• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہاج نے غصے سے کہا۔’’ کیا بکواس ہے، کون ہو تم؟ کیا چاہتے ہو ۔‘‘

’’ وہ تم اچھی طرح جانتے ہو ۔آج رات ٹھیک دس بجے ایک لاکھ روپے لے کر سائٹ ایریا میں اسٹارمل کے پیچھے آجاؤ۔ میں تمہیں وہیں ملوں گا۔ اس کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔

۔۔٭٭٭۔۔

سلطان اپنے بیڈ روم میں فون کان سے لگائے کھڑا تھا، پھر وہ جھنجھلا کر بولا،’’ کیا چکر ہے کون ہو بھائی کیوں پریشان کر رہے ہو ۔؟‘‘

دوسری طرف سے غراتی ہوئی آواز آئی۔ ’’کہا نا میں جاوید کا وارث ہوں۔ سائٹ ایریا میں اسٹار مل کے پیچھے آج رات کو ٹھیک دس بجے ایک لاکھ روپے لے کر آجانا ۔‘‘ سلطان غصے میں چلایا۔ ’’ کیا بکواس ہے یہ؟‘‘

دوسری طرف عمر نے فون کال منقطع کرکے علی اور ابو جی کی طرف دیکھا۔

’’ ویل ڈن عمر ۔‘‘ ابو جی نے بے ساختہ کہا۔

’’ کل آپ چلیں گے ہمارے ساتھ ۔‘‘عمر نے پوچھا۔

’’ آف کورس چلوں گا، دو افراد کا قاتل ہاتھ لگنے والا ہے۔ اسپیشل فورس کے بھی کچھ لوگوں کو بلانا ہوگا ۔‘‘

قاتل کے لیے جال بچھا یا جا چکا تھا۔ دس بج گئے’’۔اب تک کوئی آیا کیوں نہیں۔؟‘‘ ’’احمد صدیقی نے مایوسی سے کہا ۔‘‘ اسی وقت اندھیرے میں ایک گاڑی کی ہیڈ لائٹ دکھائی دیں، سب ایک دم چوکنے ہوگئے۔

گاڑی عمارت کے کھنڈرات کے قریب آکر رک گئی،’’ ارے یہ تو سلطان راجاکی گاڑی ہے ۔‘‘ عمر نے کہا۔’’ احمد صدیقی نے فورا فون پر اسپیشل فورس کے جوانوں کو احکامات دیئے۔ گاڑی کو چاروں طرف سے سے گھیر لو۔‘‘

اتنی دیر میں سلطان گھبرائے ہوئے انداز میں گاڑی سے اتر چکا تھا۔ اس نے بھاگنے کی کوشش کی مگر بھاگ نہ سکا۔

’’ اوہو، سلطان راجاصاحب تو آپ ہیں، راشد اور جاوید کے قاتل۔؟‘‘

سلطان ان کے گرفت میں تھا اور بری طرح خوف زدہ ’’مم، میں نے کسی کو نہیں مارا قسم سے۔‘‘

احمد صدیقی نے غرا کر کہا ۔’’ ہمیں تم بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ فون ہم نے ہی کروایا تھا ، اگر تم نے راشد اور جاوید کو قتل نہیں کیا تو یہ پیسے لے کر یہاں کیوں آئے ہو ۔؟‘‘

’’ آپ کو کچھ غلط فہمی ہوئی ہے ۔‘‘ وہ اب بھی اپنی بات پر بضد تھا۔

’’ ٹھیک ہے اسے لے کر ا س کے گھر چلو ،ا س کے گھر کی تلاشی لینی ہے ۔‘‘

سلطان کو اس کے گھر لایا گیا ۔اس کے گھر کی تلاشی لی گئی تو ایک دراز سے کچھ تصویریں نکل آئیں ۔

’’ واو، تو یہ تھیں وہ تصویریں ۔‘‘احمد صدیقی نے انہیں دیکھتے ہی بے اختیار کہا۔

تصویر میں سلطان سڑک پر کھڑی ایک گاڑی پر پٹرول چھڑک رہا تھا، اس میں ایک نوجوان بیٹھا تھا۔

دوسری تصویر میں وہ گاڑی کو آگ لگارہا تھا اور تیسری تصویر میں وہ گاڑی میں بیٹھے نوجوان کے سر پر ڈنڈا مار رہا تھا۔ احمد صدیقی نے تصویریں اس کی آنکھوں کے سامنے لہرائیں ۔’’اب بھی یہی کہو گے کہ تم نے کچھ نہیں کیا۔؟‘‘

’’یہ فوٹو جاوید نے بنائے تھے وہ تمہیں بلیک میل کر رہا تھا ۔‘‘

سلطان ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔’’ ہاں میں نے راشد کی جان لی۔ وہ مجھے برباد کردینا چاہتا تھا۔ کوئی اور راستہ نہیں دکھائی دیا، مگر جاوید کو میں نے نہیں مارا۔ جاوید نے مجھ سے لاکھوں روپے اینٹھے، اس کے باوجود میں نے اسے نہیں مارا۔ میں سچ کہہ رہا ہوں ۔

دو دن پہلے مجھے کسی نے فون کیا اور کہا کہ تصویریں اس کے پاس ہیں۔ اسے پانچ لاکھ روپے چاہیے ہفتے کی شام تک۔’’میں تو پانچ لاکھ کا انتظام کر رہا تھا کہ، کل پھر فون آیا کہ آج ایک لاکھ روپے چاہیے۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘

