مانگ کو دیکھتے ہوئے سہولتوں میں توانائی اور پانی کا کم استعمال لاگت میں نمایاں بچت کا باعث بن سکتا ہے۔ ہماری دنیا میں ڈیٹا کے مطابق، مینوفیکچرنگ میں توانائی کا استعمال عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا 24فیصد ہے اور مزید 5فیصد مختلف صنعتی استعمال میں ہوتا ہے۔ مینوفیکچرنگ کا شعبہ بھی ماحولیاتی اور صحت پر مضر اثرات جیسے پانی، ہوا اور شور کی آلودگی میں حصہ ڈالتا ہے۔ جواب میں، بہت سی کمپنیاں کلین مینوفیکچرنگ حل تیار کر رہی ہیں۔