• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھول کا لفظ سماعتوں سے ٹکراتے ہی ایک چیز محسوس ہوتی ہے وہ ہے، خوشبو، مگر جہاں سب کچھ تبدیل ہو رہا ہے تو پھول کیوں پیچھے رہیں۔ آج ہم آپ کو ایک ایسے پھول کے بارے میں بتا رہے ہیں، جس کا نام ’’ لاش ‘‘ ہےحیرت کی بات یہ ہے کہ اس میں سے خوشبو نہیں بلکہ بد بو کے بھبکے اٹھتے ہیں۔

یہ پھول آسٹریلیا میں کینبرا کے نیشنل بوٹینک گارڈن میں پہلی بار کھلا۔ لیکن ایک دن کھلا اور دوسرے دن مرجھا گیا۔ بنیادی طور پر اس نایاب پودے کا تعلق انڈونیشیا سے ہے۔ وہاں اس کو ’’بنگا بینکئی‘‘ کہتے ہیں۔ یہ مغربی سماٹر کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ یہ آٹھ سے دس سال کے دوران کھلتا ہے اور اس کی عمر چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے تک ہی ہوتی ہے۔

جب یہ کھلتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسان گلے سڑے گوشت کے کسی ڈھیر کے قریب بیٹھا ہو۔ عموماََیہ ساڑھے چار فٹ اونچا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات دس سے بارہ فٹ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔ 

ماہر نباتات کے مطابق بدبو کی وجہ پوٹریسائن نامی مادہ ہے جو امینو ایسڈ اور ارجی کیمیکل کا امتزاج ہوتا ہے۔ پھول اپنے اندر سلفر اور امینو ایسڈ سے ڈائمیتھل، ڈائسلفائیڈ اور ڈائمیتھل ٹرائسلفائیڈ اور کچھ دوسرے کیمیکل بھی بناتا ہے، یہی بد بو کا باعث بنتے ہیں۔