• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معیاری اور مناسب خوراک کیلئے زرعی بیجوں کی اہمیت

عالمی انسانی منشور کی رُو سے معیاری اور مناسب خوراک کی بر وقت فراہمی ہر انسان کا بنیادی حق ہے، جس کے نتیجے میں کسی بھی قوم کی مجموعی استعداد کار اور قوتِ عمل ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے۔ نشو و نما کے بنیادی اجزاء میں ہر انسانی جسم کو روزانہ خاص مقدار میں صاف پانی، کاربو ہائیڈریٹ، پروٹین، وٹامن، نمکیات اور چکنائی درکار ہوتی ہیں ۔ معیاری اور مناسب خوراک کی فراہمی میں معیاری بیجوں کی فراہمی اور دستیابی کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ ہزاروں برس سے انسانی زراعت ہی قدرتی ماحول کو بیج کی فراہمی کی بنیاد رہی ہے۔ اس وجہ سے یہ کسی کی کوئی ذاتی شے نہیں بنی اور کسان بار بار بوائی کے عمل کو جاری رکھتا رہا لیکن اب صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔

زرعی بیجوں کا کردار

ایک دوسرے کو بیج دینے پر کسانوں کے تعلقات افزائش پاتے تھے لیکن اب تعلقات کی بنیاد تبدیل ہوگئی ہے۔ ایک دوسرے کو بیج کی فراہمی اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے کیونکہ 1990ء کی دہائی میں ایک ایسا قانون عالمی سطح پر منظور کر کے نافذ کیا گیا، جس کے تحت دنیا بھر میں 50فی صد سے زائد فصلوں کے بیجوں پر چند بین الاقوامی کمپنیوں کا کنٹرول تسلیم کر لیا گیا۔

زرعی بیج پر کنٹرول

امریکا کی مشہور وسکونسن میڈیسن یونیورسٹی سے وابستہ دیہی معاشرت کے ماہر پروفیسر جیک کلوپنبرگ کا کہنا ہے کہ بیج کی آزادانہ فراہمی پر خوراک کی سپلائی کو کنٹرول کرنا ممکن ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہی بیجوں سے پیدا ہونے والی فصلیں انسانوں اور زمین کے جانوروں کے لیے خوراک کا ذریعہ ہیں۔ کلوپنبرگ کے مطابق یہ درست ہے کہ نئے پودوں کو دریافت کرنے کا عمل ہی مستقبل میں زمین کے جانداروں کے لیے خوراک کا مؤثر عمل ہے۔ 

دوسری جانب اقوام متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ خوراک پیدا کرنے والی 75 فی صد فصلوں کی کئی اقسام 1990ء سے 2000ء کے دوران کسی حد تک ناپید ہوگئیں اور اس تناظر میں بیجوں کی مؤثر اقسام پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔ اس باعث کئی بیجوں کی نئی اقسام کو پہلے سے موجود قسموں کا مستقل متبادل قرار دیا گیا۔ یہی وہ دور تھا جب چند بڑی بین الاقوامی کمپنیوں کو عالمی سطح پر بیجوں پر اجارہ داری قائم کرنے کا موقع ملا۔

کنٹرول کا طریقہ کار

جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بیج تیار کرنے والی ان عالمی کمپنیوں نے کسانوں کو پابند کیا کہ وہ بیجوں کی فروخت کس طرح محدود رکھیں گے۔ اس میں کسانوں کو پابند کیا گیا کہ وہ اگلی فصل کے لیے بیج محفوظ نہیں کریں گے، یعنی حاصل شدہ فصل سے اگلی بوائی نہیں کی جائے گی۔ اس سارے عمل کے لیے قانون سازی کی گئی اور اس کا نام پلانٹ ورائٹی پروٹیکشن رکھا گیا۔

