• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم کا تعلق شعور سے ہے اور شعور تعلیم سے آتا ہے۔ پاکستان میں صورت حال اس کے برعکس ہوتی جارہی ہے ۔ ملک کی دگرگوں معاشی صورتحال نے بچے بچے کو تعلیم کے بغیر ہی یہ شعور بخش دیا ہے کہ وہ روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور نامساعد حالات کو دیکھتے ہوئے یہ پیش گوئی کرسکتا ہے کہ ہمارے ملک کا مستقبل کیا ہوگا اور اگلے چند سال میں ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہونگے۔

قیام پاکستان کے تین ماہ بعد ، نومبر 1947 ءمیں آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ وزیر تعلیم فضل الرحمن نے روحانی ، معاشرتی اور پیشہ ورانہ کی بنیاد پر سہ رخی تعلیمی اصلاحات کی تجویز پیش کی۔ 1959 میں ، قومی کمیشن برائے تعلیم قائم کیا گیا اور ایک تعلیمی ایکٹ منظور ہوا۔ اس سے دسویں جماعت تک کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دی جاسکتی تھی اور سفارشات میں کردار سازی کا ایک اہم مقصد بھی شامل تھا۔ 1970 ءمیں ہم نے سائنس اور ٹیکنالوجی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ نظریاتی رجحان پربھی زور دینے کی نئی تعلیمی پالیسی متعارف کرائی ۔ 1972 ءمیں بھٹو نے قومی تعلیمی پالیسی کو چار مقاصدنظریہ پاکستان ، عالمی تعلیم ، تعلیم میں مساوات اور شخصیت کی نشوونماکے ساتھ پیش کیا۔ تعلیم میں مساوات پیدا کرنے کے لئے نجی اور سرکاری اسکولوں کو مفت اور یکساں تعلیم مہیا کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

جتنا نقصان پی ٹی آئی کی حکومت نے شعبہ تعلیم اور معاشی شعبے کو اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں پہنچایا وہ تاریخی اس لحاظ سے ہے کہ کورونا کے جلو میں بچوں کو دھڑا دھڑ اگلی کلاس میں دھکیل دیا گیا آن لائن امتحانات بھی ایک خوبصورت ڈھونگ اور ڈرامہ تھے وہ یوں کہ بعض بچوں نے سو میں سے سو نمبرحاصل کرلئے اور وکٹری اسٹینڈ کو بڑھانا پڑا جہاں وکٹری اسٹینڈ پر ایک بچہ کھڑا ہوتا تھا وہاں چار پانچ نظر آئے۔ اب بچے نویں اور دسویں کے امتحانات دے رہے ہیں اور رو رہے ہیں کہ سارا سال ہمیں پڑھایا ہی نہیں گیا۔

پانچ چھ سال قبل کہیں پڑھا تھا کہ ہمارا ملک، جو خواندگی کی شرح کے لحاظ سے دنیا کے 120 ممالک میں 113 ویں نمبر پر ہے،شرح خواندگی میں بنگلہ دیش نے بھی پاکستان کو پیچھے چھوڑ دیا، جنوبی ایشیا کے 9 ممالک میں پاکستان کا 8 واں نمبر ہے۔ پاکستان تعلیمی میدان میں صرف افغانستان سے بہتر ہے۔دوسری طرف سابق وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے سینیٹ اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ ملک کی آبادی میں اضافے اور بہتر اقدامات نہ کیے جانے کی وجہ سے شرح خواندگی گزشتہ دو سال کے عرصے کے دوران کم ہو کر 58 فیصد ہوگئی۔ خواندہ کی تعریف یہ بیان کی گئی کہ جو اخبار پڑھ سکے اور کسی بھی زبان میں سادہ سا خط تحریر کرسکے وہ خواندہ ہے ۔ آج حال یہ ہے کہ خط لکھنایابھیجنا کب کا مفقود ہو چکا ہے

پاکستان میں حکومت بعد میں کوئی فیصلہ کرتی ہے اڑتی اڑتی چند لائنوں سے پوری خبر منٹوں میں ساری دنیا میں وائرل ہوجاتی ہے ۔ کل ہی کی بات ہے کہ پٹرول کا ”اسکائی لیب پر“ اچانک گرنے کا شور مچا کہ کراچی ،لاہور ، اسلام آباد میں پٹرول پمپوں پر قطاریں ایسے لگ گئیں جیسے ماضی میں سینما ہالز کے باہر ٹکٹ لینے کیلئے قطار یں لگتی تھیں ، ”نئی سرکار “ نے فی الفور تردید کردی کہ پٹرول کے پرتھوی میزائل کا ابھی ملبہ نہیں گرا،ہاں ”شنید“ ہے کہ پندرہ جون کے بعد پچیس روپےتک پٹرول مزید مہنگا ہوسکتا ہے تاکہ ملک کی سسکتی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوسکے ۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اب تو مہنگائی کا نیا نام ’مشکل فیصلے “ میں بدل دیا گیا ہے۔ نئی بوتل میں پرانی شراب ، آٹے دال کا بھائو پہلے محاوروں میں معلوم ہوتا تھا اب عملاً مارکیٹ جاکر بخوبی ہوجاتا ہے ۔ آٹا ، گھی ،خوردنی تیل ،ہر قسم کی دالیں، سبزیاں ،پھل سب دسترس سے باہر ، گھی تو اب اڑھائی ڈالر میں ملتا ہے آٹا ایک ڈالر میں ہزار گرام ،ہر قسم کی دال پونے تین سو روپے کلو ، دودھ پہلے خالص ہوتا تھا اب پانی کی بہتات زدہ وہ بھی ڈیڑھ سو روپے میں لٹر۔

بات تعلیم کی ہورہی تھی کہاں نکل گئی ۔پاکستان میں تعلیم کو نجی سرمایہ کاروں کے ہتھے چڑھا دیا گیا ہے جو تعلیم کو بھی ایک منفعت بخش پروڈکٹ سمجھتے ہیں موسم گرما کی تعطیلات کیا ہوئیں کہ ان دو اڑھائی ماہ کی والدین سے یکمشت اور بعض علاقوں میں ہر ماہ باقاعدگی سے فیس وصولی کے واؤچرز دیئے جارہے ہیں ۔ اسکول کوئی بھی ہوں ہر جگہ بے چاری اردو زبان کی ٹیچرز پس رہی ہیں، مشاہرے اتنے کم ہیں کہ ایک شاعر کو بھی جیسے مشاعرے میں” مشاہرہ “ کا لفافہ دان کیا جاتا ہے۔ تعلیم ایسا شعبہ بن گیا ہے کہ جیسے اسکول بازار میں بیچ کر ماہانہ اور سالانہ منافع کمایا جاتا ہے۔

تازہ ترین