سید بشارت حسین
پیارے بچو! کربلا کی جنگ وہ واحد جنگ تھی، جس میں ایک طرف عباس علمدار اور علی اکبر جیسے جوان بھی تھے، زہیر و بریر جیسے بہادر بھی تھے تو ان ہی کے ساتھ حبیب بن مظاہر اسدی اور مسلم بن عوسجہ جیسے عمر رسیدہ اصحاب بھی اور عون و محمد اور علی اصغر جیسے بچے بھی۔
حق کی سر بلندی اور باطل کی نابودی کے لئے قیام کرنے والے اس عظیم قافلے میں ہر طبقہ فکر، ہر قوم و ملت اور ہر عمر کے لوگ شامل تھے لیکن ہم آپ کو اُن بچوں بارے میں بتارہے ہیں جنہوں نے کربلا کے میدان میں قر بانیاں دیں۔
جب امام حسین ؓ کے تمام یاران و انصار شہید ہوئے تو آپ خیمہ گاہ کی طرف گئے اور گھوڑے سے اتر کر خیمے کے پردے کے سامنے پر بیٹھ کر دنیا میں آنے والے بچے کے کان میں اذان دے ہی رہے تھے عین اسی وقت ایک تیراس بچے کے نازک گلے میں پیوست ہوگیا اور وہ اپنے بابا کی آغوش میں ابدی نیند سوگیا۔عبد اللہ بن حسینؓ عاشورا ءکے دن ظہر کے وقت پیدا ہوئےاور ان کی ولادت سے شہادت تک کا عرصہ تقریبا ایک گھنٹہ تھا۔
امام حسینؓ اور ان کے ساتھ آنے والوں پر پانی بند کردیا گیاتھا۔جب واقعہ کربلا رونما ہوا توعلی اصغرؓ اس وقت چھ ماہ کے تھے۔ امام حسین ؓنے علی اصغرؓ کو آغوش میں لیا اور دشمن سے کہا،’’ اگر مجھ پر رحم نہیں کرتے ہو تو اس بچے پر رحم کرو، کیا تم لوگ نہیں دیکھتےکہ پیاس کی وجہ سے یہ کس طرح زبان نکال رہا ہے ۔‘‘ اس وقت دشمن نے کمان سے ایک تیر چھوڑا اور علی اصغر کے گلے میں آکر پیوست ہو گیا اور انہوں نے باپ کی گود میں ہی جامِ شہادت نوش فرمائی۔
کربلا کی تاریخ کا ایک بہادر نام تیرہ سالہ قاسم بن الحسنؓ ہے۔عاشورا ءکی رات جب امام حسین ؓ نےتمام ساتھیوں کو جمع کیا اور فرمایا جو بھی جانا چاہے چلا جائے۔ با وفا ساتھیوں نے یکے بعد دیگرے وفاداری کا اعلان کیا تو اس وقت یہ بہادر بچہ بھی اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا،’’چچا جان کیا میں مارا جاؤں گا یا نہیں‘‘ ؟ امام حسین ؓ نے پوچھا،’’ اے میرے بھتیجے تمہیں موت کیسی لگتی ہے ؟
قاسم ؓ نے کہا ، شہد سے بھی زیادہ شیریں۔ قاسم ؓ نے جنگ کی اجازت طلب کی، مگر امام حسین ؓ نے انکار کیا لیکن وہ بہ ضد رہے۔ اجازت ملنے پر میدان میں اترے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہادت پائی۔
عون اور محمد حضرت زینب ؓ کے صاحبزادے تھے۔ محمد بن عبداللہ، امام حسین ؓ کی اجازت سے میدان میں گئے اور دس لوگوں کو جہنم رسید کرنے کے بعد عامر ابن نہشل تمیمی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس کے بعد ان کا بھائی عون میدان کی طرف گئے اور بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
کربلا کے میدان جنگ میں چھ ماہ کے شیر خوار علی اصغر سمیت ایسے درجنوں بچوں نے حق و امام حسینؓ پر جان نچھاور کر دی یا پھر واقعہ کربلا کے بعد یزیدی فوج کی قید و بند اور شام و کوفہ کے زندانوں میں مصائب و آلام کا مقابلہ کیا۔ امام حسین ؓ کی چار سالہ بیٹی بی بی سکینہ بنت حسین کا یزیدی فوج کے مظالم برداشت کرتے ہوئے زندان شام میں شہادت، بچوں کی قربانیوں کا درخشاں باب ہے۔