• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افضل چوہدری کی کتاب ’’نارووال کے ارسطو‘‘ اس وقت میز پر دھری ہے اور یاسین خان کی طرف سے اس پر کچھ لکھنے کا حکم نامہ جاری ہو چکا ہے مگر دماغ اسلام آباد میں اٹکا ہوا ہے، جہاں چھ دنوں کی مہلت زیر بحث ہے۔ 

مہلت کے لیے چھ دن کیوں، پانچ یا سات دن کیوں نہیں؟ سوالوں کی گرہ میں بندھے ہوئے سوال لپک لپک کر باہر آرہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے ’’کنٹینر کس نے لگوائے تھے۔ یہ مشورہ کس ارسطو نے دیا تھا‘‘؟ 

کہیں یہ پوچھا جارہا ہے ’’گرفتاریاں کیوں کی گئیں، شیلنگ کس نے کرائی، یہ کس ارسطو کا حکم نامہ تھا‘‘؟ دوسری طرف عمران خان کے پاس بھی ارسطوز کی کوئی کمی نہیں۔ وینا ملک نے لانگ مارچ سے اسلحہ پکڑے جانے کی خبر پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا۔ ’’ایک ’ارسطو‘ کے پرس سے دو’ ایف سولہ طیارے‘ اور ایک ’ارسطو زادے‘ کے فیڈر سے ایٹم بم پکڑے جانے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں‘‘۔ 

آئی ایم ایف کے ارسطو بھی اس وقت ہماری آنکھوں میں چبھ رہے ہیں جو پاکستان میں مہنگائی کا طوفان لانا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیں غریب پاکستانیوں سے ان کی کیا دشمنی ہے؟ بجٹ بنانے والے ارسطو بھی پریشان حال ہیں۔

 کچھ ارسطو پوچھ رہے ہیں کہ قاف لیگ لانگ مارچ میں کیوں شریک نہیں ہوئی۔ کیا انہیں پی ٹی آئی کی طرف سے لانگ مارچ میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی؟ قاف لیگ میں بھی کئی ارسطو موجود ہیں۔ لگتا ہے چوہدری پرویز الٰہی نے انہی کے مشورے پر عمل کیا۔

’’نارووال کے ارسطو‘‘ کی اصطلاح عمران خان کی وضع کردہ ہے یعنی اس کتاب کا نام عمران خان کا رکھا ہوا ہے۔ ٹائٹل پر سب سے بڑی تصویر بابا گورونانک کی ہے۔

 یعنی یہ کتاب سکھوں کے لیے بھی ایک بابرکت چیز ہے۔ فیض احمد فیض جو کبھی بےفیض نہیں ہوئے، وہ کل تک سیالکوٹ کے سپوت تھے۔ اس کتاب نے انہیں نارووالوی بنادیا ہے۔ شکر ہے کہ حضرت اقبال بچ گئے ہیں۔ وگرنہ نئے ضلع کی اراضی کی تقسیم تو کسی کی بھی جائے پیدائش بدل سکتی ہے۔

 ایک شکر اور بھی ہے، فیض احمد فیض اپنا نام فیض سیالکوٹی رکھ لیتے تو آج بڑا مسئلہ پیدا ہو جاتا۔ فیض کے دور میں رواج تھا کہ شاعر اپنے نام کے ساتھ شہر کا لاحقہ لگاتے تھے جیسے حزیں سیالکوٹی، حفیظ جالندھری اور جوش ملیح آبادی وغیرہ ۔ نوجوانی میں کچھ احباب نے فیض کو اپنا نام ’’فیض سیالکوٹی‘‘ لکھنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

نارووال کے ارسطو پر بات کرنے سے پہلے تھوڑی گفتگو ’’ارسطو‘‘ کے بارے میں بھی کر لیتے ہیں۔ ارسطو بہت اچھا گاتے تھے۔ ارسطو فنِ موسیقی کےبہت بڑے استاد تھے۔ اس فن پر ان کی کچھ تحریریں موجود ہیں۔ 

ارسطو سیاست دان تھے۔ سیاسیات کا مضمون ارسطو کے افکار کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ ارسطو شاعر بھی تھے۔ شعری تنقید پر ان کے بنائے اصول و ضوابط آج بھی ہمارے نصاب کا حصہ ہیں۔ ارسطو اپنے زمانے کےبہت بڑے استاد تھے، جنہوں نے زمانے کو سکندر اعظم جیسا فاتح دیا۔ ارسطو حکیم بھی تھے۔ ان کے نظریۂ کتھارسز کا تعلق میڈیکل سائنس سے ہے۔ 

