• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھر اُس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی پشت کو کئی بار چوما اور بتایا کہ اُسے اِس نوعیت کی محبّت درجنوں بار ہوچکی ہے۔ اس کے بعد اُس نے بتایا کہ اُسے اِس سےبڑھ کر بھی کئی محبّتیں ہوچُکی ہیں،مگرجنوں خیز محبّت ایک جرمن لڑکی سے ہوئی تھی، جو زیورخ تعلیم کی غرض سے آئی تھی۔ ’’اُسے واپس جانا تھا۔ تمھارے ہاں معاشرہ رکاوٹ بنتا ہے اور ہمارے ہاں حالات اور روزگار۔ ہمارے ہاں عورت اور مرد دونوں کام کرتے ہیں۔ بہت سے تعلقات اس لیے بھی ٹوٹ جاتےہیں کہ جسےجہاں بہتر روزگار کا موقع ملتا ہے، وہ وہاں چلا جاتا یا چلی جاتی ہے۔‘‘’’کیا تم ابھی اُس سے رابطےمیں ہو؟‘‘ مَیں نےجھجکتے ہوئے پوچھا۔ ’’نہیں، کیا فائدہ۔ جومحبّت ہاتھ سے نکل جائے، اُس کے پیچھےجانےکا کیا فائدہ۔ ہم نے تبھی طے کرلیا تھا کہ اب آگے کی طرف دیکھیں گے۔‘‘یہ کہہ کر وہ اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ ’’تمھاری نوعیت کی محبّت، محبّت نہیں ہوتی، شاید کرش ہوتا ہے۔‘‘میرے یورپی دوست کو کیا معلوم تھا کہ محبّت کا تعلق جسم سے نہیں، روح سے ہوتا ہے۔ اُسےکیا معلوم کہ ہمارے ہاں تو اُس دَور میں ’’پہلی نظر کی محبّت‘‘ اُس محبّت کو کہاجاتا تھا، جو ہر اُس لڑکی سے ہوسکتی تھی، جو سب سے پہلے نظر آجائے۔

٭……٭٭……٭

اگلے دو روز معمول کے مطابق گزر گئے۔ میری گیبرئیل سے کوئی ملاقات نہ ہوئی، آمنا سامنا بھی نہ ہوا۔ مَیں شہر گردی کے لیے نکل جاتا تھا۔ کبھی توپ کاپی عجائب خانہ تو کبھی تینوں آرکیالوجیکل میوزیم۔توپ کاپی محل سے آبنائے باسفورس،گولڈن ہارن اور مرمرا سمندر کے دل نشیں اور سحر انگیز مناظر نظر آتے۔ اندر مقدّس اشیا، قدیم ہتھیار، پورسلین کے برتن اور فن کے نادر نمونے تخیّل کو ادوارِ گزشتہ میں لے جاتے تو حرم میں سلطان کی بیگمات کے ٹرکش باتھ کے گرد تعمیر کردہ دل کش اورٹائلز سےمزیّن کمرےمحلّاتی سازشوں اور باہمی چپقلشوں کی داستان سُناتے۔ توپ کاپی کےقرب میں تینوں آرکیالوجیکل میوزیم دس لاکھ سے زائد نوادر کاخزانہ رکھتے ہیں اور اُنھیں دیکھنے کے لیے کئی دن درکار ہوتے ہیں۔ شہر میں سیکڑوں ریستوران، کیفے اورمےخانے ہیں۔ 

