منی لانڈرنگ کیس میں وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کی عبوری ضمانت میں 28 مئی تک توسیع کردی گئی جبکہ سلیمان شہباز، طاہر نقوی اور ملک مقصود کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے گئے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز منی لانڈرنگ ریفرنس میں عدالت میں پیش ہوئے۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف 16 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کیس کی سماعت لاہور کی اسپیشل کورٹ میں ہوئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے روسٹرم پر آکر بیان دیا کہ سابق وزیراعظم کے کہنے پر برطانیہ کی ٹیم نے تفتیش کی، برطانیہ میں ہونے والی تفتیش میں بھی بے گناہ ثابت ہوا۔
انہوں نے کہا ہے کہ 2004 میں پاکستان آیا تھا، میرے پاس حرام کا پیسہ ہوتا تو پاکستان کیوں آتا، میں نے اس قوم کے اربوں روپے بچائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نیب اور این سی اے نے تحقیقات کیں،این سی اے نے پونے دو سال تحقیقات کیں، کچھ بھی نہیں ملا، میں ان کا رشتہ دار تو نہیں تھا، خدانخواستہ میں نے کرپشن کی ہوتی تو میں اس عدالت کے سامنے نہ ہوتا۔
سماعت ملتوی ہونے سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے چالان میں تاحال اشتہاری ملزموں کو ضابطے کی کارروائی کے بعد اشتہاری نہیں کیا، جج نے کہا اشتہاری قرار دینے کا آرڈر جاری کر رکھا ہے۔
جس پر وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ عدالت نے چالان میں سرخ رنگ سے تحریر کئے گئے اشتہاری ملزموں کے مطابق آرڈر جاری کیا۔
شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2008 سے 2018 تک مبینہ جرم کا الزام لگایا گیا، واقعے کی ایف آئی آر بلاجواز تاخیر سے درج کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ چالان جمع کراتے ہوئے استغاثہ نے کئی چیزیں ختم کر دیں۔
مقدمے کے 3 اشتہاری ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے، اسپیشل پراسیکیوٹر
اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں پراسیکیوشن کی طرف سے پیش ہوا ہوں، چالان میں اشتہاری ملزموں کیخلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے۔
اسپیشل پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ایسا قانونی نکتہ چھوڑنے پر ملزم فائدہ لے سکتے ہیں، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ 4 ماہ پراسیکیوشن کیوں خاموش رہی ہے؟
اسپیشل پراسیکیوٹر نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقدمے میں 3 ملزمان اشتہاری ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے، سلمان شہباز، مقصود اور طاہر نقوی کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی کی جائے، جس پر جج اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ یہ ملزمان تو مجسٹریٹ کی عدالت سے اشتہاری ہو چکے ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے یہ بھی کہا کہ یہ درخواست ریکارڈ پر آ گئی ہے، عدالت مناسب حکم جاری کر دے۔
دوبارہ سماعت شروع ہونے پر ملزمان کی ضمانت کی توثیق کے لیے شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کا کیس بے نامی اکاوئنٹس پر محیط ہے، الزام ہے کہ ان اکاؤئنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ ہوئی، شہباز شریف کا شوگر ملز سے کوئی تعلق نہیں رہا، کسی گواہ نے یہ بیان نہیں دیا کہ شہباز شریف شوگر مل منیجمینٹ کا حصہ رہے، کھولے گئے بینک اکاؤنٹس میں بھی شہباز شریف کا حصہ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اکاؤئنٹس سے 10 سال میں ایک پائی بھی شہباز شریف کے اکائونٹ میں ٹرانسفر نہیں ہوئی،کوئی شہادت نہیں ہے کہ ان اکاؤئنٹس میں سے کبھی شہباز شریف نے کوئی پیسے لیے ہوں۔
وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی عدالت آمد کے موقع پر عدالت کے باہر بےنظمی کا واقعہ پیش آیا۔
سماعت شروع ہونے سے قبل اسپیشل کورٹ کے جج اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ میں جب اندر آ رہا تھا تو دیکھا کس طرح سیکیورٹی اہلکار میرے گارڈ کے گلے پڑے ہوئے ہیں، وکلا اور ملزموں کو اندر نہیں آنے دیا جا رہا، اگر یہ سیکیورٹی ہے تو اللّٰہ ہی حافظ ہے۔
پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا، میرا راستہ بھی روکا گیا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عدالت کا وقار ہے اس لئے آیا ہوں کہ قانون کی حکمرانی ہو، میں نے کہا کسی کو نہ روکا جائے۔
عدالت نے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو طلب کر لیا جس پر عدالتی اہلکار نے کہا کہ عدالت کا پیغام دونوں پولیس افسران کو دیا ہے لیکن وہ اندر آنے کو تیار نہیں۔
جج اعجاز حسن اعوان نے کہا کہ پولیس والوں کے یہ حالات ہیں، عدالت کا حکم نہیں مان رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن ملزمان کو سیکیورٹی اہلکار اندر نہیں آنے دے رہے، ان کی طرف سے وکلا درخواست دے دیں۔
دوسری جانب صحافیوں کو عدالت کے اندر جانے سے روکنے پر عطا تارڑ نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کو عدالت کے اندر جانے سے روکنا سازش لگ رہی ہے۔
عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ صحافیوں کوعدالت کے اندر جانے سے روکنا ہمارا کیس خراب کرنے کی کوشش ہے ، ہم نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی کوریج کرائی ہے۔
جج اسپیشل کورٹ سینٹرل نے امجد پرویز سے سوال کیا کہ یہ سیکیورٹی والے آئے ہیں، معافیاں مانگ رہے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں، جس پر وکیل امجد پرویز نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک بار معاف کر دیں۔
اسپیشل کورٹ سینٹرل کے جج نے کہا کہ انہوں نے عجیب کام کیا ہے،یہ لوگ کسی کو آنے نہیں دے رہے تھے، وکیل امجد پرویز کا کہنا تھا کہ میری درخواست ہے کہ سیکیورٹی اہلکاروں کے معاملے کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنائیں۔
فاضل جج نے سیکیورٹی انچارج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سیکیورٹی کا پلان بنائیں تو وکلا اور ملزمان کو نہیں روکنا، کورٹ رپورٹرز کو بھی کمرہ عدالت میں آنے سے نہیں روکنا، اس بار معاف کررہا ہوں ورنہ میں اسے جوڈیشل آڈر کا حصہ بنا رہا تھا۔