یہ سچ سب جانتے ہیں کہ ملکی معاشی صورت حال خطرناک ہندسوں تک پہنچ چکی ہے جو مزید عرصہ چلنے والی نہیں ہے۔ لیکن ہمارے سیاست دان اور بڑی جماعتیں سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کے الیکشن کے لیے بے چین ہیں۔ درحقیقت ان کی یہ بے چینی الیکشن کے لیے نہیں ہے۔
پی ٹی آئی، جو الیکشن کا راگ الاپ رہی ہے، جانتی ہے کہ اس بار الیکشن کے نتائج 2018والے نہیں ہونگے۔ اس جماعت کا مقصد نہ صرف موجودہ حکومت گرانا اور اپنی انا کی تسکین ہے بلکہ آنے والے مہینوں میں اپنے خلاف ممکنہ طور پر قائم ہونے والے مقدموں اور فارن فنڈنگ کیس سے جان چھڑانا بھی ہے۔ کوئی ایک آدھ وجہ اور بھی ہوسکتی ہے۔
مسلم لیگ ن میں میاں نواز شریف جلد الیکشن کے حامی ہیں۔ وزیراعظم اور ان کے رفقا کی لندن یاترا کے بارے میں ذرائع نے کہا ہے کہ وفد نے میاں نواز شریف کو ملکی معاشی صورتحال سے آگاہ کیا ہے اور جلد الیکشن کرانے کے ذاتی اور سیاسی نقصانات کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی ہے۔ خود نواز شریف کو آصف علی زرداری نے بھی اس صورتحال سے آگاہ کیا ہے۔
آصف علی زرداری نے ان پر واضح کیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دھاندلی کے الزامات کا سلسلہ یوں ہی جاری رہے گا۔ اس طرح نیب قوانین میں ترامیم بھی دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادتوں کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اگرچہ ان ترامیم کا فائدہ مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کو بھی ہوگا۔
ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے یہ طے کیا ہے کہ موجودہ انتخابی قوانین کے ذریعے ہی انتخابات منعقد ہو جائیں اور جیسا کہ اسی کالم میں اوپر ذکر کیا ہے کہ پی ٹی آئی کو معلوم ہے کہ انتخابی نتائج گزشتہ نتائج کے برعکس ہوسکتے ہیں اس لیے وہ ان نتائج کو تسلیم نہیں کرے گی اور احتجاج کا ایک نیا سلسلہ شروع کرکے نئی حکومت کو چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔
سنجیدہ حلقے الیکشن کے لیے بلکہ ملک کی معاشی صورت حال کے لیے فکرمند ہیں۔ یہ تو عام فہم بات ہے کہ الیکشن پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں جس کا اس وقت ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔
اس کے علاوہ الیکشن کے نتیجے میں جو بھی جماعت برسراقتدار آئے گی اس کو موجودہ صورتحال کا ہی سامنا ہوگا بلکہ اس وقت معاشی صورتحال مزید ابتر ہوچکی ہوگی۔ تو وہ کیا کرے گی۔ بظاہر حصول اقتدار کی پرانی بیماری کی وجہ سے ن لیگ نے حکومت تو لے لی لیکن اب وہ بدحواس ہے۔
ایک طرف معاشی بدحالی کا سیلاب آگے بڑھتا نظر آرہا ہے تو دوسری طرف اقتدار کے نہ اترنے والے نشہ میں مدہوش سابق حکمران جماعت کو ملکی و قومی مفاد نظر نہیں آتا نہ ہی معاشی ابتر صورتحال کی کوئی پریشانی ہے۔
فرض کریں اگرپی ٹی آئی ہی دوبارہ برسراقتدار آتی ہے تو وہ معاشی بحران سے ملک کو کیسے نکالے گی جبکہ ابھی ایک ماہ قبل تک وہ پونے چار سال سے برسراقتدار تھی۔ اور اگر ن لیگ اب معاشی صورت حال اور عمران خان سے گھبرا کر بدحواس ہے تو اس نےحکومت کیوں قبول کی۔
معاشی صورتحال کے لیے اگر وہ سنجیدہ کوششیں کرے تو بہتری کی امید کی جاسکتی ہے لیکن اگر جلد الیکشن کا عمران خان کا مطالبہ تسلیم کیا تو یہ ن لیگ کے لیے بہت گھاٹے کا سودا ہوگا اور اس سے فائدہ عمران خان کو ہی ہوگا۔
اسٹیبلشمنٹ نے بارہا کہا ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور اس کو سیاست میں گھسیٹنے سے گریز کیا جائے لیکن اس کے باوجود بعض لوگ اس کو سیاست میں مداخلت کے لیے بلا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ فوج کی اعلیٰ قیادت کے بارے میں نازیبا اور نامناسب الفاظ استعمال کرنے سے باز نہیں آئے تو قوم یہ سوال کرتی ہے کہ کیا ملک کے محافظ اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کے خلاف تقاریر و بیانات دینے والوں کے خلاف کوئی قانون نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کرکے اس نئی روش کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے یا حکومت ایسے لوگوں کے آگے بے بس ہے اور اگر بے بس ہے تو پھر اپنی ناکامی تسلیم کرتے ہوئے گھر چلی جائے۔
کیا اندرون و بیرونِ ملک جس طرح ملک کی عزت و وقار کو دائو پر لگایا جارہا ہے یہ معمولی باتیں ہیں۔ دنیا میں شاید ہی ایسی کوئی مثال موجود ہو۔موجودہ سیاسی افراتفری میں کسی کو بھی ڈیرہ بگٹی کے ان غریبوں کا احساس نہیں جو گندا پانی پینے پر مجبور ہیں اور اس وجہ سے اب تک سینکڑوں افراد ہیضہ اور گیسٹرو کا شکار ہوگئے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ کیا وہ پاکستانی نہیں ہیں یا انسانیت مرچکی ہے۔
ایک دوسرے سے اقتدار چھیننے کے درپے یہ سیاستدان کرسی کے پیچھے پاگل ہوئے جارہے ہیں۔ جلسوں پرجلسے کئے جارہے ہیں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں کیا ان میں سے کبھی کسی نے غریب کی بات کی ہے خصوصاً پی ٹی آئی اس معاملے میں سب سے آگے ہے۔ اور کہاں ہے بلوچستان حکومت۔ کیا ڈیرہ بگٹی کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں۔ انسان نہیں ہیں یا یہ علاقہ پاکستان کی حدود میں نہیں؟۔ کیا بلوچستان حکومت بھی اقتدار کے نشے میں مدہوش ہے۔ اسی طرح چولستان میں انسان تو انسان جانور بھی پیاس سے مر رہے ہیں۔ کیا پنجاب حکومت کے بھیجے گئے چند واٹر ٹینکرز سے وہاں پانی کی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ یہ کیا مذاق ہے۔
موجودہ حکومت ہمت پکڑے اور جرأت کے ساتھ ہر وہ فیصلہ کرے جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو۔ معاشی بہتری کے لیے جس طرح کے فیصلے کرنے ہوں وہ کرے اور فسادیوں، انتشار پھیلانے اور ملک کے عظیم اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرے ورنہ سب بہت پچھتائیں گے۔