• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق ریفرنس پر سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے منحرف اراکین کے بارے میں متعلق آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق ریفرنس پر سپریم کورٹ کا اکثریتی فیصلہ آگیا۔

عدالتی فیصلے کے تحت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف ارکان تاحیات نااہلی سے بچ گئے لیکن اسمبلی کی موجودہ مدت میں ڈی سیٹ ہوگئے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مبنی 5 رکنی لارجر بینچ نے فیصلہ2-3 سے سنایا۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا مختصر تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ سپریم کورٹ کا یہ مختصر فیصلہ 8 صحفات پر مشتمل ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آرٹیکل 63 اے کو اکیلے نہیں پڑھا جاسکتا، جبکہ اسے آئین میں موجود شقوں سے الگ کر کے بھی نہیں پڑھا جاسکتا۔

عدالت نے قرار دیا کہ آرٹیکل 63 اے کا اطلاق منحرف رکن کے ووٹ دینے کے وقت سے نہیں ہوتا، اس کا اطلاق پارلیمانی پارٹی ہدایات سے انحراف سے ہوتا ہے۔ آرٹیکل 63 اے آرٹیکل 17 ٹو میں دیے گئے سیاسی جماعتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق آرٹیکل 63 اے قانون سازی میں سیاسی جماعتوں کو تحفظ دیتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ہماری جمہوریت کا بنیادی جزو ہیں، سیاسی جماعتوں میں عدم استحکام جمہوریت کی بنیاد ہلاتا ہے، انحراف سیاسی جماعتوں کے استحکام کے لیے تباہ کن ہے۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ انحراف کو کینسر قرار دینا درست ہے، موزوں یہی ہے انحراف ہونا ہی نہیں چاہیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی کا احترام کیا جانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو غیر آئینی، غیر قانونی حملوں، توڑ پھوڑ سے محفوظ رکھا جائے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوسکتا، پارٹی سربراہ منحرف رکن کے متعلق ڈیکلیریشن دے یا نہ دے ووٹ شمار نہیں ہوسکتا، منحرف رکن کے ووٹ کو نظرانداز کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پارلیمنٹ کو منحرف اراکین کی نااہلی سے متعلق مناسب قانون سازی کرنی چاہیے، یہ بہترین وقت ہے کہ منحرف اراکین کی نااہلی سے متعلق قانون کو آئین کا حصہ بنایا جائے، اگر ایسی قانون سازی کی جاتی ہے تو یہ اس برائی کو ختم کرنے کے لیے مناسب جواب ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ چوتھا سوال بہت مبہم، وسیع اور عمومی ہے، اسے واپس بھیجا جاتا ہے جبکہ آرٹیکل 186 اور 184 تھری کے تحت دائر درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ آرٹیکل 63 اے کو جگانے کی ضرورت نہیں اس کی موجودگی ہی کافی ہے، آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے بنیادی حقوق کے اطلاق کو یقینی بناتا ہے۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ قانون سازی میں سیاسی جماعت کی فیصلوں کا احترام لازم ہے، تجاوز نہیں ہوسکتا، پارلیمانی پارٹی اور ایک رکن کے درمیان اختلاف کی صورت پارٹی کو ترجیح حاصل ہے۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا اقلیتی فیصلہ

دوسری جانب جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ کی صورت میں اقلیتی فیصلہ بھی سامنے آیا۔

تحریری فیصلے کے اس اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں، آرٹیکل 63 اے انحراف اور اس کے نتائج پر مکمل ضابطہ ہے۔

اس اقلیتی فیصلے میں کہا گیا کہ کسی رکن کے انحراف پر الیکشن کمیشن پارٹی سربراہ کے ڈیکلیریشن کے مطابق ڈی سیٹ کرتا ہے۔

اقلیتی فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے دوبارہ آئین لکھنے سے متعلق رائے نہیں مانگی، صدر کے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات میں کوئی جان نہیں، ان سوالات کا جواب منفی ہے۔

اس میں یہ بھی کہا کہ گیا کہ صدر مملکت کے ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات میں کوئی جان نہیں، ان سوالات کا جواب ناں میں دیا جاتا ہے۔

اقلیتی فیصلے میں تحریر کیا گیا کہ اگر پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو منحرف ارکان پر مزید پابندیاں عائد کرسکتی ہے۔




قومی خبریں سے مزید