پاکستان پیپلزپارٹی کی اکثریت اس خیال کے خلاف تھی کہ ان کی پارٹی کے چیئرمین شہباز شریف کی کابینہ میں بحیثیت وزیر خارجہ حلف اٹھائیں کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پی پی پی سربراہ کا عہدہ اور مقام اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی جماعت کی بنائی گئی کابینہ میں وزیر بنیں۔
لیکن ایسی کیا وجہ تھی کہ پی پی پی چیئرمین کو یہ کڑوی گولی نگلنا پڑی ؟ خیال رہے کہ بلاول بھٹو کو کسی عہدے یا پروٹوکول کی ضرورت نہیں ہے، وہ خود ایک پارٹی کے رہنما ہیں، ایم این اے ہیں اور کسی وزیر یا وزیر اعظم سے زیادہ حیثیت نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر رکھتے ہیں.
پی پی پی سوشلسٹ انٹرنیشنل کی رُکن بھی ہے اور اسکے عہدیداروں کے پاس اس عالمی تنظیم کے عہدے بھی رہے ہیں جب کہ پاکستان کی کسی اور جماعت کو یہ اعزاز حاصل نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ کا حلف اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پارٹی کے بانی رہنما خود پاکستان کے وزیر خارجہ رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو تقریباً 4سال وزیراعظم رہے.
اس دوران انہوں نے آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی، 93000 قیدی رہا کروائے، 5000 مربع میل پر محیط رقبہ بھارتی تسلط سے آزاد کرایا، مسئلہ کشمیر پر ٹھوس اور بے لچک موقف اختیار کیا، زرعی اصلاحات متعارف کرائیں، متفقہ آئین دیا.
ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی، فوج کو ازسرِ نو منظم کیا اور اسے جدید اسلحہ فراہم کیا، اسٹوڈنٹ آرڈیننس 1974ءپاس کیا،او آئی سی کے 38 مسلم ممالک کے سربراہان کی میزبانی کی، تیسری دنیا کا الگ بلاک بنانے کیلئے عملی تگ و دو کی .
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی موت اسی جرم کی سزا تھی کہ انھوں نے ایسے وقت میں آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد رکھی جب تیسری دنیا کا کوئی رہنما یہ جرأت نہیں کرسکتا تھا۔
بحیثیت وزیر خارجہ انھوں نے روس کے تعاون سے پاکستان میں جو تاریخی کام کئے اور جس طرح صنعت کو فروغ ملا اسکے بعد کوئی وزیر خارجہ ایسا کام نہ کرسکا، پھر بحیثیت وزیر خارجہ اور بعد میں بحیثیت وزیر اعظم پاک چین دوستی کے رشتے کو اتنی مضبوط بنیاوں پر استوار کیا کہ آج پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ دونوں ملک وہ بھائی ہیں جنہیں ایک دشمن کا سامنا ہے۔
بلاول بھٹو کو ایسے وقت میں وزارت خارجہ کا قلمدان دیا گیا ہے جب کوئی یہ عہدہ سنبھالنے کو تیار نہیں تھا۔
ایک طرف روس اور یوکرین میں کشیدگی، پھر امریکہ سے تعلقات، گزشتہ 4 سال میں پاکستان کے دوست ممالک کے مفادات کو کاری ضرب لگانے کیلئے اپنے وزراء کو کھلی چھوٹ دی جاتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نہ آسکا، آئی ایم ایف سخت مطالبے کرنے لگا، ورلڈ بینک کے جاری پروگرام بھی تعطل کا شکار ہوگئے۔
آج پاکستان کو ایسے ہی چیلنجز کا سامنا ہے جو شہید ذولفقار علی بھٹو کو درپیش تھے۔ ایسے میں بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری جانتے تھے کہ انکے چین سے دیرینہ تعلقات ہیں، بلاول بھٹو اب چین کا دورہ کرنے جارہے ہیں ۔
پی پی پی کے کچھ ایم این ایز اور صوبائی وزراء کے یو اے ای اور دیگر عرب ممالک سے قریبی تعلقات ہیں جنہیں پی پی پی استعمال کرکے پاکستان کو واپس ترقی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ موجودہ سعودی قیادت نواز شریف کے اس قدر قریب نہیں جتنا شاہ عبداللہ تھے، ایسے میں پاکستان کو امریکہ، یورپ، سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور چین کے تعاون کی بے پناہ ضرورت ہے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان کا وزیر خارجہ ایک پڑھا لکھا اور حالات کو سمجھنے والا شخص ہو، جسے علم ہو کہ کب روس جانا ہے اور کب امریکہ۔
جس سے سعودی شہزادہ مل کر یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ بینظیر بھٹو پاکستان کی ہی نہیں عالم اسلام کی رہنما تھیں، جس سے چینی صدر مل کر یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ آصف علی زرداری جیسے رہنما کیساتھ کام کرنا ایک خوشگوار تجربہ تھا، جس سے امریکی وزیر خارجہ یہ کہے کہ آپ کے نانا اور والدہ نے پاکستان کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ایسے میں بلاول بھٹو بحیثیت پاکستان کے وزیر خارجہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
آکسفورڈ سے پڑھا لکھا شخص عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کریگا تو ملک اور قوم کا عالمی وقار بھی بلند ہوگا، موجودہ حالات ہم سےتقاضا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر سوچنا ہوگا اور ملک کیلئے کام کرتے وقت ایک بات ذہین نشین رکھنی ہوگی کہ وطن کی خدمت کرنے کیلئے کوئی عہدہ بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا۔