’’ وہ ایک لاکھ والا فون ہم نے کیا تھا۔ اس کا مطلب ہے، کسی نے ان نیگیٹو کے لیے جاوید کا خون کیا اور اب وہ جاوید کی جگہ تمہیں بلیک میل کر رہا ہے۔،ہم تم پہ بھروسا کر رہے ہیں ، جب اس کا فون آئے تو تم اسپیکر آن کرکے اس کی کال سنو گے۔ اس سے پوچھو گے کہ پیسے لے کر کہاں آنا ہے۔‘‘

’’ ٹھیک ہے ۔۔‘‘ سلطان نے اثبات میں سر ہلایا۔

اسی وقت سلطان کا فون بجنے لگا۔ احمد صدیقی نے کال ریسیو کرنے کا اشارہ کیا۔ سلطان نے فون اٹھایا، کپکپاتی آواز میں پوچھا،’’ ہیلو ۔۔کون ؟‘‘ ’’مسٹر سلطان میں بات کر رہا ہوں تمہارا نیا دوست، پیسوں کا انتظام ہوگیا ۔؟‘‘

’’ جی، انتظام ہوگیا ہے۔‘‘

’’ ٹھیک ایک گھنٹے بعد پانچ لاکھ روپے لے کر ’’آرٹس کونسل والے روڈ پر ذرا آگے کونے پر ایک کچرا دن ہے۔ پیسوں کو اخبار میں لپیٹ کر، کچرے کے ڈبے میں پھینک کرچپ چاپ نکل جانا اورہاں کوئی گڑ بڑ مت کرنا ۔‘ ‘اس کے ساتھ ہی کال منقطع ہوگئی۔

’’ چلو ہم وہاں چلتے ہیں ۔ ‘‘انہوں نے اپنی گاڑی ایک ایسی جگہ روکی، جہاں سے وہ کچرا کنڈی دکھائی دے رہی تھی۔ تم دونوں یہاں اتر جاؤ، چوکنے رہنا، میں پیکٹ رکھ کر آگے نکل جاؤں گا ۔۔مجرم نظروں سے اوجھل نہ ہونے پائے ۔‘‘احمد صدیقی نے علی اور عمر سے کہا۔

دونوں پان کے ایک کیبن کی آڑ میں کھڑے ہوگئے۔ احمد صدیقی گاڑی لے کر آگے گئے اور پیکٹ کچرے دان میں ڈال کر گاڑی آگے بڑھا دی۔

کچرا کنڈی کے قریب ایک بائیک رکی اور تیزی سے ایک نوجوان اتر کر کچرے دان سے پیکٹ اٹھا کربائیک پر بیٹھ کرساتھ والی پتلی سی گلی میں گھس گیا۔ عمر اور علی تیزی سے بھاگتے ہوئے وہاں تک پہنچے، مگر وہ نوجوان نکل چکا تھا۔

اسی وقت احمد صدیقی کی گاڑی کے بریک ان کے عین قریب چرچرائے ۔’’ وہ نکل گیا ابو جی۔‘‘ اُس نے بائیک کی نمبر پلیٹ اُتاری ہوئی تھی

’’علی نے کہا ۔’’ لیکن میں پہچان گیا ہوں کہ وہ کون تھا ؟’’ اور یہ رقم لے کر کہاں گیا ہوگا ۔چلو، وہاں چلتے ہیں ۔‘‘

علی اور عمر جلدی سے گاڑی میں بیٹھے۔ احمد صدیقی نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ قاتل سے پہلے اس کے ٹھکانے پر پہنچنا تھا۔

گیٹ پر تالا تھا، عمر کے لیے تالا کھولنا مسئلہ نہیں تھا۔ وہ تالاکھول کر اندر آگئے۔اندر اندھیرا تھا، انہوں نے لائیٹیں آن کیں اور تین مختلف جگہیں منتخب کرکے لائیٹیں آف کر کے چھپ کر بیٹھ گئے۔

علی کا خیال تھا کہ انہیں زیادہ سے زیادہ دس منٹ انتظار کرنا ہوگا۔ اس کا خیال درست نکلا۔ ٹھیک دس منٹ بعد دروازہ کھلا اور بائیک والا نوجوان داخل ہوا۔

’’ کمال ہے، دروازے کا تالا کیسے کھلا رہ گیا ۔‘‘ ا س نے اندر آتے ہی بڑ بڑا کر کہا اور لائٹ کا بٹن کھولا۔ وہ ایک فوٹو اسٹوڈیو تھا۔ سائیڈوں میں رکھی ہوئی لائٹس ایک دم روشن ہوگئیں، آنے والا سٹپٹا گیا۔

وہ ندیم ارشادی تھا۔ جاوید کے فوٹو اسٹوڈیو پر کام کرنے والا نوجوان۔ اس نے تیز روشنی سے بچنے کے لیے چہرے پر ہاتھ رکھ لیا تھا، نوٹوں کا پیکٹ اس کے دوسرے ہاتھ میں تھا۔

اُنہیں دیکھ کر اُس نے پوچھا، آپ لوگ کون ہیں ؟‘‘

’’ ہم قانون کے رکھوالے ہیں ۔ تم نے ہی مارا ہے نہ جاوید کو۔‘‘

’’وہ بری طرح گھیرا جا چکا تھا اقرار کرنے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ آس نے کہا، ’’ہاں میں نے ہی مارا ہے جاوید بھائی کو ۔‘‘ اُس کے اقرار کے بعد سب کچھ صاف ہو گیا تھا۔ قاتل سامنے آگیا تھا اسے گرفتار کر لیا گیا۔

اب پتا نہیں مقدمہ کب تک چلے گا، لیکن دونوں لڑکوں کی ذہانت اور جاسوسی نے قاتل کو پکڑوا دیا۔ (ختم شد)