• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیسویں صدی کے آغاز میں سیّد ابوالاعلیٰ مودوی غیرمعمولی تاریخی اہمیت کے شہر اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ اُس عہد میں تقریباً ہر پڑھے لکھے مسلم گھرانے میں ’مسدسِ حالیؔ‘ بڑے ذوق شوق سے پڑھی جاتی جو چار سو سے زائد بند پر مشتمل ہے۔ اُس میں بارہ صدیوں پر محیط اسلامی تاریخ کے مدوجزر نظیر اکبر آبادی کے ہلکے پھلکے انداز میں بیان کیے گئے ہیں۔ شعر اِس قدر سہل، رواں دواں اور روزمرہ میں ڈھلے ہوئے کہ خود بخود زباں پہ چڑھ جاتے اور دِل و دماغ کو گھائل کر دیتے ہیں۔ جناب اقبال ظفر کا نہایت عمدہ مقالہ ’مسدسِ حالیؔ کا پس منظر اور پیغام‘ کے عنوان سے ماہنامہ ترجمان القرآن کے حالیہ شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اُس کے مطابق مسدس خواجہ صاحب کی شعری صلاحیت کی شہادت بھی ہے، اُن کے دلوں کی دھڑکنوں کا نغمہ بھی، مسلمانوں کی عظمت و شوکت کا قصیدہ بھی اَور مسلمانوں کی پستی اور ضلالت کا نوحہ بھی۔ مسدسِ حالیؔ کے اثرات پون صدی سے زائد عرصے پر حاوی رہے۔ تحریکِ پاکستان کے دنوں میں ہم نوجوان طالبِ علم لوگوں کا خون گرمانے کے لیے زیادہ تر مسدسِ حالیؔ، اقبالؔ کا ’شکوہ‘ اور ’جوابِ شکوہ‘ اور حفیظؔ جالندھری کا ’شاہنامہ اسلام‘ ترنم سے پڑھا کرتے تھے۔

خواجہ الطاف حسین 1837 میں ہندوستان کے شہر پانی پت میں پیدا ہوئے۔ اُس وقت مسلمانوں کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی تھی اور ہر سُو انتشار کا سماں تھا۔ بزرگوں نے بچے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جس کی بدولت اُنہوں نے فارسی کے علاوہ عربی زبان میں اچھی استعداد پیدا کر لی تھی۔ اُنہوں نے متعدد اَساتذہ سے قرآنِ حکیم کی تعلیم حاصل کی جن میں حنفی بھی تھے اور اَہلِ حدیث بھی۔ بیس سال کی عمر میں وہ دِہلی گئے جہاں اُن کی ملاقات اسد اللہ غالبؔ سے ہوئی۔ خواجہ صاحب اُن دنوں ’خستہؔ‘ تخلص کر تے تھے۔ ایک روز وُہ اَپنا کلام لے کر حضرت غالبؔ کی خدمت میں اصلاح کی غرض سے حاضر ہوئے جنہوں نے اشعار پڑھ کر فرمایا کہ مَیں لوگوں کو بالعموم شاعری سے منع کرتا ہوں، لیکن تمہارے بارے میں میری یہ رائے ہے کہ اگر تم شاعری نہیں کرو گے، تو اَپنی شعری صلاحیتوں اور فطری جذبوں پر بڑا ظلم کرو گے۔ اِس غیرمعمولی حوصلہ افزائی پر اُنہوں نے مشقِ سخن جاری رکھی۔

