ہم عجیب لوگ ہیں۔ ملکی مفاد اور سنگین حالات کو پس پشت ڈال کر بہتری کی امید کر رہے ہیں۔ پوری قوم تقسیم کا شکار ہے۔ سیاسی جماعتیں مختلف گروہوں کی شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔
سیاسی قائدین کی سیاسی جنگ میں عوام کچلے جا رہے ہیں ،دوسری طرف دیکھیں تو عوام بھی اتنے سادہ ہیں کہ نہ کسی کو کسی جماعت کے منشور کا کچھ معلوم ہے نہ قائدین کے بیانات اور اقدامات کو سمجھ پا رہے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہ رہے ۔
بس جو لیڈر نے کہا اسی پرچلناہے۔ کوئی یہ بھی نہیں سوچتا کہ جس کو میں لیڈر مانتا ہوں اس کے بیانات اور اقدامات ملکی مفاد میں ہیں یا ذاتی مفادات کیلئے۔ یعنی عوام صرف ان کی مانیں اور خود کچھ نہ سوچیں۔
جہاں تک سیاسی قائدین کا تعلق ہے وہ ملکی مفادات پر ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے قائدین کے بیانات اور اقدامات سے نقصان تو ملک کا ہوتا ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے سیاسی قائدین اپنے مفادات کو ملکی و قومی مفادات قرار دیتے ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جس کو عوام سمجھ نہیں پا رہے۔
ہر حکومت کے دور میں ہر آدمی مہنگائی، معاشی تنگی اور بیروز گاری کارونا روتا ہے لیکن ووٹ بھی ان ہی سیاسی جماعتوں میں سے کسی ایک کو دیتا ہے۔ ان ہی قائدین کے جلسوں میں شریک ہوتا ہے۔ جھنڈا بھی اٹھایا ہوتا ہے۔ جلسے میں نعرے بھی لگاتا ہے۔
تالیاں بھی بجاتا ہے۔ سردی، گرمی میں قطار میں کھڑا ہو کر ووٹ بھی ان ہی میں سے کسی ایک جماعت کو دیتا ہے۔ بلکہ دیہی علاقوں میں تو اکثر لڑائی جھگڑے اور مارکٹائی اور فائرنگ تک کے واقعات اور آپس میں ناراضگیاں و دشمنیاں بھی بنتی ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اسی لیڈر نے تومنتخب ہو کر ہماری زندگیاں اجیرن کرنی ہیں اور ایسے مفاد پرست لیڈران کی اس سادہ لوحی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
اب تو سیاست اس نہج پر پہنچا دی گئی ہے کہ خود سیاستدانوں کی عزتیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ ہم نے گزشتہ کچھ ماہ میں دیکھا کہ ایسے بیانات دیئے گئے جن کی ہماری سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر کہا گیا کہ پارٹی کا جو رکن پارلیمنٹ میری ہدایت پر نہیں چلےگا اس کے گھر کا گھیرائو کیا جائے گا اور ایسا کیا بھی گیا، یہ بھی کہا گیا کہ ایسے رکن پارلیمنٹ کے بچوں کی شادیاں نہیں ہونگی نہ اس کے بچے اسکول جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ ایک دوسرے کو چور اور لٹیرا کہنا توگزشتہ کئی برس سے جاری ہے۔ اب بات اس سے بھی آگے جا چکی ہے۔
ایک حادثاتی سیاسی قائد نے اپنے دور حادثاتی اقتدار میں نہ صرف سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیے رکھا کہ ان کو ذلیل کرنے اور عدالتوں میں رسوا کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا بلکہ عوام کی زندگی بھی تنگ کئے رکھی۔ اب وہی لیڈر کہتاہےکہ اگر اس کو دوبارہ اقتدار نہ سونپا گیا تو ملک کے تین ٹکڑے ہو جائیں گے۔
پاکستان کی فوج تباہ ہو جائے گی اور پاکستان ایٹمی قوت سے محروم ہو جائے گا۔ خاکم بدہن! یہ کونسی سیاست ہے اور یہ کونسی محب الوطنی ہے۔ اس میں کہاں ملکی و قومی مفادات پوشیدہ ہے۔ ہر محبِ وطن پاکستانی نہ صرف اس سوچ اور بیانات پر حیران ہے بلکہ زیادہ حیرانی اس پر بھی ہے کہ ابھی تک ایسے بیانات پر حکومتی اور ریاستی اقدامات کیوں نظر نہیں آرہے؟ اگر ایسے بیانات دینا کوئی بڑی بات نہیں تو ماضی قریب میں کسی نے ایسے بیانات نہیں دیے تھے اور اس حد تک کوئی نہیں گیا تھا۔ پھر اکبر بگٹی کو کیوں قتل کیا گیا۔
ولی خان کو غدار کیوں کہا گیا ۔ عطاء اللہ مینگل اور دیگر اہم بلوچ قائدین کو ملک دشمن کیوں سمجھا گیا۔ حال ہی میں علی وزیر پابند سلاسل کیوں ہے؟ پھر تو ان سب سے جن میں اکثر اب اس دنیا میں نہیں ہیں سب سے معافی مانگنی چاہیے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں بلوچستان سے معافی مانگی اور صوبہ سرحد کو خیبر پختو نخواکو نام دیا ، کیا یہ بھی سب غلط کیا گیا؟ ایسا نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق اب اقدامات ہوں گے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ جو اپنے صوبے کے لئے آواز اٹھائے وہ غدار قرار پائے اور جو ملک کو توڑنے ، پاک فوج کی تباہی اور ایٹمی پروگرام کے خاتمے کی باتیں کرے،خونی انقلاب کے حوالے سے ہرزہ سرائی کرے، گلی کوچوں میں خون بہانے اور ملک میں خانہ جنگی کی باتیں کرے اور ریاست خاموش رہے۔
حکومت کچھ نہ کرے۔ اب معاشی بربادی کے قریب ملک میں یہ اقرار بھی سامنے آیا کہ سابقہ حکمران کو جب چار ماہ قبل یہ معلوم ہوا کہ اب وہ اقتدار کے سنگھاسن پر مزید بیٹھا نہیں رہ سکتا تو اس نے ملک کومعاشی تباہی سے دو چار کرنے کے لئے باروری سرنگیں بچھا دیں۔
اس اعتراف کو اگر مذکورہ بالا بیانات کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو ساری بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ بیانات بلاوجہ نہیں دیئے گئے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سابقہ حکمران کو یقین ہے کہ وہ عوامی حمایت سے تو پھر اقتدار حاصل نہیں کر سکتے البتہ انہیں زبردستی اقتدار پر قابض کرایا جائے تو ممکن ہے.
ذرائع کے مطابق اب مگرایسا کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔ اورنہ حکومت ایسے باغیانہ بیانات پر خاموش رہے گی۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ریاست اب قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔ پاک فوج اس ملک کا محافظ ادارہ ہے.
اس ادارے میں تفریق پیدا کرنے اور ادارےکی اعلیٰ قیادت کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کرنے والوں سے قانون خود نمٹے گا، ذرائع کے مطابق سابقہ دور میں کرپشن کے میگا اسکینڈلز کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت سمجھتی ہے کہ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے اور اس ضمن میں حکومتی اقدامات جلد سامنے آنے والے ہیں۔