• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

یہ ا یک تاریخی اور ابدی حقیقت ہے کہ محسنِ انسانیت، ہادیٔ اعظم، حضرت محمدﷺ کے ظہورِ قُدسی سے اِک عالمِ نو طلوع ہوا، انسانیت کی صبحِ سعادت کا آغاز ہوا اور ایک ایسا انقلاب رُونما ہوا، جس نے انسانی عزّت و وقار بحال کرکے دنیا میں امن و سلامتی کو عام کیا، تو انسانیت کو توحید کے نور سے منوّر کرکے کفر و شرک، ظلمت و جہالت کے اندھیروں، تاریکیوں کو دُور کردیا۔ 

خورشید احمد گیلانی مرحوم کے الفاظ میں’’اس سے قبل انسان اس قدر پستی کا شکار تھا کہ ہر اُبھرتی شئے کے سامنے جُھک جاتا۔ اِتنا خوف زدہ تھا کہ ہر ہیبت زدہ شئے کی بندگی پر آمادہ ہوجاتا۔ اِتنا سہما ہوا تھا کہ ہر ایک کا زور اُس پر چلتا تھا۔ وہ ظلم، جہالت، کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔

جنگ و جدل اور ظلم و سفّاکی اس کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ اُس تاریک دَور میں انسان اِتنا پَست اور گھٹا ہوا تھا کہ کائنات میں سانس لیتے ہوئے خوف محسوس کرتا۔ ظلم و استحصال اور طبقاتی و نسلی منافرت میں اِتنا جکڑا ہوا تھا کہ ہر نئی زنجیر کو اپنے لیے تقدیر سمجھتا تھا‘‘۔ محسنِ انسانیت حضرت محمد ﷺ نے دنیائے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا۔ اس کی عزّت و آبرو بحال کی، اس کے شرف و منزلت اور تکریم کا اعلان کیا۔ ظلم و جبر، استحصال، طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو حرّیت، عزّت و وقار اور مساوات کا پیغام دیا۔

آپﷺ نے انسان کو بتایا کہ تیری حُرمت کعبے سے افضل ہے۔ تُو زمین پر اللہ کا نائب اور اُس کا خلیفہ ہے۔ تُو مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات ہے۔ یہ دنیا، کائنات اور قدرت کے یہ مناظر تیرے لیے ہیں اور تُو اپنے پروردگار کی بندگی کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اِس طرح آپﷺ نے انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی اور صراطِ مستقیم پر گام زَن کیا۔ اسے بندگی کا شعور، خود آگہی کا مثالی درس دیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انسان، جو لاعلمی اور خود فریبی کی بنا پر پہلے مٹّی کے بُتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا تھا، بعدازاں پہاڑ اُس کی ہیبت سے رائی بنے۔ جو انسان، پتھر کی مورتیوں، اَن جانی قوّتوں کے خوف سے جاں بلب تھا، صحرا و دریا اُس کی ٹھوکر سے دونیم ہوئے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات کا اعتبار ہو یا انسانیت کی تکریم، اس کی عزّت و وقار کی بحالی ہو یا شرف و منزلت اور دین و دنیا میں اس کی کام یابی، علم کی اشاعت ہو یا تہذیب و تمّدن کا عروج، یہ سب کچھ حضرت محمد ﷺ کے دَم قدم سے ہے۔ یہ عالمِ انسانیت پر محسنِ انسانیتﷺ کے وہ احسانات ہیں، جنہیں تاریخِ انسانیت کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آپﷺ عالمِ انسانیت کی آبرو اور وقار ہیں۔ 

آپﷺ انسانیت کی آبرو بڑھانے اور اسے دین کی اس روشن و درخشاں راہ پر گام زن کرنے کے لیے تشریف لائے، جو صراطِ مستقیم اور دین و دنیا کی کام یابی و سرفرازی کا راستہ ہے۔ ایسا روشن راستہ، جس میں کہیں ظلمت اور تاریکی کا گزر نہیں اور یہی راستہ انسانیت کی فلاح اور نجات کی کلید ہے۔اِس تاریخی حقیقت کے متعلق مولانا سیّد ابوالحسن علی ندویؒ کیا خُوب لکھتے ہیں’’محسنِ انسانیتﷺ نے انسانیت کو نئی زندگی، نیا حوصلہ، نئی طاقت، عزّت و عظمت اور نئی منزلِ سفر عطا کی۔آپﷺ کی آمد سے تہذیب و تمّدن، علم و فن، روحانیت و اخلاص اور تعمیرِ انسانیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔

انسانی معاشرے کو ایک بے بہا دولت عطا ہوئی، انسانیت کو نئی زندگی ملی، عدل و انصاف کا دَور دورہ ہوا،کم زوروں میں طاقت وَروں سے اپنا حق وصول کرنے کی ہمّت و طاقت پیدا ہوئی۔ ہر سُو الفت و محبّت کی خوش بُو پھیل گئی۔ ایمان و یقین کی ہوائیں چلنے لگیں۔ انسانی قلوب نیکی اور بھلائی کی طرف ایسے کھنچنے لگے، جیسے مقناطیس کی طرف لوہے کے ٹکڑے کھنچتے چلے جاتے ہیں۔ آپﷺ نے انسانیت کی تعمیر، فلاح اور کردار سازی میں ناقابلِ فراموش کردار ادا کیا‘‘۔ (بحوالہ مقالاتِ مفکرِ اسلام، مولانا سیّد ابوالحسن علی ندوی،ص 206)

مغرب کا نام ور مؤرخ، جان ولیم ڈریپر یورپ کی ذہنی و علمی تاریخ کے ضمن میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے’’ جسٹی نین کی موت کے چار سال بعد سرزمینِ عرب کے شہر مکّے میں وہ ہستیﷺ پیدا ہوئی، جس نے نسلِ انسانی پر سب سے زیادہ اثر ڈالا‘‘۔ ان تمام احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ پوری دنیائے انسانیت بلاتفریقِ مذہب و ملّت، آپﷺ کو اپنا ہادی و رہبر، نجات دہندہ اور محسن تسلیم کرے۔ آپﷺ کے ادب و احترام اور عزّت و توقیر کے تقاضے پورے کرے۔ آپﷺ کی عظمت و ناموس اور شرف و بزرگی کو سمجھے کہ آپﷺ انسانیت کے محسنِ اعظم ہیں۔ یہ انسانیت پر ایک ایسا قرض ہے، جو اس پر ہمیشہ رہے گا۔

یہ بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ آپﷺ کی سب سے نمایاں خصوصیت و امتیاز آپﷺ کا امام الانبیاء، سیّد المرسلین اور خاتم النّبیین ہونا ہے۔ آپﷺ کی دعوت، آپﷺ کا پیغام اور دینِ اسلام آفاقی اور کائناتی ہیں۔ آپﷺ بنی نوعِ آدم اور پورے عالمِ انس و جن کے لیے ہادیٔ اعظم اور خاتم الانبیاء بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔ آپﷺ پر دین کی تکمیل کردی گئی، اب پوری انسانیت آپﷺ کی امّت اور آپﷺ پوری انسانیت کے بشیر و نذیر اور نجات دہندہ ہیں۔

آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’مَیں کالے اور گورے (مشرق و مغرب) تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ (احمد بن حنبل، المسند 416/4)ایک موقعے پر آپﷺ نے اپنی پیغمبرانہ خصوصیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا’’مَیں تمام انسانوں کی طرف (نبی بناکر) بھیجا گیا ہوں، حالاں کہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے، وہ خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے‘‘۔(حوالہ سابقہ)آپﷺ دعائے خلیلؑ، تمنائے کلیمؑ اور نوید عیسیٰؑ ہیں۔حضرت محمدﷺ وہ عظیم المرتبت پیغمبر ہیں، جن کی نبوّت، عزّت و توقیر، ایمان و اعانت کا اللہ نے تمام انبیائے کرامؑ سے عہد لیا تھا۔

اس لحاظ سے تمام الہامی مذاہب اور پوری انسانیت کا یہ دینی اور انسانی فریضہ ہے کہ وہ آپﷺ کی نبوّت کا اعتراف کریں۔ آپﷺ کی عزّت و توقیر اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں۔ ارشادِ ربّانی ہے’’اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور دانائی عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی نبی (حضرت محمدﷺ) آئیں، جو تمہاری کتاب کی تصدیق کریں، تو تمہیں ضرور ان پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور ان کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ کیا تم نے اس کا اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمّہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا)، تو اُنہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا۔ (اللہ نے) فرمایا کہ تم اس عہد و پیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں‘‘۔ (سورۂ آل عمران؍ 81)اللہ تعالیٰ سے یہ عہد تمام انبیائے کرامؑ نے کیا تھا، نتیجے کے طور پر ہر نبی کی امّت کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اس عہد کی توثیق و تکمیل کرے، بالخصوص یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس ابدی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے آپﷺ کی نبوّت پر ایمان لائیں۔