قدرت اُنہیں کسی غیرمعمولی کارنامے کے لیے تیار کر رہی تھی۔ اُنہیں حصار کلکٹری میں ملازمت مل گئی۔ اُس شہر میں اُنہوں نے 1857 کے ہولناک مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اُن سے گہرا اَثر قبول کیا۔ مسلمانوں کے زوال کی انتہا ہو چکی تھی جس کے بطن سے آزادی کے لیے جدوجہد کا ایک نیا عہد طلوع ہونے لگا تھا جس میں خواجہ صاحب کو اَپنی ذہنوں کو جھنجوڑنے والی شاعری کے ذریعے عظیم کردار اَدا کرنا تھا۔ حصار سے وہ عظیم شاعر مصطفیٰ خاں شیفتہؔ کے بچوں کے اتالیق کے طور پر دہلی گئے۔ آٹھ سال اُنہیں شیفتہؔ صاحب کی صحبت سے فائدہ اُٹھانے اور شعر کے محاسن پر عبور حاصل کرنے کا موقع ملا۔ تب اُنہوں نے حالیؔ تخلص اختیار کر لیا تھا۔ اُنہی دنوں اُنہیں لاہور میں سرکاری ملازمت مل گئی جس میں اُنہیں انگریزی سے ترجمہ ہونے والی کتابوں کی زبان درست کرنا تھی۔ یوں انگریزی لٹریچر میں بھی اچھی دسترس حاصل ہو گئی۔ اِسی دوران اُنہیں شہرہ آفاق کتاب ’آبِ حیات‘ کے مصنّف جناب محمد حسین آزادؔ سے ملاقاتوں اَور اَیسے مشاعروں میں شرکت کے مواقع ملتے رہے جن میں نظمیں دیے ہوئے موضوعات پر پڑھی جاتی تھیں۔ اِس کے بعد لاہور سے وہ دِہلی چلے گئے اور سرسیّد احمد خاں کی صحبت میں وقت گزارنے لگے جن کی جدتِ فکر کے وہ پہلے سے اَسیر چلے آ رہے تھے۔ ایک روز سرسیّد نے فرمائش کی کہ آشوبِ اندلس کی طرح ہندوستان کا آشوب شعر کی زبان میں لکھ ڈالو۔ اِس ایک جملے نے حالیؔ صاحب کو شاعری کے ایک بلند نصب العین کا شعور عطا کیا۔ وہ مسدس کے دیباچے میں لکھتے ہیں:

’’ہرچند اِس حکم کی بجاآوری مشکل تھی، مگر ناصح کی جادوبھری تقریر جی میں گھر کر گئی۔ برسوں کی بجھی ہوئی طبیعت میں ایک ولولہ پیدا ہوا اَور افسردہ دِل نے ایک مسدس کی بنیاد ڈالی۔ اُس مسدس میں اوّل عرب کی اُس ابتر حالت کا خاکہ کھینچا ہے جو ظہورِ اسلام سے پہلے تھی۔ پھر کوکبِ اسلام کا طلوع ہونا اور نبی کریم ﷺ کی تعلیم سے اُس ریگستان کا یک لخت سرسبز و شاداب ہو جانا اور اِس اُمت کی کھیتی کو رحلت کے وقت ہری بھری چھوڑ جانا اور مسلمانوں کا دینی و دُنیوی ترقیات میں تمام عالم پر سبقت لے جانا بیان کیا ہے۔ قوم کے لیے اپنے بےہنر ہاتھوں سے ایک آئینہ خانہ بنایا ہے جس میں وہ اَپنے خط و خال دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کون تھے اور کیا ہو گئے۔ اگرچہ اِس جانکاہ نظم میں بیان کا حق نہ مجھ سے ادا ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے۔ مگر شکر ہے جس قدر ہو گیا، اتنی بھی امید نہ تھی۔ ہمارے ملک کے اہلِ ذوق ظاہراً اِس روکھی پھیکی سیدھی سادی نظم کو پسند نہ کریں گے کیونکہ اِس میں تاریخی واقعات یا چند آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ ہے یا جو آج قوم کی حالت ہے، اُس کا صحیح صحیح نقشہ کھینچا گیا ہے‘‘۔

وہ مزید رقم طراز ہیں:

’’اہلِ دہلی و لکھنو ٔکی دعوت میں ایک ایسا دسترخوان چُنا گیا ہے جس میں ابالی کھچڑی اور بےمرچ سالن کے سوا اَور کچھ نہیں۔ مگر اِس نظم کی ترتیب مزے لینے یا واہ وَاہ سننے کے لیے نہیں کی گئی بلکہ عزیزوں اور دوستوں کو شرم اور غیرت دلانے کے لیے کی گئی ہے۔ وہ اَگر دیکھیں، پڑھیں اور سمجھیں، تو اُن کا احسان ہے، ورنہ کچھ شکایت نہیں‘‘۔

مسدسِ حالیؔ منظرِعام پہ آئی، تو پستیوں کی پاتال میں گرے ہوئے مسلمانوں کی ہچکیاں بندھ گئیں اور آنکھوں میں اشکوں کے سیلاب امڈ آئے۔ مسدس کے آغاز میں حالیؔ نے سرورِ کائنات کے حضور ’عرضِ حال‘ بیان کیا ہے اور اُن سے مخاطب ہو کر سینوں کو چیر دینے والا یہ شعر لکھا ؎

اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے

امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے

مسدس کا لافانی کردار، اُس کی اشعار کی بےپناہ سادگی اور ساحرانہ تاثیر میں مضمر ہے جس کی مثالیں آگے چل کر پیش کی جائیں گی۔ (جاری ہے)

تازہ ترین