شہر کے ایشیائی حصّے پر واقع استقلال اسٹریٹ(جسے راہِ استقلال بھی کہا جا سکتاہے)آج بھی محافل شبینہ کا مرکز ہے۔ایک زمانے میں یہ اپنے مسافر خانوں اور سرائے کے لیے معروف تھا۔ اس سڑک پر لاتعداد مے خانے، کلب اور کیفے تھے اور یہ سڑک تقسیم اسکوائر میں آنکلتی تھی۔ تقسیم اسکوائر جدید شہر کا مرکز ہے۔ اُن دنوں مجھے متنبّہ کیا جاتا تھا کہ میں راہِ استقلال پر محتاط رہوں، کیوں کہ وہاں لُٹنے کا خطرہ ہوتا اور ذیلی گلیوں میں معمولی رقم کے لیے روز رات کو کسی سیاح کو قتل کردیا جاتا۔ ایک بات میرے لیے بڑی مایوس کُن تھی کہ اِس پورے علاقے میں کتابوں کی صرف ایک دکان تھی، ریستوران بے شمار تھے، بالخصوص سمندری خوراک کے معروف ریستوران باسفورس کے کنارے واقع ہیں، صرف کم کاپی کے علاقے میں، مرمرا کےکنارے جہاں صرف پیدل چلنے کی اجازت ہے، پچاس سے زائد سی فوڈ ریستوران ہیں۔ رومن اور بازنطینی ادوار میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھیلوں کا سب سے اہم موقع رُتھوں اور گھوڑا گاڑیوں کی دوڑ ہوتی تھی اور یہ ہپوڈروم (گھڑدوڑ کا میدان) میں ہوتی تھی، جہاں ایک لاکھ سے زیادہ تماشائی بیٹھ سکتے تھے۔

استنبول، یورپ کے ثقافتی مراکز میں سے ایک اہم مرکز تھا۔ ادھر یورپ وایشیا سے فن کار اور کاری گر جُوق درجُوق آتے تھے۔ یہاں پہلی فلم 1896ء میں لگی تھی، یعنی پیرس میں پہلی بارفلم متعارف ہونے کے صرف ایک برس بعد۔ مَیں شہر میں پیدل زیادہ چلتا تھا، وگرنہ وہاں عوامی سفر کے لیے فیری، ٹرین، ٹرام، بس اور دیگر ذرائع سفر با آسانی اور جابہ جا میسّر تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا، اگر میں نے درویشوں کا صوفی رقص نہ دیکھا اور ٹرکش ڈیلائٹ نامی مٹھائی نہ کھائی تو گویا اِدھر آیا ہی نہیں۔ یہ دونوں تجربات خاصے دل چسپ ثابت ہوئے۔ ٹرکش ڈیلائٹ کی مرکزی دکان ریلوےاسٹیشن کےقریب تھی۔ یہ وہی ریلوے اسٹیشن ہے، جہاں سے یورپ کےسفرکے لیے مشہور اور افسانوی اورینٹ ایکسپریس چلا کرتی تھی۔ 

اِس کا تذکرہ آگاتھاکرسٹی نے اپنے ایک معروف ناول میں کیاہے اور ہالی ووڈ کی کئی فلموں میں اس کی عکس بندی بھی کی گئی ہے۔ مَیں ٹرکش ڈیلائٹ کی مرکزی دکان میں گیا، تومجھے خاصی حیرت ہوئی۔ وہاں کے مین کاؤنٹر کے پیچھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ ایسا نہ تھا کہ وہ کئی تصاویر میں سے ایک تصویر تھی بلکہ وہ وہاں لگی واحد اور بڑی فریم شدہ تصویر تھی۔ محترمہ چند برس قبل ہی دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ مَیں نے منیجر سے اپنا تعارف کروایا اور تصویر کی بابت دریافت کیا۔ وہ بہت گرم جوشی سے ملا اور اس نے بتایا کہ بے نظیر بھٹو پوری مسلم دنیاکےلیے بالعموم اور روشن خیال طبقے کےلیےبالخصوص قابلِ فخرشخصیت ہیں۔

اُس نے بتایا کہ صرف وہی نہیں ، پورا تُرکی محترمہ سے محبّت کرتاہے۔صوفی درویش رقص دیکھنےکا تجربہ بھی بڑا ناقابل فراموش تجربہ تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے بغل میں ایک بڑا ہال تھا، جہاں روزانہ مقررہ وقت پر صوفی رقص ہوتا تھا۔ مَیں ٹکٹ لے کر اس روح پرور تجربے کے لیے وہاں چلا گیا۔ مولانا روم کے دیس، قونیہ کا یہ رقص پوری دنیا میں تُرکی کی پہچان بن چُکاہے۔ ہال میں داخل ہوا تو وہاں تقدّس کی باس تھی۔ چند حاضرین پہلے سے موجود تھے۔ کوئی صوفی ابھی تک نہ آیا تھا۔ تھوڑی دیر میں صوفیوں کی آمد کا اعلان ہوا۔سفیدگھاگروں اور فراک نُماسفید لبادوں میں ملبوس، سَر پر اونچی لمبی گول ٹوپیاں۔ 

