• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی مرتبہ وہ مجھے اپنے حلقۂ یاراں میں بٹھا لیتا اور ہم گُھل مِل جاتے ۔ بھلے وہ مصر کی کینیڈا میں سفارت کار فرح ہو، جن سے پاکستان آجانے کے بعد میرا خط کتابت کا خاصی دیر تک سلسلہ رہا یا اُس کی اطالوی دوست صوفیہ ہو، جو اٹلی سے سیاحتی گروپ لے کر استنبول آتی رہتی تھی۔ استنبول کے تاریخی کوارٹرز کو ایک تصویر کہا جائے تو وہ اس تصویر کا ایک ایسا جزو بن چُکا تھا، جس کے بغیرتصویر نامکمل رہتی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ اُس کے زیادہ تر واقف کار غیر تُرک تھے بلکہ وہاں کے مقامی دکان داروں، ہوٹل مالکان اور ویٹرز سے بھی اُس کے ایسے تعلقات تھے کہ وہ اُسے دیکھ کر کھِل اُٹھتے تھے۔

بعض اوقات مجھے حیرت ہوتی تھی کہ کیا ایک شخص کے اتنے واقف کار اور دوست بھی ہوسکتے ہیں۔ مگراِس سوال کا جواب مجھے اُس کے طرزِ زندگی سے مل جاتا تھا۔ درحقیقت وہ کمروں میں زندگی نہ گزارتا تھا، بلکہ اپنے کمرے میں بھی فقط سونے کے لیے آتا تھا۔ اُس کا سارا دن گلیوں، سڑکوں، بازاروں میں گزرتا تھا۔ سلطان احمد کا علاقہ اُس کا گھر تھا اوراِس کے مختلف گوشے اُس کے کمرے۔ ایک شہر، جہاں ہرسیاحتی سیزن میں لاکھوں کی تعدادسےتجاوز کرتےسیاح سالانہ آتےتھے، اُس جیسے ملن سار آدمی کا مقبول ہوجانا قرینِ حقیقت تھا۔ اِس کے علاوہ اِس کی ایک وجہ اُس کے بدلتے پیشے بھی تھے۔ میرےچند ہفتوں کےقیام کے دوران وہ وہاں انادولو سےبہترایک ہوٹل میں عارضی طور پر منیجر کے فرائض بھی سرانجام دیتا رہا تھا کہ وہاں کے مستقل منیجر کو چُھٹی پرجانا پڑگیا تھا۔ یوں زیادہ آمدورفت والے ہوٹل میں اُس کی شناسائی وہاں مقیم مہمانوں سے بھی ہوگئی۔ 

علاوہ ازیں کسی غیر حاضر گائڈ کی جگہ کسی ٹور کے ساتھ بطور گائڈ بھی چلا جاتا تھا۔ تُرکی کی تاریخ و ثقافت پر معلومات اُسے ازبر تھیں۔ پھر اُن میں وہ دل چسپ واقعات اور لطیف جملے بھی ٹانکتا رہتا تھا۔ ایک دفعہ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ وہ لندن یا پیرس کو بھی اپنا مرکز بنا سکتا تھا، اُس نے استنبول کو کیوں کر اپنا ٹھکانا بنایا، تو اُس نے جواب دیا کہ اُسے استنبول جیسی محبّت اور جذبات کی گرمی کہیں اور نہیں ملتی۔ استنبول باقی معروف یورپی شہروں سے بہ درجہا سستا بھی تھا۔ سوئٹزرلینڈ سے اُس کی مقررہ آمدنی اور اپنی چھوٹی موٹی تجارت سے مناسب گزارہ ہوجاتا تھا۔ 