تورات اور انجیل میں رسول اللہﷺ کا بطورِ خاص تذکرہ کرکے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ ان میں سے جو رسول اللہﷺ کی نبوّت پر ایمان لاتے، آپﷺ کی مدد اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہیں، وہی درحقیقت فلاح پانے والے ہیں۔ ارشادِ ربّانی ہے’’وہ جو (محمد رسول اللہﷺ) کی جو نبی امّی ہیں، پیروی کرتے ہیں، جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے اور بُرے کاموں سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سَر) پر (اور گلے میں) تھے، اُتارتے ہیں، تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور اُنہیں مدد دی اورجو نُور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی پیروی کرتے ہیں، وہی مُراد پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف؍ 157,156) 

علّامہ سیّد سلیمان ندویؒ اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں’’ان آیات میں صاف ظاہر کردیا گیا کہ گزشتہ مذاہب کے پیروئوں کے لیے محمد رسول اللہﷺ پر ایمان لانا اِس لیے ضروری ہے کہ وہ دینِ خالص جو انسانی تصرّفات اور آمیزشوں سے مکدّر ہوگیا تھا، وہ سابقہ آسمانی کُتب کی پیش گوئیوں کے مطابق آپﷺ کے ذریعے پھر سے نِکھارا گیا۔

نیز، آپﷺ عالم گیر پیغمبر بناکر مبعوث فرمائے گئے، اس لیے ہدایتِ تامّہ، نبوّتِ عمومی، نجاتِ کامل اور فلاحِ عام اب صرف وحیِ محمدیؐ کے اندر محدود ہے۔‘‘(سیّد سلیمان ندوی/سیرت النبیؐ 403/4)قرآنِ پاک کے علاوہ کسی آسمانی صحیفے نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ مکمل ہے اور اُس کے ذریعے دین تکمیل کو پہنچ گیا، بلکہ گزشتہ آسمانی مذاہب میں سے ہر ایک نے یہی کہا کہ ایک نبی(حضرت محمدﷺ) آئیں گے، جو دین کی تکمیل کریں گے، اس کا تذکرہ تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہے۔ ( تورات / استثناء۔ 18، 19، انجیل/ یوحنا ۔ 14، 26 اور یوحنا 8/16 ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں)۔ ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ختمی مرتبت، محسنِ انسانیت، حضرت محمدﷺ کی نبوّت، آپﷺ کا پیغام اور آپؐ کا دین عالم گیر ہے۔ تمام الہامی مذاہب کے پیروکاروں پر بطور خاص آپﷺ پر ایمان لانا، آپﷺ کی عزّت و توقیر اور ادب و احترام فرض ہے۔

آپﷺ کی تعلیمات اور آپﷺ کی عظیم المرتبت شخصیّت پوری انسانیت کی عالمی اور مشترکہ میراث ہیں۔ تمام انبیائے کرامؑ نے اپنی اُمّتوں کو آپﷺ کی عزّت و عظمت، ادب و احترام، اعانت و نصرت اور آپؐ کی نبوّت پر ایمان لانے کی تعلیم دی۔ یہ درحقیقت اللہ عزّوجل کا تمام انبیائے کرامؑ سے اور انبیائے کرامؑ کا اپنی اُمّتوں سے وہ میثاق تھا، جسے تورات، انجیل اور قرآنِ کریم نے پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر مذاہب، جنہیں غیر الہامی مذاہب سے تعبیر کیا جاتا ہے، اُن کی مقدّس کتابیں بھی ایک نجات دہندہ کی آمد اور ایک عظیم المرتبت ہستی کے ظہورِ قدسی کے متعلق شہادتیں دیتی رہی ہیں۔ یہ تاریخی حقائق آج بھی اُن کی مقدّس کتابوں میں موجود ہیں۔