انھوں نےدھیرے دھیرے گول گول گھوم کر رقص کا آغاز کیا۔ بس پھر ایک سماں بندھ گیا۔ یوں لگتا تھا، جیسےانوارکی بارش ہو رہی ہو۔ صوفیوں کے چہروں پہ روشنی و پاکیزگی دمک رہی تھی، آنکھیں بند تھیں، وہ گول گھومتے ہوئے، ہَوا میں تیرتےمحسوس ہوتےتھے۔ دیگر صوفیوں کی طرح اُن کا قائد بھی بےریش تھا۔ البتہ قائد کے چہرے پر تقدّس باقیوں سےبڑھ کرتھا۔ مَیں مسحور تھا اور سوچ رہا تھا کہ جانے ان درویشوں نے کتنی عبادت کی ہوگی، جو ایسا نُور ان کےچہروں کا ہالہ کیے ہوئےہے۔ رقص تھما، تو خاصی دیر تک فضا میں اُس کا اثر رہا۔ آہستہ آہستہ سب حاضرین باہر نکلنے لگے۔ہال کےنیم اندھیرے سےدن کی چکاچوند حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔ 

مَیں باہر آکر ایک چبوترے پر آن بیٹھا اور لمحہ شماری کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں ہال کی پشت پر واقع دروازہ کُھلا اور درویش باہر آنے لگے۔ انھوں نے جینز اور ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں، چند صوفی سگریٹ کے کش لگا رہے تھے، دو ایک دھوئیں کے گول مرغولے بنا رہے تھے، درویشوں کےقائد نےگُھٹنےسےپھٹی جینز پہن رکھی تھی، اُس کے ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے میں بیئر کا کین تھا اور وہ کسی صوفی کی بات پر بےہنگم قہقہے لگا رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر مَیں اپنی جگہ جامد ہوگیا۔ خدایا! تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں۔ گیا تو میں ایک اوررقص دیکھنے بھی تھا اور یقینا وہ درویش رقص نہ تھا اور میں اکیلا بھی نہ تھا، گیبرئیل میرے ساتھ تھا کہ ہم بحری کروز پر بیلے ڈانس دیکھنے گئے تھے۔

ایک روز مَیں اپنے ہوٹل کے استقبالیہ کاؤنٹرپر ریسیپشنسٹ سے استنبول کی سیاحتی سرگرمیوں کی بابت بات کر رہا تھا کہ میری نظر باہر صحنچی نُما ٹیرس پر پڑی۔ وہاں گیبرئیل درخت کےنیچے بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہاتھا۔گزشتہ دوچارروز سے ہماری ملاقات نہ ہوئی تھی۔وہ صبح ہی سےاپنے کاروباری دورے پر نکل کھڑا ہوتا، کہیں سے سامان وصول کرتا تو کہیں سے رقم۔ اِدھر تاجر کے پاس سامان رکھواتا، تو اُدھربھاؤ تاؤکرتا۔ ریسیپشنسٹ نے دیگر کئی پروگرامز کے علاوہ شام کےبحری کروز کا تذکرہ کیا۔ اُس کروز میں سمندر کی سیر کے علاوہ ڈنر اور لائیو بیلے ڈانس بھی شامل تھے۔ کسی خاص موقعے کی مناسبت سےٹکٹ رعایتی نرخوں پر دست یاب تھے۔ مَیں گزشتہ دنوں کی تنہا آوارہ گردی سے اُکتا چُکا تھا، گیبرئیل کے ساتھ سے ایک ہم نشیں میسّر آجاتا اوراُس کی گزشتہ مہربانیوں کا ازالہ بھی ہوجاتا، سَو میں اُس کےپاس چلا گیا۔ وہ کتاب پڑھنےمیں منہمک تھا۔ مَیں اُس کے قریب بیٹھ گیا۔

