عائشہ احمد
“جیسے ہی بریک کی بیل ہوئی اسکول میں ایک ہلچل مچ گئی۔ بچے کینٹین کی طرف دوڑے۔ سعد اور ولید نے بھی چپس اور جوس خرید ا ا ور گراونڈ میں بنی بینچ پر بیٹھ کر کھانے لگے۔’’تم نے وہ نیا بچہ علی دیکھا ہے جو کلاس میں آیا ہے۔ اتنا لمبا اور پتلا ہے جیسے ڈنڈا ہو، اس کی عینک تو اتنی بڑی ہے کہ بابا لگتا ہے اور آنکھیں یوں ٹیڑھی کرتا ہے جیسے کوئی جن ہو۔‘‘سعد نے جوس پیتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تو وہ عینک والا جن لگتا ہے۔‘‘ولید نے کہا تو دونوں قہقہہ مار کر ہنسنے لگے۔سعد نے جوس پی کر وہیں ڈبہ پھینک دیا۔ دور سے علی آرہا تھا وہ قریب آیا، اس نے جوس کا ڈبہ اٹھایا اور ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔
’’سعد، ریپرز نیچے نہیں پھینکتے۔‘‘
علی بولا۔
’’اوئے لمبو!، جاؤ اپنا کام کرو۔‘‘سعد بدتمیزی سے بولا۔
’’میں آپ کو سمجھا رہا ہوں۔‘‘علی نے اپنی عینک سیدھی کرتے ہوئے کہا۔
’’اوئے چوہے کی شکل والے، ہمیں نصحت نہ کر۔ ورنہ ایک الٹے ہاتھ کی لگاؤں گا‘‘۔ ولید اس کامذاق اڑاتے ہوئے بولا۔ علی چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔ بریک ختم ہونے کی بیل ہوئی دونوں کلاس کی طرف چل دیے۔
’’ماما میں اسکول نہیں جاؤں گا۔ سارے بچے میرا مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘علی نے ناشتے کی میز پر اسکول نہ جانے کی ضد کی۔
’’ایسے نہیں کہتے بیٹا، تم تو بہت بہادر ہو۔ ان کی باتوں کو درگزر کرو،ورنہ تم آگے نہیں پڑھ پاؤ گے‘‘۔ اس کے پاپا نے اسے سمجھایا۔
’’لیکن ماما سب مجھے چوہا کہتے ہیں۔میرا دل ٹوٹ جاتا ہے، کوئی مجھ سے دوستی نہیں کرتا۔‘‘علی روہانسا ہو کر بولا۔
“میں آپ کی ٹیچر سے بات کروں گی ،تم دل لگا کر پڑھو، دیکھنا سب تمہارے دوست بن جائیں گے۔ دیکھو بیٹا اللہ اگر انسان میں ایک کمی چھوڑتا ہے تو وہ اسے بہت سی دوسری صلاحیتیں دے دیتا ہے۔‘‘ ماما نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ اچھاجلدی سے ناشتہ کرو،اسکول کی وین آگئی ہے۔‘‘ا س کے بابا بولے۔
علی بہت ہی پیارا بچہ تھا۔ اس کی آنکھیں تھوڑی ٹیڑھی تھیں، جس کی وجہ سے اسے دیکھنے میں مسئلہ ہوتا تھا لیکن تھا بہت ذہین۔ اس کے والدین نے اس کابہت علاج کروایا۔ لیکن اس کی آنکھوں کا مسئلہ ٹھیک نہ ہوسکا۔ اسکول میں سارے بچے اس کا مذاق اڑاتے تھے۔
علی ا سکول پہنچا تو بہت سے بچے اس کے گرد جمع ہوگئے اوراس کو چھیڑنے لگے، وہ روتا ہوا اپنی کلاس میں گیا تو ہم جماعت اس کا مذاق اڑانا شروع ہوگئے۔ سعد اور ولید اس میں پیش پیش تھے۔ وہ رونے لگا۔ جیسے ہی کلاس میں ٹیچر داخل ہوئیں تو تمام طلبا ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور سلا م کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا۔ علی کو روتا دیکھ کراسے اپنے پا س بلایا او رونے کی وجہ پوچھی۔