ارسطو بہت بڑے ریاضی دان تھے۔ جیومیٹری کی بنیادی اشکال ارسطو کی بنائی ہوئی ہیں۔ ارسطو ایک بڑے منطق دان تھے۔ منطق کو پہلی بار علم کا درجہ ارسطو نے دیا تھا۔ تمام معاشرتی علوم اسی سے شروع ہوتے ہیں۔ ارسطو بہت بڑے خطیب بھی تھے۔ فنِ تقریر پر بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ قدیم مذہبیات کے بھی بڑے عالم تھے۔ ان حوالوں سے دیکھا جائے تو کتاب کا نام بہت پرفیکٹ ہے۔ 

جتنے لوگوں کا اس میں ذکر موجود ہے، وہ کسی نہ کسی سطح پر ارسطو ضرور ہیں۔ طاہرہ سید اور ابرارالحق بھی۔ پیر جماعت علی شاہ اور ضیاءالحق نقشبندی بھی۔ شیو کمار بٹالوی اور مظہر برلاس بھی۔

اب آتے ہیں کتاب کے مصنف پر۔ ارسطوز کی فہرست میں ان کا اپنا نام بھی شامل ہے بلکہ ان کے اندر کئی ارسطو موجود ہیں۔ یہ ارسطو کی طرح مذہبیات کے عالم بھی ہیں۔ مذاہب کے درمیان روابط پر ان کا بہت کام ہے۔ ان کی کتاب ’’تلاش‘‘ میں مذاہب کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ خطیب بھی ہیں۔ دنیا کی بہت سی یونیورسٹیز میں لیکچرز دے چکے ہیں۔ ایک بین الثقافتی تنظیم کے چیئرمین بھی ہیں۔ اردو ادب سے بھی تعلق ہے، تنقید نگار بھی ہیں۔ انہوں نے پروین شاکر پر بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ سیاسیات سےمتعلق ’’پاکستان کا مستقبل‘‘ نامی کتاب لکھ چکے ہیں۔

سکندر اعظم نے اپنے استاد ارسطو کے متعلق کہا تھا کہ ارسطو اگر چاہیں تو مجھ سے ایک ہزار فاتح پیدا کر سکتے ہیں لیکن مجھ جیسے ایک ہزار فاتح مل کر ایک ارسطو بنانا چاہیں تو نہیں بنا سکتے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے میرے دماغ میں آیا کہ افسوس سکندرِ اعظم نے افضل چوہدری کے نارووال کی سیر نہیں کی وگرنہ یہ بات کبھی نہ کہتا۔ ایک ناروال پر کیا موقوف۔ پاکستان کے تو ہر گلی کوچے میں بےشمار ارسطو موجود ہیں۔

 کسی بھی شعبۂ زندگی میں ان کی کوئی کمی نہیں۔ سیاست ہو یا سیادت۔ معیشت ہو یا گورننس۔ میری ان تمام ارسطوز سے گزارش ہے کہ ملک جس انارکی کی طرف رواں دواں ہے، جو معاشی بدحالی سامنے نظر آرہی ہے۔ پلیز سب کچھ چھوڑ کر اس پر دھیان دیں۔ یہ آئی ایم ایف کے کشکول کو توڑنے کا وقت ہے۔ سب مل کر آئی ایم ایف سے نجات حاصل کر لیں۔ 

خود انحصاری کی معاشی پالیسی بنائیں۔ مجھے یقین ہے ایسی صورت میں آئی ایم ایف کے ارسطو آپ کے پیچھے پیچھے پھر رہے ہوں گے۔ آئی ایم ایف ایک بینک ہے اور کوئی بھی یک لخت اربوں ڈالر کا نقصان برداشت نہیں کر سکتا۔ ارسطوئوں سے بچ بچا کر فیصلہ کیجئے اور ملک کو معاشی بدحالی سے باہر نکالیے۔ آئی ایم ایف کو اربوں کے خسارے سے دوچار کر دیجئے۔ کیا ہے جو آپ یورپ اور امریکہ کے بینکوں کے ساتھ کاروبار کرنا چھوڑ دیں گے۔ آئی ایم ایف کے خلاف عالمی عدالت میں جائیے اور کہیے کہ ہمارے پاس ابھی قرضہ ادا کرنے کی رقم نہیں ہے۔ ہم آئی ایم ایف کو دو چار ہزار ڈالر ماہانہ دے سکتے ہیں۔ لینے ہیں تو لے لے ورنہ انتظار کرے۔ جب ہوں گے تو دیں مگر صرف اصل زر سود نہیں کیونکہ سود کو اسلامی نظریاتی کونسل نےحرام قرار دے دیا ہے۔

 یقیناً یہ سب باتیں آپ کو کسی پاگل کی گفتگو لگ رہی ہوں گی۔ بےشک یہ ایسی ہی ہیں مگر قومیں اسی وقت سپر پاور بنتی ہیں جب وہ پاگل ہو جاتی ہیں۔

تازہ ترین