• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1980ء کی بات ہے، بھارتی فوج کی ایک گاڑی کی ٹکّر سے سڑک پر بیٹھے چند افراد زخمی ہوئے، تو وہاں موجود لوگوں نے غصّے میں ڈرائیور کی پٹائی کرڈالی ۔ نتیجتاً بھارتی فوجیوں نے ان دُکان داروں کو انتہائی بے دردی سےمارا، پیٹا اور ان کی دکانیں جلا کر راکھ کردیں۔ وہاں موجود لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، تو کہیں کوئی اپنے کاروبار کی تباہی پر ماتم کناں تھا۔

وہیں ایک 14سالہ بچّہ بھی تھا، جس نے اپنی جان بچانے کے لیے بس اسٹاپ کے بکنگ کاؤنٹر میں پناہ لے لی۔بھارتی فوج نے اس کاؤنٹر میں بھی تھوڑ پھوڑ کی، لیکن بچّہ محفوظ رہا۔ بعدازاں، اندھیرے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بچّہ اپنے گھر تو پہنچ گیا، مگر وہ سارا منظر، تباہی، لوگوں کی بدحالی، بے بسی ،بھارتی فوج کا ظلم و بربریت اس کے دل و دماغ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔

وہ بچّہ 3 اپریل1963 ء کو سری نگر کے ایک متوسّط گھرانے میں پیدا ہوا، جس کا نام یاسین ملک رکھا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب بھارتی سیکیوریٹی فورسز کشمیر میں عام شہریوں کو مسلسل تشدّد کا نشانہ بنا رہی تھیں۔ لہٰذا، یاسین ملک نے اسی گھٹن زدہ ماحول میں پرورش پائی۔ گو کہ وہ لوگ غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے، لیکن ان کی خودداری اور طبیعت کی بے قراری غلامانہ زندگی تسلیم کرنے سے انکاری تھی۔ ان کا ضمیر بھارت کے آگے جھکنے پرہر گز راضی نہ تھا، یہی وجہ تھی کہ یاسین ملک کی سوچ باغیانہ ہوگئی اور اوائل عُمری ہی سے وہ اپنی اس طبیعت کے سبب مشہور ہو گئے۔

80ء کی دَہائی میں جمّوں کشمیر میں برسرِ اقتدار پارٹی، نیشنل کانفرنس کے خلاف طلبہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے 1987 ء کے انتخابات میں ’’مسلم یونائیٹڈ فرنٹ‘‘ کے امیدوار محمّد یوسف شاہ کی حمایت کی اور 1988 ء میں لائن آف کنٹرول عبور کرکے آزادکشمیر آگئےاور بھارت سے آزادی کے حصول کے لیے جدّوجہد کا آغاز کردیا۔ یاسین ملک نے جے کے ایل ایف میں شمولیت اختیار کی اور ان کا گروپ جسے چار رہنماؤںحامدشیخ، اشفاق وانی، جاوید احمد میر اور یاسین ملک کے نام کے پہلے حروف کو جوڑ کر ’’حاجی‘‘ کہا گیا، وہ شروع میں بہت مقبول رہا، لیکن رفتہ رفتہ اس کا زور ختم ہوتا گیا، یہاں تک کہ یہ جماعت دو گروہوں میں بٹ گئی۔

اپریل1990ء کی بات ہے، جب کشمیر میں کرفیو لگا ہوا تھا اور یاسین ملک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک مکان میں پناہ لی ہوئی تھی تواچانک اس عمارت پربھارتی فوج کا چھاپا پڑ گیا، جس کے نتیجے میں یاسین ملک نے بلڈنگ کی پانچویں منزل سے ایک دوسری چھت پر چھلانگ لگائی تو سڑک پر آگرے، جس سے ان کے جبڑے، کان اور سر پر شدید چوٹیں آئیں۔ ان کی حالت اس قدر تشویش ناک تھی کہ موت تک کی افواہیں گردش کرنے لگیں،وہ کوما میں تھے، ہوش آیا تو خود کو جیل میں پایا۔ پہلے چھے مہینے دہلی کی تہاڑ جیل میں گزرے، پھر آگرہ سینٹرل جیل میں پاگلوں کے ساتھ رکھا گیا۔ 