’’مس سارے بچے میرا مذاق اڑاتے ہیں۔اس میں میرا کیا قصور، اگر اللہ نے میری آنکھیں ایسی بنائی ہیں۔ ”، علی ہچکیاں لیتے ہوئے بولا۔ کلاس میں سکوت چھا گیا ،سارے بچے ڈر رہے تھے کہ اب ٹیچر انہیں سزا دیں گی۔
سعد اور ولید کی تو جان پر بنی تھی۔ ٹیچر نے علی کو واپس اپنی سیٹ پر بیٹھنے کو کہا۔ انہوں نے حاضری لینے کے بعد کہا کہ، بچو! آج میں آپ کو ایک کہانی سناؤں گی۔ سارے بچے ہمہ تن گوش ہوگئے تھے اور خوش تھے کہ ٹیچر نے انہیں سزا نہیں دی۔
’’ پیارے بچو! یہ کہانی ہے ایک ایسے شرارتی بچے کی جس کا نام اسامہ تھاجو تھا تو بہت پیارا لیکن اس میں ایک خامی تھی کہ وہ دوسروں کا مذاق بہت اڑاتا تھا۔ یہ ا س کا پسندید ہ مشغلہ تھا۔ وہ اپنے محلے کے بچوں، دوستوں، رشتے داروں اور اپنے اسکول کے بچوں کا بھی بہت مذاق اڑاتا تھا۔ اس کے ماما بابا اسے سمجھاتے تھے لیکن وہ نہیں سمجھتا تھا۔
’’تو مس وہ تو بہت برا بچہ ہوا۔‘‘ایک بچے نے بیچ میں سوال کیا۔
بالکل،اسےاحساس نہیں تھا کہ مذاق اڑانا اللہ کو سخت ناپسند ہے۔ کسی کو برے القاب سے نوازانا، اس کا نام بگاڑنا۔ اللہ کی نظر میں بہت برا ہے۔ لیکن وہ ایسا بچہ تھا کہ اس پر کسی کی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ایک دن اس کی کلاس میں ایک ایسا بچہ آیا جو ایک ہاتھ سے معذور تھا۔پھر کیا تھا، اسامہ کو تو ایک نیا کھیل مل گیا۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اس بچے کا مذاق اڑاتا۔
ایک دن اسامہ سڑک پر بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا،اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک گاڑی آرہی ہے۔ گاڑی والے نے گاڑی کو بریک لگانے کی کوشش کی لیکن وہ اسامہ سے جا ٹکرائی۔ اسے اسپتال لے جایا گیا۔ اس کابہت بری طرح ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔ اور وہ ایک ٹانگ سے معذور ہوگیا ۔اتنا کہہ کرٹیچر خاموش ہوگئیں اور ایک نظر کلاس کے بچوں پر ڈالی، سب سر جھکائے بیٹھے تھے۔
’’سوری مس! ہم سے بھول ہوگئی۔‘‘بچوں نے کہا۔
’’دیکھو بچو! تمام انسانوں کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔ ہمیں اللہ پاک کی بنائی ہوئی کسی چیز میں کوئی خامی نہیں نکالنی چاہیے، بلکہ اس کاشکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں صحیح سلامت بنایا ہے۔ اور وہ لوگ جن میں اللہ نے کوئی خامی رکھی ہے ان سے پیار کرنا چاہیے، ان کا مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔ ٹیچر نےکہا۔
’’علی! ہم تم سے معافی چاہتے ہیں‘‘۔جماعت کے تمام بچوں نے ایک زبان ہو کر کہا تو علی کا چہرہ کھل اٹھا۔
جیسے ہی بریک کی بیل ہوئی تمام بچے باہر کی طرف بھاگے۔ ان میں علی بھی تھا۔ وہ سب بیٹھے ایک ساتھ لنچ کر رہے تھے اور ٹیچر دور کھڑی انہیں دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