• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور تو میرا ہے، سیاست دان سبھی حاجی نمازی، محبِ وطن یا صوفی ہیں، میں ہی بچوں کو نہ بتا سکا کہ فلسفۂ اسلام، سیکولرازم، کیمونزم اور سوشلزم میں فرق کیا ہے؟ میں نے انہیں بطورِ استاد کلاس روم میں پنپنے ہی نہ دیا کہ وہ بحث و تمحیص کے دریچے کھول سکیں۔ گھر پر انہیں سورہ عصر کی کسوٹی نہ دی کہ اس پر پرکھیے، کون خسارہ میں ہے اور کون منافع میں۔ کسی کو ڈاکٹر بنا لیا، کسی کو وکیل اور کسی کو لیکچرار مگر ان میں ریسرچ کا مادہ نہ ڈالا، سو وہ ڈیٹا دوستوں سے منگوا منگوا کر ریسرچ پیپر چھاپتے رہے، انگریزی کو منہ ضرور مار لیتے ہیں تاہم پنجابی اور اردو کے لازمی مضامین سے ناواقف ہیں۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی گھٹی دی، انسانیات، اخلاقیات، لسانیات، اسلامیات، سماجیات اور سیاسیات کی آرٹ تو سکھانا ہی بھول گیا کہ معاشرہ بنانا کیسے ہے، پس وہ معاشرے میں کم اور اپنی ذات میں زیادہ رہتے ہیں، سب بچے اصلیت سے کہیں دور نرگسیت میں بستے ہیں۔ امریکہ مردہ باد سکھایا یا برطانیہ کو شیطانیہ بتایا کیونکہ ہمارا ویزہ نہ لگ سکا، جب بچے بھی اپنے بل بوتے، میرٹ اور دانشمندی یا وسائل کی کمی سے امریکی و برطانوی ویزے حاصل نہ کر سکے تو ثابت ہوا کہ واقعی ترقی یافتہ ملک ’’برے‘‘ ہیں۔

بچوں کو یہ بھی نہ بتا سکے کہ ہم حب الوطنی کے نشہ کی بنیاد پر مولانا مودودی، عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابوالکلام آزاد کو بھی اسلامک رسک قرار دے چکے ہیں، ہم فاطمہ جناح بمقابلہ جنرل ایوب خان کے دور میں اسلام پسندی اور پاکستانیت کی شاہراہ پر اتنے ہی تقسیم تھے جتنے فوٹو کھنچوانے اور فوٹو نہ کھنچوانے والوں میں یا بےنظیر بھٹو بمقابلہ نواز شریف میں۔ بےنظیر کو ہم نے امپورٹڈ اور نواز شریف کو میڈ ان پاکستان بنایا، عورت کی حکمرانی اور مرد کی راج دھانی کا فرق بھی کبھی ہمارے ایمان کا حصہ رہا۔ نو ستاروں کے نظامِ مصطفیٰ و اسلام اور ذوالفقار علی بھٹو کے اسلام آباد میں فرق جان کر ہم کیسے جیے حالانکہ اس وقت جلتی پر تیل ڈالنے والا سوشل میڈیا بھی نہیں تھا۔ یہ بھی نہ بتایا بچوں کو کہ بھٹو کی محبت میں لوگوں نے کیسے خود کو آگ لگائی اور کیسے کوڑے چومے، اس کے مقابلے پر جنرل ضیاء الحق کتنے ’’امیر المومنین‘‘ تھے یہ بھی نہ سمجھا سکے، درس گاہوں میں کلاشنکوف اور ہیروئن پہنچا کر طلبہ یونینز کا خاتمہ کرنے اور ایکو سسٹم کے سیاستدانوں کے بجائے پولٹری سسٹم اور ہوم ڈیلیوری سسٹم سیاستدانوں پر کس قدر روحانیت، طریقت، شریعت اور ذاتی طبیعت کے میلانوں سے بسم اللہ اور الحمدللہ کیا، یہ سب مستقبل کے معماروں کو بتایا ہی کب تھا ہم نے؟ کیسے کیسے کشمیر کو بچانے، بھارت سے بچنے، پہلے پاکستان اور پھر ایٹم بم بنانے میں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اور جنرل یونیورسٹیوں کے بنانے کے علاوہ اسٹیل ملز بنانے میں کیا کیا پاپڑ بیلے، مشرقی و مغربی پاکستان کیسے دو لخت ہوئے؟ یہ سب ہم کلاس اور گھر میں نہ بتا سکے، کلاس میں آمر پسند نصاب پڑھایا اور گھر میں برادری اور ذات پات کے ہنر سکھائے! 1973کا آئین بنانے، جمہوریت کیلئے زندان خانوں میں جانے کی بات تو نئی پود کو بتائی ہی نہیں۔ نہ انہیں یہ معلوم کہ فاطمہ جناح کو الیکشن ہرایا کیسے گیا، اب نیا زمانہ کہتا ہے کہ ہم ہی اکلوتے پیدا ہوئے جو ریاستِ مدینہ بنانے کے درپے ہیں، آپ نے تو ’’پھٹا‘‘ پرانا پاکستان بنایا تھا ہم ’’نیا‘‘ پاکستان بنائیں گے، آپ کو پلیجرازم کا کیا پتہ ہم اس ہنر سے بھی ملک کو عظیم سے عظیم تر بنائیں گے، ہمی نے اختلاف کا علم بلند کیا ہے۔