ایک مرتبہ اُس نے اُس کی ایک اورتوجیہ بیان کی تھی کہ کبھی کوئی شخص آپ کو پہلی ملاقات ہی میں اچھا لگنے لگتا ہے، جب کہ پرانے شناساؤں سے اجنبیت برقرار رہتی ہے، یہ معاملہ شہروں کا بھی ہے۔ اُس کا اپنے آبائی شہر، برن سے اجنبیت کا تعلق قائم تھا، جب کہ استنبول میں اُسے پہلی بار آنےہی پراپنائیت محسوس ہونے لگی تھی۔ ’’وجہ کا تعلق دماغ اور اپنائیت کا رشتہ دل سے ہوتا ہے، دل کو کوئی وجہ نہیں چاہیے ہوتی، یہ فقط دماغ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مَیں، تم ایشیائی لوگوں کی طرح دل کا آدمی ہوں، میرے پاکستانی دوست۔‘‘ ایک صبح صحنچی میں بیٹھے ہوئےاُس نے کہا تھا۔ کبھی ہماری پورے دن میں لمحہ بھر ملاقات ہوجاتی تو کبھی سامنا ہی نہ ہوتا۔

ایک شام میں چھت پر کھڑا دُور نظر آتی سہ پہر کی بارش سےبھیگی کھپریل کی سُرخ چھتوں کو دیکھ رہا تھا اور دُور کہیں سے دھواں اٹھتا تھا۔ شاید آگ لگی تھی کہ فائربریگیڈ کی گاڑیوں کےڈوبتے،اُبھرتےمدھم سائرنزکی آوازیں آرہی تھیں۔ اُس روز خلافِ معمول گیبرئیل جلد ہوٹل آگیا تھا۔ مَیں نے اُسے زمینی صحنچی میں کھڑا دیکھ کر ہاتھ ہلایا۔ اُس نے جوابی ہاتھ ہلایا۔ تھوڑی دیر میں وہ اوپر آگیا۔ اُسے بخارتھا اوروہ اپنےکمرے میں آرام کرنےآیا تھا۔ مَیں اپنے ساتھ ادویہ لے کر آیا تھا۔ مَیں نے پیش کش کی کہ اُسے دوا دے دیتا ہوں۔ اُس نے شکریہ ادا کیا اور اپنی جیب سے تھرمامیٹر نکال کر بغل میں اُڑس لیا۔’’حیران مت ہو، مجھے منہ میں تھرمامیٹر رکھنے سے متلی ہوتی ہے اورآج بھی ٹیکا لگوانے سے ڈر لگتا ہے۔ مَیں اپنا بخار نوٹ کررہا ہوں اور میرے پاس دوائیں بھی ہیں۔ بہت شکریہ دوست۔‘‘ 

اُس نے اُداس موڈ کےباوجود چہرے پرمُسکراہٹ لانے کی کوشش کی۔اُس کی تنہائی اور بیماری دیکھ کر میرے اندر خواہش جاگی کہ اے کاش! اِس وقت اُس کی ماں ہوتی اوراس کےقریب ہوتی۔ اُس وقت وہ جوان تھا اورمَیں نوجوان، سوشفقت اور ایثار کے حوالے سے ماں کا خیال آیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ماں کا کردار تو بہن، بیوی اور بیٹی بھی بخوبی نبھاتی ہیں، خاص طور پر بیٹی۔ چند ثانیے بعد گیبرئیل اپنے کمرے میں آرام کرنےچلا گیا اور مَیں اپنی ماں کو یاد کرنے لگا، جو لاہور میں یقیناً اپنے جگر گوشے کے بغیر بہت اداس ہوں گی۔ 

اُس شب میں ایک قریبی ریستوران چلا گیا، جو گیبرئیل کا مَن پسند تھا، گیبرئیل کی کیفیت کا بتا کر پرہیزی کھانا تیار کروایا اور پیک کروا کے لے آیا اور اُس کے کمرے کی بتّی روشن ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ وہ جب سے کمرے میں گیا تھا، سویا ہوا تھا۔ بتّی روشن ہوئی اوراس کی روشنی دروازے کی درزسے باہر آئی تو مَیں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ پلنگ چرچرانے کی آواز آئی اور دروازہ کُھل گیا۔ مَیں نے کھانا اُٹھایا اور اُس کے کمرے میں لے گیا۔ وہ آگے بڑھا اورایک دم ٹھٹھک گیا۔ ’’مجھے وبائی بخار ہے، تمھیں بھی لگ جائے گا۔ شکریہ تو میں بعد میں ادا کروں گا، پہلے تُم کمرے سے چلے جاؤ۔‘‘ اُس کی آنکھوں میں بڑے بھائیوں والی نرمی تھی۔

