فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے شکنجے سے نکلنے کی پاکستانی کوششیں بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے گرے لسٹ سے نکلنے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا تاہم حکومتی اور عسکری اداروں کے سربراہان کی جانب سے مبارکباد دینے کے بعد یہ محسوس ہوتا ہے کہ قیادت کو اس بات کا پختہ یقین ہے کہ پاکستان گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہوجائیگا۔
وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری،چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس کامیابی پر قوم کو مبارکباد دی ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اس حوالے سے کریڈٹ لینے کا اعلان کیا ہے۔
نیکٹا کے سابق سربراہ احسان غنی، جو پولیس گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، کے ایک انٹرویو کے بعد اس بحث میں تیزی آئی کہ اس بحرانی دور میں سیاسی قیادت اور عسکری قیادت کے رویوں میں تفاوت کیوں تھا۔
ان کے مطابق بد اعتمادی کا یہ عالم تھاکہ جب پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کو بتایا کہ ہم نے نیشنل ٹاسک فورس تشکیل دی ہے تو انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہم اس مرتبہ بھی جھوٹ بول رہے ہیں ہم سے میٹنگ کے منٹس طلب کیے اور خود آ کر جائزہ بھی لیا۔
ان حالات میں پاکستان کے تمام ادارے یکجا ہوئے، اسلئے میں تو یہ کہوں گا کہ یہ پوری پاکستانی قوم اور تمام حکومتی اداروں کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ تاہم کچھ اقدامات ایسے ہیں جن کی انجام دہی پاکستان کے عسکری اداروں کے عملی تعاون کے بغیر ممکن نہ تھی۔
اس تعاون کی تفصیلات سے قبل یہ عرض کرنا بھی مناسب ہے پاکستان 2008ء سے ایف اے ٹی ایف کی مانیٹرنگ لسٹ میں شامل تھا۔ 2010 کے بعد بھی ایف اے ٹی ایف انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا۔ جنوری 2018ء میں پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا لیکن اس مرتبہ شکایات اور شرائط اتنی سخت تھیں جن کی ماضی میں مثال نہ ملتی تھی۔
اس کی شاید وجہ یہ تھی کہ ایف اے ٹی ایف کی انتظامیہ میں بھارتی اثر و نفوذ میں اضافہ ہو چکا تھا اور غیر محسوس طریقے سے پاکستان کے گرد ایسا شکنجہ کس دیا گیا تھا جس سے نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی متاثر ہوئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات بھی معدوم ہوکر رہ گئے۔
2017ءاور 2018 ءمیں حکومتی سطح پر ان اقدامات پر سنجیدگی نہ دکھائی گئی۔2019 ءمیں پاکستان کے عسکری اداروں نے اس سنگینی کو محسوس کیا اور حکومت کی درخواست پر عملی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا ۔
ء2019میں ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی نگرانی میں جی ایچ کیو میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا۔اس سیل نے جب کام شروع کیا تو اس وقت تک ایف اے ٹی ایف کے27 نکات میں سے صرف 5نکات پر عملدرآمد جاری تھا۔
جی ایچ کیو میں قائم اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیوں کے درمیان باہمی رابطے کا ایک نظام بنایا۔اس کو آرڈنیشن میکنزم کے تحت ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان ترتیب دیااور پھر ان تمام محکموں وزارتوں اور ایجنسیوں سے اس پر عمل درآمد بھی کروایا۔
پاک فوج کے قائم کردہ سیل نے دن رات کام کرتے ہوئے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ پر بھی ایک موثر لائحہ عمل ترتیب دیا۔اس منظم کام کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان نے اپنا مطلوبہ ہدف جو جنوری 2023ءمیں مکمل ہونا تھا وہ 2022 ءکے وسط میں مکمل کرلیا۔
افواج پاکستان کی زیرنگرانی قائم کیے گیے اس سیل نے اپنی قومی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے رسک اسیسمنٹ پلان مرتب کیا۔جس کے بعد گزشتہ چار سال میں پاکستان میں نہ صرف دہشت گردوں کی مالی معاونت میں کمی آئی بلکہ منی لانڈرنگ میں بھی نمایاں کمی دیکھی گئی۔
اس دوران دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث 85 فیصد افراد اور اداروں کے اثاثے ضبط کیے گیے۔
ایف بی آر نے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار اور جیولرز کی طرف سے ادائیگیوں کو منظم کیااور انہیں ایک نیٹ ورک کا پابند کیا۔
ڈی جی ایم او کی سربراہی میں قائم اس ادارے نے1700 سے زائد مختلف غیر قانونی کاروباروں کی نگرانی کی۔سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے 146697 کیسز کا جائزہ لیا اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔
ا ن تکنیکی اقدامات کیساتھ ساتھ دہشت گردی کا منظم نیٹ ورک توڑنے کیلئے پاکستان کے عسکری اداروں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا ثبوت دیا۔ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے پاکستانی شہریوں کی جان ومال محفوظ بنانے کیلئے اقدامات کیے۔
ملک کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے وہ تمام اقدامات کئے جو پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کیلئے ممد و معاون ثابت ہوسکتے تھے۔آج کا پاکستان دہشت گردوں کی مالیاتی معاونت میں ملوث نہیں۔آج کا پاکستان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔آج کا پاکستان دہشت گردوں کے حملوں کا شکار نہیں۔
پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا پروجیکٹ ایک غیر معمولی منصوبہ تھا۔جس کی تکمیل کے لیے ہر سطح کے افسران نے قربانیاں پیش کیں۔مادر وطن کے ان خاموش مجاہدین نے پاکستان کو ایک مضبوط، مؤثر اور طاقتور ریاست کی شکل میں کھڑا کر دیا۔
ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی کہانی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک پولیس کی کارکردگی کا ذکر نہ کیا جائے۔اس ادارے کے افسران اور سپاہیوں نے بہترین خدمات سرانجام دیں۔
ان اداروں نے ثابت کیا کہ اگر انہیں کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تو وہ صلاحیت کےاعتبار سے کسی محکمہ سے پیچھے نہیں۔
وزارت خارجہ کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔اس عالمی فورم پر پاکستان کی حمایت میں اضافے کیلئے دفتر خارجہ متحرک رہا۔تب کہیں جا کر مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی کرن دکھائی دی ہے ،جس نے اہل وطن کو مسرور کردیا ہے۔