میلے ٹھیلے کسی بھی سماج کے تہذیبی و ثقافتی نقوش اور روایات و ارتباط کا عکس ہوتے ہیں اور زندگی کے مختلف رنگ جب محبّت کی ایک لڑی میں پروئے جائیں، تو وہ اُس علاقے کی ثقافت بن جاتے ہیں، جس میں میلے بھی شامل ہیں۔ مقامی رنگ و روپ سے آراستہ میلے جہاں ثقافتی روایات کے امین ہوتے ہیں، وہیں ان میں مذہبی رنگ بھی جھلکتا ہے۔ ہمارے ہاں عموماً میلوں ٹھیلوں کا سیزن موسمِ بہار کے ساتھ ہی شروع ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز میں لگنے والے میلوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے، تو وہ کسی نہ کسی طور پر اولیائے کرام کی پاکیزہ محافل کی یاد تازہ کرتے ہیں۔
بکرمی مہینے، چیت کے پہلے جمعۃ المبارک سے شروع ہو کر چوتھے جمعۃ المبارک تک جاری رہنے والا اوچ شریف کا تاریخی میلہ بھی بزرگانِ دین کی بابرکت محافل کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق برِصغیر پاک وہند میں ’’چار یار‘‘ کے نام سے معروف عظیم روحانی شخصیات، حضرت شیخ بہائو الدّین زکریا ملتانیؒ، حضرت بابا فرید الدّین گنج شکرؒ، حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندرؒ اور حضرت سیّد شیر شاہ جلال الدّین سُرخ پوش بخاریؒ ہر سال موسمِ بہار کے آغاز میں اوچ شریف میں ایک جمعے سے دوسرے جمعے تک رُشدوہدایت اور وعظ ونصیحت کی مُشک بُو محفلیں سجاتے تھے۔
عہدِ گُم گشتہ میں چیت کے مہینے کا آغاز ہوتے ہی گردونواح سے لوگ اپنی روحانی و قلبی تسکین کے لیے اوچ شریف کا رُخ کرتے تھے۔ چیت کے پہلے جمعے کو شہر کے تمام گلی کوچوں کی صفائی کی جاتی اور پھر دوسرے جمعے کو پانی اور عرقِ گلاب کا چھڑکائو کر کے بچی کُھچی گرد کو بٹھا دیا جاتا، جس سے اوچ شریف کا گوشہ گوشتہ چمکتا نظر آتا اور انواع و اقسام کی خوش بُوئوں سے رُوح تک سرشار ہو جاتی۔
فصل کی کٹائی سے پہلے یعنی چیت کے تیسرے جمعے کو اولیائے کرام کی تشریف آوری ہوتی اور شام تک اُن تمام مساجد اور خانقاہوں میں، جہاں بزرگانِ دین نے قیام کرنا ہوتا، ایک خلقت اُمڈ آتی۔ چوتھے اور آخری جمعے کو لوگوں کا جذبۂ ایمانی عروج پر ہوتا اور اس کے بعد لوگ گندم کی کٹائی میں مصروف ہو جاتے۔
گردشِ ایّام میں بدلتی روایات کے باعث اب چیت کے تیسرے جمعے کو ’’پندرہویں والے میلے‘‘، جب کہ چوتھے اور آخری جمعے کو ’’بائیسویں والے میلے‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ ’’پندرہویں والے میلے‘‘ کے موقعے پر دُور دراز سے زائرین اور عقیدت مند اوچ شریف آ کر جامع مسجد درگاہ حضرت سیّد جلال الدّین سُرخ پوش بخاری، جامع مسجد درگاہ حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت، جامع مسجد درگاہ حضرت محبوب سبحانی اور محمد بن قاسم سے منسوب تاریخی مسجدِ حاجات میں نمازِ جمعہ ادا کرتے ہیں اور پھر درگاہوں اور آستانوں پر حاضری و فاتحہ خوانی کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔
اس موقعے پر خواتین کی بھی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے، جو عموماً منّت پوری کرنے، چڑھاوے چڑھانے اور جنّ نکلوانے کے لیے آتی ہیں۔ چیت کے چوتھے جمعے کو شروع ہونے والا ’’بائیسویں والا میلہ‘‘ اپنی تمام تر رونقوں اور گہما گہمی کے ساتھ تقریباً ایک ہفتہ جاری رہتا ہے۔ اس میلے میں مُلک کے طول و عرض سے لوگ آتے ہیں اورخوب لطف اندوز ہونے کے علاوہ مزارات پر فاتحہ خوانی کر کے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ میلے میں درگاہ جلالیہ سہروردیہ کے سجّادہ نشین، سیّد زمُرد حسین بخاری اور درگاہ قادریہ غوثیہ کے سجّادہ نشین، سیّد افتخار حسن گیلانی کی طرف سے زائرین و عقیدت مندوں کو رسول اللہ ﷺ، اہلِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین سے منسوب تاریخی اشیا، نوادرات و مخطوطات کی زیارت بھی کروائی جاتی ہے۔