تین چار روز میں وہ صحت یاب ہوگیا۔ اس دوران میڈیوسا ریستوران کی بزرگ مالکہ اُس کی خیریت دریافت کرنےآئیں، مگر بزرگ خاتون سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتی تھیں، توریسیپشن ہی سے واپس چلی گئیں، دیگر چند دوست احباب بھی اُس کی عیادت کو آئے اور اُس کی خیریت دریافت کرکے زمینی منزل ہی سے لوٹ گئے۔ مَیں بہرحال اُس کی خبرگیری کرتا رہا۔ بیماری کےساتھ نےہماری دوستی کو ایک ایسی گہرائی عطا کردی، جس میں بات کیےبغیر فقط چہرے کے تاثرات سے انسان احوال سے واقف ہوجاتا ہے۔ زندگی معمول کے مطابق چل رہی تھی۔ ایک روز مَیں دن بَھر آوارہ گردی کر کے میڈیوسا ریستوران میں ٹرکش قہوے کی چسکیاں لے رہا تھا کہ گیبرئیل تیز تیز قدم اٹھاتا فٹ پاتھ پر چلتا نظر آیا۔ 

وہ بےحد خوش لگ رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر وفورِجذبات سےکھلکھلا اُٹھا۔ اُسے ایک بڑی کاروباری کام یابی مل رہی تھی۔ ایک نئے شخص کے ساتھ اُس نےشراکت داری کی تھی اور اُنھیں ایک ایسا یونانی رئیس ملا تھا، جو اُس کے حاصل کردہ نوادر کو خاصی اچھی قیمت پر خریدنا چاہتا تھا۔ اِس سودے پر اُس نے اپنی قریباً ساری جمع پونجی لگا دی تھی۔ اُس کی جمع پونجی یقینا بہت بڑی رقم نہ ہوگی، تب کی تُرک پالیسی کےمطابق نوادر کومُلک سےباہر نہیں لےجایا جاسکتا تھا۔ سَو اُس نے اپنے شراکت دار کے ذریعے اُنھیں یونان بھجوانے کا اہتمام کیا تھا۔ مطلوبہ رقم اُسے چند روز میں کیش کی شکل میں ملنا تھی۔ 

وہ چاہتا تھا کہ اس سودے کا دستاویزی ثبوت نہ ہو۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ ایسا جوا، وہ زندگی میں دوسری مرتبہ کھیل رہاہے۔ ایک مرتبہ کی کام یابی نے اُسے خاصا پرُاعتماد کردیا تھا۔ اُس نے پیش کش کی کہ وہ آیندہ شب مجھے استنبول کے ایک منہگے ہوٹل میں ڈنر کروائے گا۔ اگلے روز اُس کی ایک برطانوی دوست آرہی تھی۔ مَیں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور مشورہ دیا کہ ابھی وہ اتنے پیسے خرچ نہ کرے،منافع حاصل ہونےکے بعد پلان بنالیں گے، البتہ اگر وہ وقت نکال کر مجھے استنبول کے ایسے قابلِ ذکر مقامات دکھا دے، جو سیاحتی نقشے پر موجود نہیں تو مَیں اس کاشُکرگزار ہوں گا۔ وہ کچھ دیر سوچتارہا اور چُٹکی بجا کر بولا کہ ’’تم، میرےساتھ ایک انوکھی جگہ چلنے کو تیار ہوجاؤ‘‘۔

٭……٭٭……٭

ہم استنبول کے بازار ِ حسن پہنچے، تو وہاں ایک مقامی تُرک ہمارا منتظر تھا۔ اُسے گیبرئیل نے روانہ ہونے سے پہلے فون کردیا تھا۔ بےاوگلو کے علاقے میں ’’قدم‘‘ اور ’’زرافا‘‘ نامی گلیوں میں جسم فروشی قانونی طور پر ہوتی تھی۔ ہم تینوں جنگلے والے گیٹ سے زرافا گلی میں داخل ہوئے۔ باقی شہر کے برعکس ادھر کچرے کےڈھیر نظر آرہے تھے۔ شوکیس نُماقدِآدم شیشوں کے پیچھے سستے میک اَپ میں لُتھڑی نیم برہنہ، فربہ عورتیں گلی سےگزرنے والوں کو اشارے کررہی تھیں۔ عجب کراہت کا احساس ہوتا تھا۔ گیبرئیل کو مَیں نے سہما اور گھبرایا ہوا پایا۔ یوں نظر آتا تھا، جیسے وہ چاہتاہو کہ ہم گلیوں کا چکر لگا کر جلد لوٹ جائیں۔ شوکیس نُماچھوٹے کمروں میں وہ عورتیں انسان سے زیادہ مویشی محسوس ہوتی تھیں اور بازارِحسن مویشی منڈی۔ 

