سیّدہ مسرت
ہارون بہت ذہین اور حساس بچہ تھا۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ اپنی چھوٹی بہن ربیعہ کے ساتھ دادا جان کے گاؤں آیا ہوا تھا۔ 14اگست کا دن قریب تھا لیکن گاؤں میں اُسے کوئی خاص جوش وخروش نظر نہیں آ رہا تھا۔ اُس نے دادا جان سے پوچھا، ’’کیا یہاں یومِ آزادی نہیں منایا جاتا، شہر میں تو ہمارے اسکولوں میں اس دن کو منانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ ہفتوں پہلے ملی نغمے، تقاریر، ٹیبلو کی تیاریاں کروائی جاتی ہیں۔ بچے پاکستانی پرچم اور جھنڈیوں سے اسکول کو سجاتے ہیں۔ گھروں پر بھی جھنڈے لہرا رہے ہوتے ہیں، یہاں ایسا کیوں نظر نہیں آرہا؟ ‘‘
دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’بیٹا! پہلے لوگ اسےبڑے جوش وخروش سے مناتے تھےلیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب وہ جذبہ کم ہو گیا ہے۔لوگ اپنے مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں ۔‘‘
یہ سن کر ہارون کو افسوس ہوا، مگر اس نے طے کر لیا کہ وہ اس سال گاؤں میں یومِ آزادی کا جشن ایسے منائے گا کہ سب یاد رکھیں گے۔ اسی دن شام کو ہارون نےگاؤں کے بچوں کو جمع کیا، اور انہیں14اگست کے دن کی اہمیت اور اس کا تاریخی پس منظر بتایا۔
اُن سے کہا کہ، ہم سب مل کرکسی بھی اسکول میں 14اگست کو شاندار پروگرام کریں گے، دوسرے اسکولوں کے بچوں کو بھی شرکت کی دعوت دیں گے۔ سب نےخوشی کا اظہار کیا ، پھر سارے بچے14اگست کے پروگرام کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
ربیعہ نےاپنے ساتھیوں کو ملی نغمے یاد کروائے، اساتذہ نے بچوں کا جذبہ دیکھا تو اُنہیں تقریریں لکھ کر دیں۔ ہارون نے بچوں سے ان کی مشق کروائی اور خود دادا جان کی پرانی ڈائری سے وہ تحریریں نکالیں جو انہوں نے قیامِ پاکستان کے وقت لکھی تھیں، جس میں وہ قربانیاں درج تھیں جو بچے نہیں جانتےتھے۔ان کی مدد سےاُس نے اپنی تقریر بھی لکھی۔
بچوں نےسفید اور ہرے رنگ کے پرانے کپڑوں سے جھنڈےبنائے، خالی بوتلوں سے سبز و سفید لائٹیں تیارکیں۔ دادا جان بھی بچوں کے ساتھ تیاریوں میں مصروف تھے۔
بالآخر 14اگست کا دن آ پہنچا۔ گاؤں کا اسکول جھنڈیوں اور پودوں سے سجا ہوا تھا۔ اسکول کے میدان میں اسٹیج بنایا گیاتھا۔ بچےسبز و سفید لباس میں ملبوس تھے۔ قومی ترانے کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔ بچے، جوان، عورتیں،مرد، بزرگ سب اسکول کی طرف رواں دواں تھے۔
بچے، بچیاں ملی نغمے گا رہے تھے۔ ہارون تقریر کرنے اسٹیج پر آیا اور اُس نے جوشیلے لہجے میں کہا، پیارے ساتھیو! ’’14اگست وہ دن ہے جب ایک خواب حقیقت میں بدلا۔ ہمیں یہ آزادی ایک دن میں نہیں ملی، اس کے پیچھے قائدِاعظم محمد علی جناح کی انتھک محنت اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ شامل ہے۔ کیا ہم ان قربانیوں کو بھول سکتے ہیں، ہرگز نہیں! اس کے لئے ہم سب کو بھی اپنا خون جگر دینا ہوگا اور اپنے پختہ یقین وعزم سے درپیش مشکلات کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرکے نئے راستے بنانے ہوں گے۔
آئیں اس دھرتی کو ہم سب مل کر یقین، اتحاد اور تنظیم کی قوت سے عظیم سے عظیم تر بنائیں اور وعدہ کریں کہ اس کی حفاظت بھی کریں گے اور خدمت بھی۔ کبھی وطن سے بے وفائی نہیں کریں گے۔‘‘پوری فضا نعرۂ تکبیر اور پاکستان زندہ بادسے گونج اُٹھی۔
اسکول کے پرنسپل نے ہارون کو سینے سے لگاکر کہا،’’بیٹا! تم نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا۔‘‘
دادا جان نے بھی ہارون کو شاباش دی تو اُس نے پر عزم لہجے میں کہا،’’دادا جان! پاکستان تو ہماری پہچان ہے، ہمارا فخر ہے، ہمارا مستقبل ہے۔ ہم اپنے اجداد کی محنت اور قربانیاں ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ ہم بھی وہ کام کریں گے جس سے ہمارے ملک کا نام روشن ہو۔ محنت سے دل لگا کر پڑھیں گے۔ بچوں نے اُس کی تائید کی۔
اب گاؤں کے ہر اسکول میں 14اگست شان و شوکت سے منایا جاتا ہے۔ بچوں کو علم ہوگیا کہ آزادی صرف چھٹی کا دن نہیں، بلکہ قربانی، عزت، محنت اور اتحاد کا نام ہے۔