• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا نہ صرف معاشی بدحالی کا شکار ہے بلکہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کورونا کے بعد ایک اور خطرناک بحران آنے والا ہے اور وہ ہے قحط کا بحران۔ یوکرین پر روسی حملے اور چڑھائی کے بعد یورپ توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔کئی ممالک میں گیس کی قلت ہے۔ اس جنگ نے معاشی بحران کی صورت میں پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ وبائیں، خشک سالی، سیلاب، زلزلے، قدرتی آفات اورعذاب الٰہی ہیں۔ لیکن نظام قدرت دیکھئے کہ ان آفات کیلئے اکثر و بیشتر حالات انسان خود پیدا کرتے ہیں، دنیا پر نظر ڈالیں تو انسان ذاتی دنیاوی مفادات کیلئے دوسرے انسان کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ یہ سب موجودہ دور کے انسانوں کیلئے باعث عبرت ہے لیکن بدقسمتی سے انسان عبرت حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتا۔ یہ تو واضح ہے کہ تمام آفات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ عذاب ہوتے ہیں اور یہ اس وقت مختلف صورتوں میں نازل کر دیئے جاتے ہیں،جب انسان خالق و مالک کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے چند روزہ دنیاوی زندگی میں اپنی پسند و مفادات کو ترجیح دینے لگتے ہیں اور نیکی کے بجائے برائیوں میں لذت کو راحت کا ذریعہ سمجھنے لگتے ہیں۔اور اس سوچ کی بنیاد پر برائیوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔

آج انسان اس خطرناک لائن تک پہنچ چکا ہے۔ جس کی واضح نشاندہی احادیث مبارکہ میں کی گئی ہے کہ ’’جب لوگ برائی کو برائی نہیں سمجھیں گے’’ہم دنیا کی کیا بات کریں خودوطن عزیز میں ایسی ایسی برائیاں ایجاد کی گئی ہیںجن کا پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ لیکن نظام قانون کی بندشوں نے قاضیوں کے ہاتھ باندھےہوئے ہیں۔اگر اغوا یا بہلا پھسلا کر معصوم بچے بچیوں سے زیادتی کی جاتی ہے تو اس کیلئے اسلامی سزائیں موجود ہیں۔ اس پر بھی صبر نہیں کیا جاتا بلکہ زیادتی کے بعد قتل کرکے لاش کو ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ناجائز بچے پیدا کر کے ان کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ قبر سے جوان عورت کی لاش نکال کربے حرمتی کی جاتی ہے۔ قبر سے لاش کے بال کاٹ کر فروخت کئے جانے کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ملاوٹ جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ’’ ملاوٹ کرنے اور ناپ تول میں کمی کرنے والے ہم میں سے نہیں ہیں ۔‘‘ گو کہ وہ مسلمان ہی نہیں رہتے۔ سود کو قرآن کریم نے اللہ رب العزت کے ساتھ کھلی جنگ قرار دیاہے۔ ایک حدیث پاک ہے کہ یہ قرب قیامت کی نشانیوں میں سے بڑی نشانی ہو گی کہ فحاشی گھر گھر پھیل جائے گی۔ آج موبائل فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے اس نشانی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ قیامت سے پہلے اس دنیا میں نفسا نفسی کا دور دورہ ہو جائے گا۔ اسکے علاوہ شاید ہی کوئی گناہ ہو جس سے ہم مجموعی یا انفرادی طور پر محفوظ ہوں۔ یہ تمام گناہ آج کل عام ہیں اور کوئی ان کو برا کہنا بھی چاہے تو نہیں کہہ سکتا کہ باعث ناراضی اور موجب لڑائی و دشمنی بن جاتا ہے۔ تو سوچئے کہ کیا ہم طرح طرح کے عذاب الٰہی کو دعوت نہیں دیتے۔کیا یوکرین پر روسی چڑھائی دنیاوی مفاد کی جنگ نہیں ہے۔ کیا ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل نہیں کہا گیا ہے۔ کیا مقبوضہ کشمیر، بھارت اور فلسطین کے نہتے لوگ ،مسلمان نہیں ہیں۔ مذہب سے قطع نظر انسانیت کو تو دنیا کا ہر مذہب تسلیم کرتا اور ہر انسان کو جینے کا برابر حق دیتا ہے۔ جب اللہ عظیم و برتر کاعذاب آتا ہے تو اس میں بلا تفریق مذہب و رنگ و نسل سب انسان مبتلا ہو جاتے ہیں، اس ملک یا علاقے کے رہنے والے جو عذاب کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے لیکن کم ہم بھی نہیں کرتے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی، ہوش ناخن لینے چاہئیں۔ مسلمانوں کو برائی کے راستے چھوڑ کر صراط مستقیم پر چلنا اور گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے۔ اور گناہوں پر اللہ رحیم و کریم سے معافی مانگنی چاہئے۔دنیا کے مسلمانوں کو متحد ہو کر مظلوم و محبوس مسلمانوں کی کھل کر مدد کرنی چاہئے ورنہ مسلم حکمرانوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ روز قیامت اپنی مجرمانہ خاموشیوں کا کیا جواب دیں گے۔ اس روز جس کو خود اللہ عظیم نے بہت سخت دن قرار فرمایا ہے ۔ پاکستان میں خدانخواستہ قحط آیا تو کیا ہو گا ؟دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو ممکنہ قحط کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ پاکستان کے حکمرانوں اور اپوزیشن رہنمائوں کو سوچنا چاہئے کہ اس وقت پاکستان نہایت مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں کہ اس مشکل دور کے ذمہ دار بھی یہی فریق ہیں۔ ان میں سےحکومت کسی کی بھی ہو اور اپوزیشن میںکوئی بھی ہو اس حمام میں سب بے لباس ہیں۔ ہماری اخلاقی پستی کا اندازہ لگائیں کہ ایف اے ٹی ایف کے مسئلے کو پاک فوج کی اعلیٰ قیادت اور ان کی تشکیل کردہ ٹیم کی وجہ سے کامیابی تک پہنچنا نصیب ہوا لیکن اپوزیشن اور حکومت اس کا سہرا اپنے اپنے سر سجانے کی کوششوں میں لگی ہیں۔ جبکہ ابھی فائنل بھی نہیں ہوا ہے لیکن قوی امید ہے کہ پاکستان اکتوبر میں گرے لسٹ سے نکل جائے گا۔ اس کے علاوہ ملک شدید اور بدترین مہنگائی کی لپیٹ میں ہے، بجائے اس کے کہ دونوں فریق یعنی حکومت اور اپوزیشن مل کر اس بدنصیب قوم کو اس عذاب سے نکالنے کی کوششیں کریں وہ اس کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں۔

یہ ہے اس ملک اور قوم کے ساتھ خلوص کا اظہار، گزشتہ کالم میں آئندہ چند دنوں میں کچھ سامنے آنے کا ذکر کیا تھا۔ عثمان بزدار کیخلاف مقدمات اسکا نقطہ آغاز ہے۔ اب مزید اہم مقدمات اور گرفتاریوں کی خبریں آ سکتی ہیں۔ جو بھی ہوگا، پکا ہوگا۔ریاست مقدم ہے اور مضبوط نظام اور حکومت ضروری ہے، بس انتظار کریں۔

تازہ ترین