کمروں میں ٹیوب لائٹس روشن تھیں اور تیز روشنی میں پس منظر کی نیلے، سبز رنگوں میں روغن شدہ دیواریں نمایاں ہوتی تھیں۔ گلی میں اتنی بِھیڑنہ تھی۔ چند لوگ سہمے سہمے اورکچھ ایسے پرُاعتماد انداز میں چل رہے تھے، جیسے وہ وہاں کے مستقل گاہک ہوں۔ ہمارے تُرک ساتھی نے بتایا کہ تمام قحبہ خانے لائسنس یافتہ ہیں اور زنانِ بازاری کا باقاعدگی سے میڈیکل چیک اَپ ہوتا ہے۔ اس کے باوجودیہ مقام بیماریوں کا گڑھ ہے، کیوں کہ دیگر بہت سے ترقی پذیر ممالک کی طرح یہاں بھی رشوت دے کر میڈیکل سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا جاتاہے۔ ان سب قحبہ خانوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے ایک آرمینیائی خاتون چلا رہی تھی۔ 

وہ خاصے اثر و رسوخ کی حامل تھی اور ٹیکسز کی مد میں حکومت کو سالانہ کروڑوں روپے ادا کرتی تھی۔ اس کاروبار پر اُس کی اجارہ داری تھی۔ اُس نے بتایا کہ چند برس قبل ہونے والے سویت یونین کے انہدام کے بعد اس کاروبار میں مندی آئی ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ سویت یونین کے ٹوٹنے کا استنبول کے قحبہ خانوں سے کیا تعلق، تو اُس نے بتایا کہ آزاد ہونےوالے مشرقی یورپ اور وسط ایشیاکے ممالک سے بےشمار لڑکیاں اِدھر آگئی تھیں اور غیر قانونی طور پر اس دھندے سے وابستہ تھیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تُرکی میں غیر قانونی طور پر ایک لاکھ سے زیادہ لڑکیاں اس پیشے سے منسلک ہیں۔ اُس نے میرے اور گیبرئیل کے لیے ایک ایسی خاتون سے ملاقات کا انتظام بھی کیا تھا، جو وہاں کا انتظام دیکھتی تھی۔

اُس گلی سے ذرا ہٹ کر ایک عمارت میں ایک ادھیڑ عورت ہماری منتظر تھی۔ دیکھنے میں وہ گھریلو عورت لگتی تھی۔ سادہ کپڑوں میں ملبوس بھاری بھرکم جُثے کی مالک۔ اطوار میں شایستگی اور مٹھاس تھی۔ گلی سے نکل کر گیبرئیل کے چہرے پر تناؤ کے تاثرات ختم ہوگئے تھے۔ بعدازاں، اُس نے مجھے بتایا کہ اِدھر کے ماحول سے اُسے گِھن آتی تھی اور یہ کہ وہ جگہ جرائم پیشہ افراد کا گڑھ تھی، جو کسی سیاح کا تعاقب کرکے اُس کاٹھکانا دیکھ لیتے تھے اور اُسے موقعے پر پولیس کی ملی بھگت سے بلیک میل کرکے یادیگر طریقوں سےلُوٹ لیتےتھے۔ ادھیڑ عورت نے، جو تمام قحبہ خانوں کی آرمینیائی مالک کی نمایندہ اور ملازم تھی،بتایا کہ ان قحبہ خانوں پر کام کرنے کے لیے لائسنس ملنا بےحد دشوار ہے اور لائسنس کی میعاد ختم ہونے کے بعد اس کی تجدید بھی آسان نہیں۔ 