چار سال اسی طرح مختلف عقوبت خانوں میں گزرے، جہاں وہ قید و بند کی صوبتیں برداشت کرتے کرتے بہت کم زور ہوگئے تھے۔ 1994ء میں رہائی کے بعد انہوں نے مسلّح جدّوجہد کا راستہ چھوڑ کر پُر امن سیاسی تحریک اور جدّوجہد کا آغاز کیا، مگر دشمنوں کو پھر بھی چین نہ آیا اور ان پر کئی جان لیوا حملے ہوتے رہے۔ کئی بار گرفتاریاں ہوئیں، مگر وہ اپنے مقصد پر ڈَٹے رہے۔ 1998ء میں ایک نجی عقوبت خانے میں ایک سفّاک کرنل نے بہیمانہ تشدّد کیا، تو انہیں ہمیشہ کی طرح خون میں لت پت اسپتال پہنچا دیا گیا۔ اس طرح کچھ عرصے بعد انہیں رہائی تو ملی، لیکن2002ء میں پھر گرفتار کرلیا گیا اور گیارہ ماہ بعد رہائی نصیب ہوئی۔ 

اس بار واپس آئے تو دنیا بھر کے رہنماؤں سے ملاقات کرنے اور کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کیا، سیاسی و عوامی محاذ پر تحریک منظّم کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر کے شہروں، قصبوں دُور دراز دیہات کی طرف چل نکلے اور ’’سفرِ آزادی‘‘ کی صُورت میں عوام کو تحریک کے ساتھ سیاسی محاذ پر اکٹھا کرنےمیں کام یاب ہوئے۔ 2008ء میں جب وہ دہلی جیل میں قید تھے، تو انہیں اپینڈکس کا درد اٹھا، جو وقت پر اسپتال نہ لے جانے کے سبب پیٹ میں پھٹ گیا اور زہر پورے جسم میں پھیل گیا، مگر وہ کہتے ہیں ناں ’’جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے‘‘ تو اس بار بھی یاسین ملک جاں بر ہوئے۔ 

بعد ازاں 2009ء میں ان کا نکاح پاکستانی آرٹسٹ مشعال ملک سے ہوا، لیکن بھارت کی جانب سے ان کے والدین کو ویزا جاری نہ کرنے کے سبب یاسین ملک کے والدین اکلوتے بیٹے کی شادی میں شریک نہ ہو سکے۔ واضح رہے، 13 سالہ شادی شُدہ زندگی میں میاں بیوی صرف دو ماہ ہی اکٹھا رہ سکے،یاد رہے، دونوںکی ایک بیٹی رضیہ سلطانہ بھی ہے، جسےابھی تک اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر چلنا، ان کے ساتھ وقت گزارنا، ان کے ساتھ کھیلنا تک نصیب نہ ہوسکا ۔

زندگی کا آدھا حصّہ مختلف جیلوں، عقوبت خانوں میں گزارنے والے یاسین ملک درجنوں بار گرفتار ہوچُکے،قریبی رشتے داروں، دوستوں اور جوان ساتھیوں کے جنازے اُٹھا چُکے ہیں، لیکن جمّوں کشمیر کی آزادی و خود مختاری پر پیچھے ہٹنے، سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ ریاستی جبر کے سائے تلے آزادی و خود ارادیت کی جنگ لڑنے والوں کے راستے آسان بے شک نہیں ہوتے، لیکن ایسے لوگ کبھی اپنی خودمختاری، خودداری اور مقصد پر سمجھوتا نہیں کرتے۔ یاسین ملک کو 22 فروری 2019کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے کوٹ بلوال جیل، بعدازاں تہاڑ جیل منتقل کردیا گیا تھا، جہاں سے ان کی صحت بگڑنے کی خبریں سامنے آتی رہیں۔

5 اگست 2019ء کو جب بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی، تو اس وقت بھی یاسین ملک کو بھارتی فوجیوں کی ہلاکت میں ملوّث ہونے کے جھوٹے مقدمات بنا کر قید کیا ہوا تھا، جس کا فیصلہ رواں سال مئی میں ہوا۔ یاد رہے، انہیں سزائے موت دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ جس دن ان پر فردِ جرم عائد ہونا تھی، اس روز یاسین ملک نے عدالت سے کہا ’’میرے کچھ سوالات ہیں، عدالت ان کا جواب دے۔‘‘ جس پر عدالت نے ان سے کہا کہ ’’باتوں کا وقت گزر چُکا،اب یہ بتائیں کہ آپ کو جو سزا تجویز کی گئی ہے، اس پر کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ جس پر یاسین ملک نے کہا ’’مَیں عدالت سے بھیک نہیں مانگوں گا۔‘‘ اور بھارتی عدالت نے انہیں جھوٹے مقدمات میں عُمر قید کی سزا سُنا دی۔

سنڈے میگزین سے مزید