اُس نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور میرے بولنے سے قبل ہی اپنےمخصوص انگریزی الفاظ میں بول پڑا۔ ’’مَیں ایک ایسا ہی ناول لکھنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے شادی نہیں کی اورنہ ہی ارادہ ہے۔ مَیں آزاد زندگی کا قائل ہوں۔ شادی انسان نے معاش اور معاشرتی ضرورت کے تحت اور موت کے خوف کے باعث ایجاد کی۔ مجھے موت کا خوف نہیں، البتہ میری خواہش ہےکہ میرے مرنےکےبعد کوئی میرا نام لیوا ہوا۔ شادی کی صُورت میں نام ایک نسل تک زندہ رہتا ہے، جب کہ اچھی کتاب کی صُورت میں انسان کے نام لیوا کئی نسلوں تک رہتے ہیں۔‘‘یہ کہہ کروہ چُپ ہوگیا۔ 

وہ کسی گہری سوچ میں غلطاں تھا اور فلسفیانہ موڈ میں نظر آتا تھا۔’’مجھے نام لیواؤں کی بھی خاص پروا نہیں۔ بس خواہش ہے کہ کوئی ایسا فن پارہ (Piece of Art)تخلیق کروں کہ نہ صرف مَیں اُسےدیکھ دیکھ کرخوش ہوؤں بلکہ وہ میرے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی مسرت بخشے۔‘‘مَیں نے اُس کی بات بیچ سے اُچک لی۔’’گیبرئیل! تمھارا مسرت بخشنے کا منصوبہ طویل مدّتی ہے۔مَیں نے آج رات کو فوری مسرت کا انتظام کیا ہے۔‘‘اُس نے استفہامیہ نظروں سےمجھےدیکھا تو مَیں نے اُسے بحری کروز، ڈنر اوربیلے ڈانس کا بتایا اور اپنے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دی۔ وہ تذبذب میں پڑا، تو مَیں نے اپنا اور اُس کا ٹکٹ جو مَیں نے خریدرکھے تھے، اُس کے سامنےدھردیے۔ اُس نےکندھے اُچکائے اور مسکرا دیا۔

شام کوکروزاپنےسفرپرروانہ ہوا۔آبنائے باسفورس کے ایک جانب جدید شہر کی روشنیاں، چہل پہل اور دوسری جانب سلطنت کی پرُشکوہ عمارات تھیں۔ بحری کروز پر زیادہ تر سیاح تھے، جاپانی، یورپی، عرب اور دیگر خِطّوں کے سیاح ایک خوش صُورت شام کے امکان پر خاصے پرُجوش تھے۔ سمندری ہوا عرشے پر بہتی تھی اور سیاح اپنے پیمانے تھامے اِردگرد کے ماحول سے لُطف اندوز ہو رہے تھے۔ نئی دوستیاں جنم لے رہی تھیں، لوگ ایک دوسرے سے متعارف ہورہے تھے۔ ڈنر سے پہلے بیلے ڈانس کا اہتمام تھا۔ تھوڑی دیر میں اعلان ہوا کہ بیلے ڈانس شروع ہوا چاہتا ہے، سَو سب لوگ اندرہال میں آجائیں۔ مَیں اور گیبرئیل بھی اندر چلے گئے اور ایک جانب بیٹھ گئے۔ 

ہال کو قدیم پرُتکلف شاہی اندازمیں سجایاگیا تھا، جس کا وسطی مقام مجرا گاہ کی طرز پر خالی تھا۔ چند لمحوں میں اعلان ہوا کہ بیلے رینا آیا چاہتی ہیں۔ اِس اعلان کے ساتھ خیرمقدمی موسیقی کے لَے تیزہوئی اور ایک حسینۂ بلاخیز اندر داخل ہوئی۔ اُس کےجسم پرسنہرا جالی دار مختصر لباس تھا۔ رقاصہ ناچتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور غیرمعمولی رفتار سے تھرکنے لگی۔ اُس کی پازیبیں جھنجھنا اُٹھیں اور کمر کے گرد بندھی سنہری زنجیر تیز روشنی میں چمکیلی ہوگئی۔ مَیں کہ ناآشنائے رسومِ محفل تھا، ایسا نظارہ دیکھ کر گڑبڑا گیا۔ گھبراکر اِدھراُدھر دیکھا کہ کوئی مجھے دیکھ تو نہیں رہا، لیکن سب اُس فتنہ پرور کی جانب متوجّہ تھے، سوائے گیبرئیل کے۔ وہ جو اِن محافل کا نقیب تھا، میری حالت دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔ 