عالمی ادارہ تجارت (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) نے تمام رکن ممالک کو پابند کیا کہ وہ اس قانون کی پاسداری کریں گے۔ پودوں کے تحفظ کے قانون پر عمل درآمد کی نگرانی کا ایک بین الاقوامی ادارہ UPOV بھی قائم کر دیا گیا اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے رکن ممالک کو اس ادارے کی رُکنیت حاصل کرنے کی پابندی قبول کرنا پڑی۔

عالمی کمپنیوں اور ناقدین کا نقطہ نظر

بیجوں کو کنٹرول کرنے کے اس عالمی قانونی طریقہ کار سے متعلق زرعی تحقیق کے جرمن ادارے کا کہنا تھا کہ یہ پابندی کسانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ہے تا کہ وہ اپنی عارضی اجارہ داری کے تحت بیجوں کی نئی اقسام کاشت کر کے بغیر کسی مسابقت کے زیادہ مالی فائدہ حاصل کرسکیں۔ سماجی مبصرین بیجوں پر کنٹرول کی اس پالیسی کو انسانی فطرت کے منافی قرار دیتے ہوئے اسے صدیوں کی روایت کو تہس نہس کر دینے کا عمل سمجھتے ہیں۔

اس کے برعکس، ناقدین کا خیال ہے کہ عالمی سطح پر جدید بیجوں کی کنٹرولڈ انداز میں فروخت ایک طرح سے نو آبادیاتی زراعت کو متعارف کرانا ہے۔ جنوبی افریقا کے سینٹر برائے بائیو ڈائیورسٹی کی ڈائریکٹر مریم مائیٹ کا کہنا ہے کہ اس سارے عمل کو نو آبادیاتی نظام کا تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اس نے کسانوں کی روزمرہ زندگی کو شدید انداز میں متاثر کیا ہے اور ماحول کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بیج کی اقسام کے استعمال نے زراعت کے پرانے نظام کو کسی حد تک تبدیل کر دیا ہے۔ بڑی بین الاقوامی کمپنیاں بیجوں کے ساتھ ساتھ کیمیکل ملی کھادیں اور کیڑے مار ادویات بھی تیار کرتی ہیں، جن کا استعمال کسانوں کی ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔ ان کیمیکلز اور بیجوں کے استعمال نے کسانوں کو ان کمپنیوں کا مکمل طور پر محتاج کر دیا ہے۔

پاکستان کی صورتحال

پاکستانی معیشت کا انحصار زیادہ تر زراعت پر ہے۔ یہ شعبہ ملکی خوراک کی ضرریات پوری کرنے کے علاوہ ملکی صنعت کو خام مال مہیا کرتا ہے۔ ہمارا بیشتر تجارتی مال براہِ راست زرعی پیداوار کی شکل میں ہوتا ہے۔ تجارت سے کمایا جانے والا زرِ مبادلہ پاکستان کی کُل برآمدات کا 45 فیصد ہے، یوں زراعت مقامی حالات سے لے کر عالمی تجارت تک خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ ہمارے ہاں مجموعی قومی معاشی نمو میں زراعت کا حصہ 20 فی صد سے زائد ہے جب کہ 52 فی صد افرادی قوت اس شعبے میں برسرِروزگار ہے۔ 

پاکستان کے دیہاتوں میں بسنے والے 67 فی صد لوگ براہِ راست زراعت سے منسلک ہیں۔ شعبہ زراعت کی اہمیت ناصرف پاکستانی معیشت میں مسلمہ ہے بلکہ ملک کی 40فی صد آبادی بھی خوراک کی قلت کا شکار ہے، جس کی وجہ سے وہ ممکنہ جسمانی نمو حاصل نہیں کرپاتے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ کاشت کاروں کو وافر مقدار میں پانی کی فراہمی، کم قیمت معیاری کھادوں اور زرعی ادویات کے ساتھ ساتھ معیاری بیجوں کی آزادانہ فراہمی بھی یقینی بنائی جائے۔