آج جہاں اور بہت سی خُوب صُورت روایات، امتدادِ زمانہ کی بے رحمی کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں، وہیں اوچ شریف کے تاریخی میلے کے رنگ بھی سیکیوریٹی سمیت دیگر وجوہ کی بنا پر پھیکے پڑ گئے ہیں۔ تاہم، اب بھی جب کوئی میلہ سجتا ہے، تو علی پور روڈ، احمد پور شرقیہ روڈ، خیر پور ڈاہا روڈ، مین بازار اور اندرون ہاتھی گیٹ بازار تک رونق دکھائی دیتی ہے۔
پُر رونق بازاروں میں کہیں کھانے پینے کے اسٹالز تو کہیں برتنوں اور کھلونوں کی دُکانیں سڑک کنارے تک پھیلی دکھائی دیتی ہیں۔ اس موقعے پر دنگل، اونٹوں کی لڑائی، جُھومر ناچ، جُھولے پنگھوڑے، ورائٹی شوز، تھیٹرز اور سرکس وغیرہ میلے کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس دوران درگاہوں اور مزارات کے احاطوں میں پیری مُریدی کا دھندا بھی عروج پر ہوتا ہے اور بعض مقامات پر غیر اخلاقی سرگرمیاں بھی دیکھی جاتی ہیں۔
میلے کے انعقاد سے جہاں لوگوں کو تفریح کے مواقع میسّرآتے ہیں، وہیں مقامی افراد کے لیے روزگار کے دروازے بھی کُھل جاتے ہیں۔ اس موقعے پر مختلف اسٹالز لگانے والوں کو اچّھی خاصی آمدنی ہو جاتی ہے، لیکن عموماً دُکان دار حضرات اشیائے خورونوش کی تیاری میں حفظانِ صحت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھتے اور زائرین میں منہگےداموں ’’بیماریاں‘‘ ہی فروخت کرتے ہیں۔ میلے سے محکمۂ اوقاف اور میونسپل کمیٹی کی آمدنی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے لیکن ان محکموں کی طرف سے زائرین کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی تک سے محروم رکھا جاتا ہے۔
میلے کی صدیوں پرانی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بعض جگہ محکمہ اوقاف کے زیرِ اہتمام علمائے کرام کے وعظ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ تاہم، واعظ کی آواز لائوڈ اسپیکر ایکٹ کے خوف سے گھگھیا رہی ہوتی ہے، جب کہ اس قانون پر عمل درآمد کرانے والی مقامی انتظامیہ کے سرکردہ افراد اسی میلے میں رقص وسرود کی محفلوں میں دادِ عیش دے رہے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، جیب تراشی اور چوری چکاری کے واقعات کے سبب بھی زائرین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بائیسویں والے میلے میں لوگوں کے ازدحام اور من چَلوں کی یلغار کے باعث مقامی اسکولوں میں طلبہ کی حاضری بھی انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ والدین بچّیوں اور چھوٹے بچّوں کو میلے کے دنوں میں اسکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں۔ امسال بائیسویں والے میلے کا آغاز 5ا پریل سے ہونا تھا، تاہم رمضان المبارک کے باعث میلے کے منتظمین اور سجّادگانِ اوچ شریف نے مشاورت سے اس کی تاریخ 28اپریل مقرّر کی گئی۔ حکومت اور محکمہ سیّاحت، تاریخی شہر اوچ شریف کے قدیم روایات کے حامل میلے کو سرائیکی وسیب کی اہم ثقافتی و سماجی سرگرمی کے طور پر نمایاں کرکے اس علاقے کو سیّاحت کے لیے پُرکشش بنا سکتی ہے۔