اپنا منہ میرے کان کے قریب لا کر ہنستے ہوئے بولا ’’تم تو شرما کر سُرخ ہورہے ہو۔‘‘ کیمرامین تصویریں بنا رہا تھا، جو اُسے بعدازاں شائقین کو یادگار کے طور پر بیچنا تھیں۔ رقاصہ رقص کرتی ہوئی آتی تھی اور شائقین کو چھوئے بغیر اُن کے قریب سے گھوم جاتی تھی۔ گیبرئیل نے بتایا کہ رقاصہ کوچُھونا سختی سےمنع ہے۔ شائقین خُوب تہذیب سے داد دے رہے تھے۔ حفیظ جالندھری نے، جن کے قومی ترانے کے الفاظ کو ایک تقدّس حاصل ہے، شاید ایسے ہی کسی موقعے کے لیے کہا تھا ؎ جب حشر کا دن آئے گا…اُس وقت دیکھا جائے گا…ہاں ناچتی جا،گائے جا…نظروں سے دل برمائے جا…تڑپائےجاتڑپائےجا…اودشمن ِدنیا ودیں۔ رقص کے آخری دورانیے میں ایک شخص محفل کے بیچ میں آیا اور شائقین سے کچھ پوچھ کر ڈائری میں لکھنے لگا۔ 

تیز موسیقی میں وہ میرے قریب آیا اور مجھ سے میرے وطن کاپوچھ کرچلا گیا۔ تھوڑی دیر میں وہ مختلف مُلکوں کی جھنڈیاں اُن مُلکوں سے تعلق رکھنے والے شائقین کے سامنے رکھے اسٹینڈز پر لگانے لگا۔ رقاصہ، رقص کرتےہوئے آتی تھی، مرد شائق کے ساتھ ایک پوز بناتی تھی، اور اُس کے ملک کے جھنڈے کے پس منظر میں تصویر بنوا کر آگے بڑھ جاتی تھی۔ جہاں جوڑے بیٹھے تھے، وہ اُن کے بیچ اپنی دل آویز مسکراہٹ سے بیٹھ بھی جاتی تھی۔ میری باری آنے سے پہلے میرے آگے بھارت کا جھنڈا رکھ دیا گیا۔ 

اُس جھنڈے کو دیکھ کر گیبرئیل نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یہ پاکستان کا جھنڈا ہے۔ مَیں نے نفی میں سرہلایا اور کہا کہ یہ بھارت کا جھنڈا ہے۔ اُس نے حیرت سے پوچھا کہ مَیں نے اپنے سامنے بھارت کا جھنڈا کیوں رکھوایا ۔ مَیں نے وضاحت کی کہ بھارت ہمارا دشمن مُلک ہےاور مَیں نےآج جو یہ واہیات حرکت کی ہے، تو چاہتا ہوں کہ لوگ سمجھیں کہ ایسے کرتوت بھارتیوں ہی کے ہو سکتے ہیں۔ یہ سُن کر اُس کے منہ سے ہنسی کا فوّارہ چھوٹ گیا اور وہ ہنستا ہوا ہال سے باہر نکل گیا۔ پھر اگلے چند روز تک وہ اپنے قریبی احباب کو یہ واقعہ میری جانب اشارہ کر کرکے سناتا رہا۔

٭……٭٭……٭

احباب تواُس کےخاصےتھے۔درحقیقت وہ سلطان احمد کے تاریخی، ثقافتی علاقے کا ایک جانا پہچانا، مَن موہنا کردار تھا۔ اکثروبیش ترمیڈیوسا ریستوران میں نئے سیاحوں کی راہ نُمائی کرتا پایا جاتا تو کبھی اپنے اُن پرانے غیرمُلکی واقف کاروں کے ساتھ سڑک کنارے کسی کیفے میں گپ شپ کرتا نظر آتا، جو بہ غرضِ کاروبار یا سیاحت بار بارشہر آتے رہتے تھے۔ وہ ہر ایک کی مدد کو تیار رہتا تھا اور اُسے بہت سےلوگوں کےگھریلو، معاشی یا دیگر معاملات کی خبر رہتی تھی۔ (جاری ہے)