رؤف اسلم آرائیں، ڈگری
میں اپنے بستر پرسورہا تھا، باہر سے باتوں کی آوازیں آنے لگیں، جیسے بہت سارے لوگ جمع ہوں۔ میں جلدی سےاُٹھ کر کھڑکی کی طرف گیا کہ آخرکیا ماجرا ہے۔ دیکھا کے میدان میں لو گوں کا ہجوم ہے، پھر اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں بھی اسی ہجوم میں کھڑا ہوں۔
ہر آنکھ میں ایک آزاد وطن کا خواب روشن تھا۔ اسی پرجوش ہجوم کے بیچ، میں نے ایک بلند قامت شخصیت کو دیکھا جس کے چہرے پر پختہ عزم اور آنکھوں میں گہری سوچ تھی۔ یہ کوئی اور نہیں بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔ ان کے قریب پہنچ کرمیں انہیں سلام کرنے ہی والا تھا کہ، ان کی گہری نگاہیں مجھ پر پڑیں، ان کے چہرے پر شدید ناراضی اور رنجیدگی تھی، جو میرے اندر تک اتر گئی۔
انہوں نے کہا،’’کیا تم ہی وہ نسل ہو جس کے لیے میں نے یہ پاکستان حاصل کیا تھا؟ تمہارے روشن مستقبل کے لیے، لاکھوں جانوں کی قربانیاں دی گئیں، گھر بار چھوڑے تھے اور آج تم کیا کررہے ہو؟‘‘ ان کی آواز میں اتناغصہ تھا کہ میں لرزنے لگا۔
میں نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا، میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ان کے چہرے پر دکھ تھا، وہ دکھ جو شاید ایک عظیم رہنما کو اپنی قوم کی حالت زار دیکھ کر ہوتا ہے۔ ایک لمحے رُک کر انہوں نے پھر کہا’’موبائل، سوشل میڈیا، فضول خرچی کیا یہ تمہارا اوڑھنا بچھونا بن چکا ہے؟ کیا یہی آزادی ہے جس کا خواب ہم نے دیکھا تھا؟۔
حقدار کا حق مارا جارہاہے۔ غریب مزید غریب ہوتا جارہا ہے اور امیر کی ہوس بڑھتی جارہی ہے۔ کیا اسی لیے پاکستان قائم ہوا تھا؟ میں نے تو ایک ایسا پاکستان چاہا تھا، جہاں انصاف کا بول بالا ہو، جہاں ہر شہری کو اس کے حقوق ملیں، جہاں تعلیم عام ہو، جہاں غریب اور امیر ایک صف میں کھڑے ہوں، مگر تم لوگوں نے کیا کیا ؟ اپنے ذاتی مفادات کے لیے اس ملک کو داؤ پر لگا دیا۔ یہ پاکستان اس لیے حاصل نہیں کیا ‘تھا کہ تم اس کو کھوکھلا کر دو۔‘‘
ان کا ہر لفظ میرے ضمیر پر ایک تازیانے کی طرح لگ رہا تھا۔ آج تک اتنی شرمندگی محسوس نہیں کی تھی۔ میں سوچنے لگا، واقعی سچ تو یہی ہے۔ آج ہمارا ملک کس قدر بدل چکا ہے۔ اخلاقی اقدار پامال ہوچکی ہیں، حب الوطنی محض 14؍اگست کے دن سبز ہلالی پرچم لہرانے تک محدود ہوچکی ہے۔ میں نے ہمت کر کے ان کی طرف دیکھا اور غمناک لہجے میں کہا،’’ ہم سے غلطی ہوگئی، ہم آپ کے خوابوں کی لاج نہیں رکھ سکے۔‘‘
اچانک قائداعظم کے پیچھے سے شاعر مشرق، علامہ محمد اقبال نمودار ہوئے ،ان کے چہرے پردکھ کی پرچھائیاں اور امید بھری مسکراہٹ بھی تھی۔ وہ میرے قریب آئے اور نرمی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا،’’ بیٹا! قائد اعظم ٹھیک کہہ رہے ہیں، یہ ملک بہت قربانیوں کے بعد حاصل ہوا ہے۔ مگر یاد رکھو :
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
انہوں نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا، تمہیں اپنی خودی کو بیدار کرنا ہوگا۔ یہ صرف قائداعظم کی نہیں ، یہ تمہاری بھی میراث ہے۔‘‘
قائدِ اعظم نے علامہ اقبال کی طرف دیکھا، اور ان کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ انہوں نے میری طرف رخ کر کے کہا، ’’ اقبال ٹھیک کہتے ہیں میری قوم مایوس نہیں ہوسکتی۔ اس کے اندر اب بھی وہ صلاحیت ہے کہ یہ دوبارہ کھڑی ہوسکے۔ اب بھی وقت ہےتمہیں جاگنا ہوگا۔
اس ملک کوبچوں اور نوجوانوں کی ضرورت ہے۔ بیٹے ،موبائل اور دنیاوی عیش و عشرت میں خود کو گم کرنے کے بجائے، اپنے ملک کے بارے میں سوچو۔ اپنے اندر وہ جذبہ بیدار کرو جو 1947 میں لوگوں کے اندر تھا۔ یہ ملک تمہارا ہے، اسے سنوارنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ ‘‘
ان کی آوازیں میرے کانوں میں گونجتی رہیں اور ان دونوں عظیم شخصیات کے چہرے دھیرے دھیرے دھندلاتے چلے گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے کسی نے میرا کندھا ہلایا ہو۔ میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ امی مجھے اُٹھا رہی تھیں۔ سورج کی کرنیں کھڑکی سے اندر آرہی تھیں۔
یہ صرف ایک خواب تھا،مگر یہ اتنا حقیقی اور سبق آموز تھا ۔ میرے ذہن میں قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں کے الفاظ گونج رہے تھے، یہ ملک تمہارا ہے، اسے تم نے سنوارنا ہے۔ میں جلدی سے بستر سےاُٹھاا اور اُسی لمحے فیصلہ کیا کہ اب میں بھی اپنے حصّے کی شمع جلا کر اس قوم کے لیے کچھ کر دکھاؤں گا۔