نتیجتاً، نرگسیت گر راج کرنے لگی ہے تو قصور ہماری نسل کا ہی ہے۔ اجی، خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنے کیلئے اسلامی دنیا میں کسی خاتون کو وزیراعظم بنانے کا ریکارڈ بنایا مگر آج کے لڑکے لڑکیوں کو لگتا ہے کہ انسانی حقوق کا صرف انہیں پتہ ہے۔ انسانی حقوق کا پتہ اسلام کے لٹریچر میں حقوق و فرائض کے باب میں چودہ صدیوں سے زائد عرصہ سے موجود ہے۔ جو بچہ یا بوڑھا گھر کے مکتب اور دفتر میں حقوق و فرائض سے ناآشنا ہے وہ جلسہ گاہ کا جھوٹا چاند تارہ تو ہو سکتا ہے، فرض شناس نہیں! کاش بحیثیت پڑھے لکھے ووٹرز ہم ترقی یافتگان کی ریسرچ کو بھی دیکھ لیتے، محض اپنے حسد کو نہیں۔ پھر قربان جائیں ان کے جو تیس چالیس سال واپس نہیں آنا چاہتے، نہ کبھی آئے، جو تین چار عشروں سے مغرب میں ہیں اور ان کا آج کا پانچ سات سالہ بچہ مستقبل میں پاکستان سے کیا تعلق رکھے گا؟ ان سب کا حلف پاکستان سے ہے یا امریکہ سے؟ مگر سیاست کا مزا پاکستان میں پاکستانیوں کی طرح کا، نمبرداری والا اور مغرب میں امریکیوں اور برطانویوں کی طرح کا چاہتے ہیں۔ کیسا تضاد ہے؟

ہمارے بزرگوں میں سیاسی جنگ تھی، نو ستاروں اور بھٹو کو لے کر، ضیا اور بھٹو کو لے کر، بےنظیر اور نواز شریف کو لے کر، اور وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ حب الوطنی و غداری، اسلام اور سیکولر ازم آمنے سامنے ہے۔ آج کوئی نئی تقسیم ہے نہ فارمولا نیا۔ وہی اسلام اور کفر پر سیاست، وہی وطن پرستی اور غداری پر سیاسی دکان پھیکے پکوان، ہاں ایک نئی چیز کا تیکھا پن ضرور ہے، ماضی میں نظریہ پاکستان اور اور دو قومی نظریہ میں بھارت بمقابلہ پاکستان تھا، اور آج پرانا پاکستان اور نیا پاکستان۔کل کوئی یونینسٹ سے مسلم لیگی بنا کوئی مسلم لیگی سے عوامی لیگی اور پیپلز پارٹی کا حصہ بنا۔کل بھٹو اور بےنظیر پر اردو کا عالم نہ ہونے کا الزام تھا آج بلاول پر۔ ہماری پود نے پچھلے چار عشروں میں ایک سی سیاست نہیں دیکھی؟ فرق کیا ہے؟ فقط بلاول اور عمران خان کا؟ نواز شریف اور عمران خان کو سیاسی گھٹی دینے والا فلسفہ الگ تھا یا طبقہ؟ دراصل ہم نے کسی فلسفے، لیڈر، جمہوریت یا وطن کو تاحال چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح، ذات اور اجتماعیت میں فرق سمجھا تو یہ سمجھا کہ میں نے اپنے نظریے، اپنے زاویے اور فائدے کیلئے لوگوں کے روبرو فارمولا جذبات کا فٹ کرنا ہے یا مذہب کا، بس!

ضرورت اس امر کی ہے کہ جدتوں کا دعویٰ رکھنے والی، ڈیجیٹل لائف کی حامل اور سائنس سے آشنائی کا زعم رکھنے والی نسل تاریخ، انٹرنیشنل افیئرز، سوشیالوجی، لینگوئجز اور ادب کو بھی سمجھیں، سب سطحی سمجھنے سے معاشرہ، ریاست یا ویلفیئر تشکیل پاتی ہے نہ انسان سازی۔ غور کیجئے، کچھ بھی نیا نہیں، سیاست، فلسفہ، نعرہ نہ منشور، پرانے مشروبات پر نئے لیبل چسپاں کرنے والی ہی کہانی ہے!

واللہ اس نئی بےرنگ و بےبو و بےذائقہ سیاسی کم سماجی تقسیم میں قصور خان کا نہیں، میرا ہے!

تازہ ترین