علّامہ نبہانیؒ فرماتے ہیں ’’اوجب علینا تعظیمہ وتوقیرہ ونصرتہ ومحبتہ والادب معہ‘‘(اسمٰعیل بن یوسف النبہانی/جواہر البحارفی فضائل النبیؐ المختار/251/3 مطبوعہ قاہرہ)یعنی’’اللہ نے ہم (مسلمانوں) پر رسول اللہﷺ کی عزّت و توقیر، تعظیم و تکریم،اعانت و نصرت، محبّت اور ادب و احترام کو لازم قرار دیا ہے۔‘‘علّامہ شیخ اسمٰعیل حنفیؒ تحریر فرماتے ہیں’’انّہ یجب علی الامّۃ ان یُّعظّموہ علیہ الصّلاۃ والسلام و یوقّروہ فی جمیع الاحوال فی حال حیاتہ وبعد وفاتہ،فانّہ بقدر ازدیاد تعظیمہ وتوقیرہ فی القلوب یزدادُ نُور الایمان‘‘(تفسیر روح البیان 216/7، مکتبہ اسلامیہ،کوئٹہ)’’اُمّت پر واجب ہے کہ وہ رسولِ اکرمﷺ کی تعظیم و توقیر کو بجالائے، تمام حالات میں آپﷺ کی حیاتِ طیّبہ میں بھی اور آپﷺ کے وصال کے بعد بھی۔ کیوں کہ دِلوں میں جس قدر رسول اللہﷺ کی تعظیم و توقیر میں اضافہ ہوگا، اتنا ہی نورِ ایمان میں اضافہ ہوگا۔‘‘امام ابن تیمیہؒ اپنی معرکۃ الآراء کتاب’’ الصّارمُ المسلُول علیٰ شاتم الرّسول‘‘ میں رقم طراز ہیں’’فقیام المدح و الثناء علیہ و التعظیم و التوقیرلہ،قیام الدین کلّہ،وسقوط ذٰلک سقوط الدّین کلّہ‘‘۔(ص211،مطبوعہ قاہرہ)’’ آپﷺ ہی وہ عظیم المرتبت پیغمبر اور نجات دہندہ و محسنِ انسانیت ہیں، جن کی بدولت انسانیت کو دین ودنیا کی فلاح اور آخرت میں نجات کی راہ ملی۔ ‘‘

آپﷺ کی شخصی عظمت پر مسلم ہی نہیں، دنیا بھر کے مشاہیر اور غیر مسلم دانش ور بھی متّحد و متّفق ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ ہی پوری انسانیت میں سب سے برتر، سب سے زیادہ لائقِ تکریم ہیں، یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے، جس کا اعتراف غیر مسلم دانش وروں کو بھی ہے۔ مشہور ہندو شاعر، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کیا خُوب کہتے ہیں ؎عشق ہوجائے کسی سے، کوئی چارہ تو نہیں…صرف مسلم کا محمدﷺ پہ اجارہ تو نہیں۔‘‘شیش چندر سکسینہ کہتے ہیں؎یہ ذاتِ مقدّس تو ہر انساں کو ہے محبوب…مسلم ہی نہیں وابستۂ دامانِ محمدؐ۔‘‘معروف امریکی دانش ور، ڈاکٹر میخائیل ایچ ہارٹ اور اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی مشہور و معروف شخصیات کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا، جس کے بعد اُنہوں نے ’’The 100‘‘ نامی کتاب لکھی۔

اُن کے بقول اس کتاب میں انسانی تاریخ کی ایک سو اعلیٰ ترین شخصیات کے حالات درج ہیں، جنہوں نے اُن کے نزدیک انسانی تاریخ پر نمایاں ترین اثرات ڈالے۔ اس کتاب میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺکے تذکرے کو پہلے نمبر پر رکھا گیا۔ موصوف رقم طراز ہے’’پوری انسانی تاریخ میں محمدﷺ وہ واحد شخصیّت ہیں، جو دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے غیر معمولی طور پر کام یاب و کام ران اور سرفراز ٹھہرے۔‘‘فرانسیسی محقّق اور دانش ور، ڈاکٹر گستا ولی بان ’’تمدّنِ عرب‘‘ میں لکھتا ہے’’اگر اشخاص کی زندگی، بُزرگی اور عظمت کا اندازہ اُن کے کارناموں سے لگایا جاسکتا ہے، تو ہم لکھیں گے کہ حضرت محمدﷺ انسانی تاریخ میں سب سے عظیم شخصیّت گزرے ہیں۔‘‘

ہندو سیرت نگار، سوامی لکشمن پرشاد اپنی کتاب ’’عرب کا چاندؐ‘‘ میں رقم طراز ہیں’’دنیا کی اُن جلیل القدر ہستیوں میں، جن کے اسمائے گرامی ہاتھ کی اُنگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں، سرورِ کائنات، حضرت محمدﷺ کو کئی اعتبار سے ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔‘‘

اظہارِ رائے کی آزادی کے نام پر شانِ رسالتؐ میں گستاخی اسلام، مُسلم اُمّہ اور مہذّب انسانوں کی دل آزاری انتہائی گھنائونا اقدام اور حد درجہ ناقابلِ برداشت عمل ہے۔ یہ دین و دنیا دونوں کے آئین سے غدّاری، پروردگارِ عالم کے میثاق سے انحراف، دنیا میں بسنے والے ایک ارب 90 کروڑ مسلمانوں اور دنیا کے مہذّب انسانوں کے عقیدے، مذہب اور پوری انسانیت کی توہین ہے۔ جس کا کوئی جواز اور کوئی عذر قبول نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایسا بدترین جرم ہے، جس کی تائید اور اعانت بھی بدترین جرم سے کم نہیں۔