• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں قوم نے پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کی 24 ویں سالگرہ بڑے جوش و جذبے سے منائی۔ یومِ تکبیر ہمیں اس تاریخی دن کی یاد دلاتا ہے جب آج سے 24 سال قبل پاکستان نے 6 ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کا ساتواں اور اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی ملک ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس بار یوم تکبیر ایسے موقع پر آیا جب ایٹمی پروگرام کے خالق محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم میں نہیں جبکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جنہوں نے امریکی دبائو میں آئے بغیر ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ کرکے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اور دنیا بھر کے 1.8 ارب مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کردیا، اُنہیں بھی اقامہ کی بنیاد پر نااہل قرار دے کر خود ساختہ جلاوطنی پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے میرے بڑے قریبی تعلقات تھے، وہ جب بھی کراچی تشریف لاتے، میں اُن سے ضرور ملاقات کرتا اور کئی مواقع پر تووہ میرے گھر کھانے پر تشریف لاتے۔ میرا ماضی میں یہ معمول تھا کہ ہر سال یوم تکبیر کے دن ڈاکٹر صاحب کو فون کرکے اس تاریخی دن کی مبارکباد دیتا اور ان کا شکریہ ادا کرتا کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بناکر ملکی سلامتی کو یقینی بنادیا۔ یوم تکبیر کے حوالے سے آج میں کچھ ایسے حقائق قارئین سے شیئر کرنا چاہتا ہوں جو مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی معلوم ہوئے۔

بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے کئی روز گزرنے کے بعد جب پاکستان نے جواباً ایٹمی دھماکے نہیں کئے تو بھارتی وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستانیوں کو چاہئے کہ اب وہ شرم سے اپنا سر جھکا کر چلیں کیونکہ پاکستان کے ایٹمی صلاحیت کے دعوے جھوٹے ہیں۔‘‘ ایسی صورتحال میں ایک طرف امریکہ ایٹمی دھماکے کرنے پر دھمکیاں تو دوسری طرف نہ کرنے پر 5 ارب ڈالر کا لالچ دے رہا تھا جبکہ کچھ حکومتی وزراء کی رائے تھی کہ ایٹمی دھماکے کرنے کی صورت میں پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس سے ہماری معیشت مفلوج ہوجائے گی لیکن ایسی نازک صورتحال میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے امریکی دبائو میں آئے بغیر بھارت کے 5 ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں 6دھماکے کرکے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا اور بھارت کا غرور خاک میں ملادیا۔ یوم تکبیر کے تاریخی دن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ انہوں نے اس دن نماز فجر میں اللہ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی تھی کہ ’’اے اللہ! آج پاکستان کی عزت اور حفاظت تیرے ہاتھ میں ہے، میں جس مشن پر جارہا ہوں، اس میں مجھے کامیابی عطا فرما۔‘‘ ڈاکٹر عبدالقدیر کے بقول یہ ایک خفیہ مشن تھا جس کا علم اُن کی اہلیہ کے علاوہ کسی کو نہ تھا اور ایسی اطلاعات موصول ہورہی تھیں کہ کچھ اسرائیلی جنگی طیارے بھارت سے مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں، تاہم 28 مئی 1998ء کی صبح پنجاب حکومت کا ایک خصوصی طیارہ انہیں پہلے کوئٹہ لے کر گیا اور بعد ازاں وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر چاغی پہنچے جہاں 140 سے زائد سائنسدانوں، انجینئروں اور ماہرین پر مشتمل ایک ٹیم اُن کی منتظر تھی۔ ڈاکٹر صاحب کے بقول ایٹمی دھماکے کا کنٹرول روم چاغی پہاڑ سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، سہ پہر 3 بجکر 13 منٹ پر جیسے ہی پہلا ایٹمی دھماکہ کیا گیا، ایسا لگا جیسے زلزلہ آگیا ہو اور سیکنڈوں میں چاغی کا تاریخی پہاڑ پہلے سرخ اور پھر سفید ہوگیا جسے دیکھتے ہی کنٹرول روم ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا اور مجھ سمیت تمام لوگ سجدے میں گرگئے۔ اُن کے بقول پاکستان کا ایٹمی پروگرام بڑے نشیب و فراز سے گزرا ، پیپلز پارٹی دور حکومت میں جب وزیراعظم بینظیر بھٹو کو ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی تو بینظیر بھٹو نے دریافت کیا کہ کیا ہم نے نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرلی ہے تو اُنہیں بتایا گیا کہ ہمارے پاس کچھ ایٹم بم ہیں جس پر بینظیر بھٹو نے کہا کہ اب جبکہ ہم نے نیوکلیئر صلاحیت حاصل کرلی ہے تو ہمیں یورینیم کی مزید افزودگی روک دینی چاہئے کیونکہ ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پاکستان پر شدید امریکی دبائو ہے۔ ڈاکٹر قدیر کے بقول اُن کی ٹیم نے کوئی دبائو خاطر میں لائے بغیر یورینیم کی افزودگی روکنا ملکی مفاد میں بہتر نہ سمجھا اور ایٹمی پروگرام جاری رکھا جس کے باعث ہماری ایٹمی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوا اور پاکستان چند برسوں میں ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بن گیا۔

افسوس کہ اس بار یومِ تکبیر کے موقع پر محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم میں نہیں اور آج ان کی کمی بہت محسوس کی جارہی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جنرل پرویز مشرف کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے جنہوں نے اپنے دور حکومت میں امریکی خوشنودی کیلئے اُنہیں ٹی وی پر ایک خط پڑھنے پر مجبور کیا لیکن ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کیلئے سب کچھ برداشت کیا۔ افسوس کہ ہم نے اپنے دوسرے ہیروز کی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زندگی میں اُن کی قدر نہیں کی اور اُن کی خدمات کا صلہ نہ دے سکے۔ بھارت نے اپنے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالکلام کو ملک کا صدر بناکر اور ہم نے اپنے ایٹمی پروگرام کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو رُسوا کرکے اُن کے ’’احسانات‘‘ کا بدلہ چکادیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان زندگی کے آخری ایام میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا عدالتوں میں دفاع کرتے کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے اور ایک ڈکٹیٹر لوگوں کے دلوں سے اُن کی محبت پھر بھی ختم نہ کرسکا۔ گوکہ آج ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم میں نہیں لیکن رہتی دنیا تک اُن کا نام پاکستانیوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔

تازہ ترین