حکومت عوامی دباؤ، روایت پسند عناصر کی پذیرائی اور سیکولر اقدار کے کم زور پڑنے کی وجہ سے اس کاروبارکی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔’’اس اچھے کاروبار پر بھی کیا بُرے دن آگئے ہیں۔‘‘ اُس نے آہ بھر کر کہا۔ گیبرئیل بہت توجّہ سے خاتون کی گفت گو سے زیادہ اُس کی حرکات وسکنات پر غور کررہا تھا۔ وہ زیادہ تر گفت گو تُرک زبان میں کر رہی تھی، ہمارا تُرک ساتھی ترجمان کا کردار ادا کررہا تھا۔’’سواسو سال سےاس علاقےمیں پیار بانٹا جارہا ہے۔ آہ! مگر وہ پہلے کے سے زمانے نہیں رہے۔ پہلے یہ گھر’’محبّت گھر‘‘ہوتےتھے، جہاں محبّت اور ہم دردی کے بول بھی بولےجاتے تھے۔ وہ زمانے گزر گئے۔ اب یہ ’’پیارگاہوں‘‘ کی جگہ ’’جنس گاہیں‘‘ بن گئی ہیں۔‘‘ اُس کے لہجے میں حسرت تھی۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ مشرقی یورپ سے گروہ درگروہ آنے والی لڑکیوں کو ’’نتاشا‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

نتاشا کا لفظ مجھے روسی ناولز کے کرداروں کی یاد دِلاگیا تھا۔ مَیں نے اس بات کا تذکرہ باہر نکل کر ترک ساتھی سے کیا، تو اُس نے بتایا کہ’’نتاشا‘‘ترکی میں ان لڑکیوں کے لیے عام استعمال کا لفظ ہے۔ جب گیبرئیل نے پولیس کے جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل جانے کا تذکرہ کیا، تو اُس نے بتایا کہ اس علاقے میں چھوٹی عُمر کے لڑکوں کا داخلہ قانونی طور پر منع ہےمگرپولیس رشوت لےکر اُنھیں بھی گلیوں میں جانےکی اجازت دےدیتی ہے۔ مَیں نےادھیڑ عورت کے میٹھے لہجے کا تذکرہ کیا تو کہنے لگا کہ یہ اس کی کاروباری ضرورت ہے، دنیا بھر میں نایکائیں گاہکوں کے ساتھ مٹھاس بھرا رویہ ہی اپناتی ہیں۔ جب تُرک ساتھی ہم سے رخصت ہوا تو گیبرئیل دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرکے فرانسیسی میں کچھ بڑبڑایا اور گہرے، لمبے لمبے سانس لیے۔ میرے استنبول میں قیام کے دوران گیبرئیل اور اُس کے دوستوں کے ساتھ کئی چھوٹے چھوٹے واقعات، مکالمات، مشاہدات ہیں۔ مختلف رنگ ہیں، جن سے اس کی شخصیت کا مونتاژ بنتا ہے۔

٭……٭٭……٭

اُنھی دنوں میرا ارادہ قونیہ اور بودرم جانے کا بن گیا۔ قونیہ کو مولانا روم کی وجہ سے بین الاقوامی شہرت حاصل ہے اور بودرم کو اپنے آزاد ماحول اور یورپ بھر کے نوجوان لڑکے، لڑکیوں کے اِس ساحلی شہر میں گُھل مِل جانے کی وجہ سے۔ تُرکوں میں بودرم، بیڈ روم کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ مَیں نے گیبرئیل کو بتایا کہ مَیں چند روز کے لیے اُدھر جارہا ہوں،مگر فون پر اُس سے رابطہ رکھوں گا۔ اُس وقت تک دستی فون کےتعارف اور وسیع تر استعمال میں کئی برس کا فاصلہ حائل تھا۔ بودرم کے فیروزی پانی، دل رُبا ریتلے ساحل، بے فکری کے ماحول، ہر سُو حسین و رنگین نوجوان لڑکے، لڑکیوں کی خوش باشیوں کے مناظر کی بہتات نے مجھ پر ایک نئی دنیا وا کی۔ مجھے خُوب یاد ہے، جیسے کل کی بات ہو، بلکہ آج صبح کی کہ ہاتھ بڑھایا اور اُن لمحات کو چُھولیا۔ ہر ہر لمحہ میری یادداشت پر نقش ہے۔ (جاری ہے)