میاں نواز شریف پاکستانی سیاست کا وہ کردار ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بلاشبہ لاکھوں لوگ ان سے محبت کرتے ہیں اور اتنے ہی ناپسند بھی کرتے ہیں۔ان سے اختلاف رکھنے والوں کی سیاست بھی اب انہی کے گرد گھوم رہی ہے۔
معزولیوں، گرفتاریوں،جلاوطنیوں اور سزاؤں کی بھٹی سے گزر کر وہ پاکستانی سیاست میں ایک ایسی اکائی کی شکل اختیار کر چکے ہیں جن کی شمولیت یا رضامندی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ مشکل نظر آتا ہے۔وہ مضبوط اعصاب کے مالک اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے والی شخصیت ہیں جس کی وہ قیمت بھی جھکا رہے ہیں۔
دس اپریل کے بعد مسلم لیگ ایک مخمصے کا شکار تھی۔لیکن ن لیگ میں ویٹو پاور رکھنے والے انکے قائد نے جماعت کو گومگو کی کیفیت سے نکال لیا اور اب مسلم لیگ نون ایک واضح منزل کی جانب گامزن نظر آ رہی ہے۔بعض حلقوں کی طرف سے دیا جانے والا یہ تاثر ختم ہو چکا ہے کہ مسلم لیگ پر میاں نواز شریف کی گرفت کمزور پڑ گئی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے عمل کے شروع ہونے سے لے کر اب تک ان کی پراسرار خاموشی سے اس تاثر کو تقویت مل رہی تھی کہ شاید فیصلہ سازی کے عمل میں میاں نواز شریف کا کردار محدود ہو گیا ہے۔
آصف علی زرداری کی قیادت میں چلائی جانے والی یہ مہم اپنے منطقی انجام کی طرف پہنچی۔میاں شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کے منصب پر جبکہ ان کے صاحبزادے میاں حمزہ شہباز شریف جو بجا طور پر اس منصب کے اہل بھی تھے، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھال چکے ہیں۔
دونوں باپ بیٹا مل کر پاکستان کو بہتر انداز میں چلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ انتقال اقتدار کے بعد جلد ہی یہ محسوس کیا جانے لگا تھا کہ حالات میاں شہباز شریف کے قابو میں نہیں آ رہے۔بگڑتی معیشت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی۔
مسلم لیگ نون کے اندر بھی یہ بحث طاقت پکڑ رہی تھی کہ مسلم لیگ نون عمران خان کی بدترین کارکردگی کا بوجھ کیسے اٹھائے گی۔ان حالات کو میاں نواز شریف بھی بغور دیکھ رہے تھے کہ اچانک انہوں نے پوری کابینہ کو لندن طلب کر لیا۔
میاں شہباز شریف اور ان کی کابینہ کی لندن یاترا کو ان کے مخالفین شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ بعض دوستوں نے اسے ایم کیو ایم سے بھی تشبیہ دی ہے۔لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت واضح ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ نون کی سیاست کا ’’قطب نما‘‘ میاں نواز شریف ہیں۔ مسلم لیگ نون کا ووٹر صرف نواز شریف کا ووٹر ہے۔
مسلم لیگ کے لندن میں ہونے والے اجلاس کا باقاعدہ اعلامیہ تو جاری نہیں کیا گیا۔تاہم باوثوق ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ میاں نواز شریف نے واضح طور پر کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ عمران خان کے گناہوں کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔اس لیے اس بات کا انتظام کیا جا رہا ہے کہ جلد از جلد انتخابات کا اعلان کر کے جماعت کو گرداب سے نکال لیا جائے۔
میاں نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں یہ بات بھی طے کیے جانے کی اطلاع ہے کہ نئے آرمی چیف کا فیصلہ بھی نئی منتخب حکومت ہی کرےاور تمام توانائیاں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کی تیاری پر صرف کی جائیں۔میاں نواز شریف نے مسلم لیگی رہنماؤں کو عمران خان کے الزامات کا بھرپور جواب دینے اور ان کی چار سالہ کارکردگی کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اسی طرح پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر بھی غور کرنے بعد زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے کی ہدایت دی گئی۔حکومتی سطح پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ عمران خان کیلئے میدان کھلا نہ چھوڑا جائے۔سیالکوٹ کے جلسہ میں انتظامیہ کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات اس کی تازہ مثال ہیں۔
عمران خان کے عوامی جلسوں کا اثر زائل کرنے کیلئے محترمہ مریم نواز کے جلسوں کا شیڈول ترتیب دیا گیا ہےاور تمام سیاسی تجزیہ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کے بیانیے کا واحد توڑ مریم نواز کے جلسے ہیں تاہم اس کے ساتھ یہ حقیقت اپنی جگہ پر موجود ہے کہ میاں نواز شریف کی واپسی کے بغیر مسلم لیگ کے لیے آئندہ عام انتخابات میں جانا مشکل ہوگا۔اس وقت مسلم لیگ کے پاس میاں نواز شریف کا کوئی متبادل موجود نہیں۔
اگر موجودہ بجٹ پیش کرنے کے بعد انتخابات کا اعلان کر دیا گیا اور میاں نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہوگئی تو مسلم لیگی زعماء کو اس بات کا واضح یقین ہے کہ ایک مرتبہ پھر دو تہائی اکثریت کے ساتھ انہیں حکومت کرنے کا موقع مل جائے گالیکن اگر نواز شریف کی واپسی ممکن نہ ہوسکی تو پھر نتائج مختلف سکتے ہیں۔
دوسری طرف پی ڈی ایم خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔حکومت کی تشکیل کے بعد اس کا کوئی کردار سیاست کے میدان میں نظر نہیں آرہا۔جبکہ آصف علی زرداری بڑی سمجھداری کے ساتھ اپنے پتے کھیل رہے ہیں۔انہوں نے ہی بلاول بھٹو زرداری کو بطور وزیر خارجہ عالمی سطح پر متعارف کرانے کا پروگرام ترتیب دیا ہے۔
اس سے انکی وزارتِ عظمیٰ کی طرف جانے کی راہ ہموار ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ وہ فوری انتخابات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ایک طرف تو وہ یہ چاہتے ہیں کہ بدترین کارکردگی کا ملبہ مسلم لیگ پر گرے تاکہ آئندہ انتخابات میں وہ موثر کارکردگی نہ دکھا سکے، پاکستان اس وقت نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔
عمران خان کی احتجاجی تحریک سے معیشت کے ڈوبنے کا خطرہ موجود ہے،سیاسی میدان میں عدم استحکام نے ہر محب وطن پاکستانی کو بے چین کررکھا ہے،میری دانست میں اس وقت کسی بھی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں کہ وہ ملک کو سنبھال سکے، ضرورت اس امر کی ہے کہ میاں نواز شریف جو اس خطے کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں وہ آصف علی زرداری اورعمران خان سمیت تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز اور ریاستی اداروں سے ملکر ایک نیا عمرانی معاہدہ کریں اور ایک نیا میثاقِ معیشت ترتیب دیں۔