• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دادی اماں نے سنائی ایک کہانی
دادی اماں نے سنائی ایک کہانی

عائشہ سیف

’’بیٹا! رافع! یہاں آؤ، کیوں امی کو تنگ کر رہے ہو۔‘‘دادی نے اپنے پوتے کو آوازے کر کہا جو اپنی امی سے نئی سائیکل لینے کی ضد کر رہا تھا۔

’’دیکھیں نا دادی ، امی مجھے سائیکل دلانےسے منع کررہی ہیں کہہ رہی ہیں ، چند مہینوں کے بعد دلائیں گی ، ابھی گنجائش نہیں ہے۔ یہ بھلا کوئی بات ہوئی، چھٹیاں تو ابھی ہیں، میرے سارے دوستوں کے پاس سائیکلیں ہیں۔‘‘

یہاں آؤ میرے پاس بیٹھو، اچھے بچے تو وہ ہوتے ہیں جو اپنے ماں باپ کے مسائل کو سمجھیں اور اُن کے فرما بردار بنیں، آپ کے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ کتنے بچے ایسے ہیں، جنہیں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے میسّر آتی ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرو۔ اچھا یہ بتاؤ کہ اسلامی مہینہ کون سا ہے؟ رافع نے کچھ دیر سوچ کرکہا، ’’دادی مجھے معلوم ہے ،یہ محرمالحرام کا مہینہ ہے۔

’’شاباش ، یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کو معلوم ہے ۔ بیٹا یہ بہت احترام و حر مت والا مہینہ ہے۔ جس میں ہمارے پیارے نبیؐ کے نواسے حضرت امام حسینؓ اور ان کے خاندان والے باطل کے خلاف ڈٹ گئے تھے، ان میں بچے بھی تھے، جنہوں نے بہادری سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ آج میں تمہیں ایک بہت پیاری مگر دکھ بھری کہانی سناتی ہوں۔ یہ کہانی ایک ننھے سے بچے کی ہے، جو بہت بہادر تھا۔ اس کا نام تھا حضرت قاسمؓ۔‘‘

’’حضرت قاسمؓ کون تھے؟ رافع نے دل چسپی لیتے ہوئے پوچھا ‘‘۔وہ دادی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔

وہ امام حسنؓ کے بیٹے اور امام حسینؓ کے بھتیجےتھے۔ بہت پیارے، نیک، ان کی عمر صرف تیرہ سال تھی، اتنے ہی جیسے تم اسکول جاتے ہو۔ جب کربلا کا دن آیا، تو سب حق اور باطل کے درمیان ایک بڑی جنگ کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ 

امام حسینؓ کے ساتھی ایک ایک کر کے لڑنے جا رہے تھے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو رہے تھے، اور حق کا پرچم بلند کر رہے تھے۔ قاسمؓ بھی بار بار امام حسینؓ کے پاس آتے اور کہتے،"چچا جان! مجھے بھی اجازت دیں، میں بھی لڑوں گا۔"

لیکن امام حسینؓ انکار کر دیتے اور کہتے،"تم ابھی بچے ہو، میرے بھائی حسنؓ کی نشانی ، تمہاری ماں نے تمہیں امانت کے طور پر بھیجا ہے۔"

قاسمؓ کا دل بہت اداس ہو گیا، مگر بیٹا، ان کے پاس اپنے والد کا ایک خط تھا، جو انہوں نے حضرت حسینؓ کو دیا۔

خط میں لکھا تھا,"بیٹا قاسم، جب کربلا میں حق و باطل کی جنگ ہو، تو تم اپنے چچا حسینؓ کے ساتھ کھڑے رہنا، اور اگر موقع ملے تو اپنی جان بھی دے دینا، کیونکہ یہی دین کی خدمت ہے۔"یہ پڑھ کر امام حسینؓ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہوں نے قاسمؓ کو گلے سے لگا لیا اور کہا، "میرے بیٹے، جاؤ، اللہ تمہیں اپنے نیک بندوں میں شامل کرے۔"

اب قاسمؓ نے اپنے چھوٹے سے بدن پر زرہ پہنی، حضرت امام حسین ؓ نے اپنے ہاتھوں سےاُن کےسر پر عمامہ باندھا اور تلوار ہاتھ میں لے کر میدان میں اُترے، وہ بہت چھوٹے تھے، مگر شیر کی طرح لڑے۔ دشمنوں نے دیکھا تو کہا، ارے یہ تو کوئی بچہ ہے"۔ لیکن قاسمؓ نے ان کو دکھا دیا کہ ایمان والا بچہ بھی کتنا طاقتور ہوتا ہے۔

انہوں نےکئی دشمنوں کو زمین پر گرا دیا۔ آخر میں، ایک ظالم نے پیچھے سے وار کیا، قاسمؓ زمین پر گرے اور آواز دی،"چچا جان، امام حسینؓ دوڑے، دشمنوں کو ہٹایا، اور قاسمؓ کو گود میں اٹھایا۔ ان کا ننھا سا چہرہ مٹی سے اَٹا ہوا تھا، لیکن وہ مسکرا رہے تھے۔ جیسے کہہ رہے ہوں,"میں نے اپنا وعدہ پورا کردیا۔"

دیکھو بیٹا، حضرت قاسمؓ جیسے بچے ہمیں سکھاتے ہیں, بہادری صرف طاقت سے نہیں، نیت سے ہوتی ہے۔ حق کے لیے کھڑا ہونا ہی اصل کامیابی ہے۔ سچائی، صبر اور قربانی سے دین بچا ہے۔

"اللہ کرے تم سب بھی حضرت قاسمؓ، علی اصغرؓ، اور علی اکبرؓ جیسے پیارے اور نیک بچے بنو، جو سچ پر ڈٹ جائیں اور اپنے دین سے محبت کریں۔ آمین۔"

رافع کی آنکھوں میں آنسو تھے، اُس نےجذباتی ہوتے ہوئے کہا، دادی جان میں اب امی، ابو کو تنگ نہیں کروں گا، میں بھی بہادر، سچا اور دین سے محبت کرنے والا بنوں گا۔ ‘‘ دادی نے اُسے پیار سے گلے لگا لیا۔