• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افغانستان میں امریکی جنگ کا حصہ بننے کے نتیجے میں دہشت گردی کی جو خطرناک لہر آئی اور پاکستان کو بے پناہ جانی و مالی نقصان پہنچایا اس میں سب سے بڑا کردار تحریک طالبان پاکستان کا ہے۔ اندرون ملک سراٹھانے والا یہ گروہ قبائلی علاقوں (فاٹا) کو پاکستان سے الگ کر کے اپنی الگ مذہبی ریاست بنانا چاہتا تھا جہاں اپنے نظریات اور مرضی کا اسلام نافذ کر سکے۔ اس گروہ نے وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے علاوہ پشاور، لاہور، کراچی اور پاکستان کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں تخریبی کارروائیاں کیں اور تباہی پھیلائی۔ اس کا ہیڈ کوارٹر افغانستان میں تھا جہاں سے اس کے دہشت گرد چوری چھپے پاکستان میں داخل ہوتے۔ خود کش دھماکے کرتے۔ مارے جاتے یا واپس افغانستان چلے جاتے،پاکستان کی دلیر مسلح افواج نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے قیمتی جانوں کی قربانی دے کر اس فتنے کا خاتمہ کیا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی جگہ ٹی ٹی پی کا کوئی تنظیمی نیٹ ورک یا سٹرکچر نہیں ہے۔ لیکن افغانستان کے اندر سے آ کر وہ کہیں نہ کہیں اکا دکا کارروائی کر کے مارے جاتے یا بھاگ جاتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت نے افغان طالبان حکومت کی سہولت کاری کے ساتھ پاکستان سے امن مذاکرات شروع کر رکھے ہیں۔ اس پس منظر میں بدھ کو وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کا اجلاس ہوا جس میں سیاسی اور عسکری قائدین نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد ایک بیان جاری کیا گیاجس کے مطابق قومی سلامتی کے اداروں کی جانب سے ملکی سلامتی کی مجموعی صورتحال پر بریفنگ دی گئی اور ملک کی داخلی و خارجی سطح پر لاحق خطرات اور ان کے تدارک کے لئے کئے جانے والے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ شرکاکو ٹی ٹی پی سے ہونے والی بات چیت کی تفصیلات کے بارے میں بتایا گیا اور انہیں اعتماد میں لیا گیا۔ یہ بھی بتایا کہ افغان حکومت کی سہولت کاری سے مذاکرات کا عمل ابھی جاری ہے۔ اجلاس کے بعدوزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں عسکری اور سیاسی قیادت نے اتفاق کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی رہنمائی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کا معاملہ آگے بڑھایا جائے گا، آئین اور قانون کے مطابق امن و امان لایا جائے گا اور خلاف آئین کوئی بات نہیں مانی جائے گی۔ ارکان پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کیلئے ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے گا۔ وزیر اعظم ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔ اجلاس میں سول قیادت نے ملکی سلامتی اور دوسرے معاملات سے نمٹنے کیلئے سکیورٹی کے ذمے دار اداروں کی حکمت عملی پر مکمل اظہار اطمینان کیا، کالعدم دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات میں آئین و قانون کے منافی کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ قابل تحسین اور جرات مندانہ ہے۔ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور بے گناہ عورتوں بچوں اور مردوں کو خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے شہید کرنے والے دہشت گردوں کو کوئی رعایت دینا قومی سلامتی اور ملکی مفاد کے سراسر خلاف ہے۔ ہماری قوم اور مسلح افواج ایسےفتنوں کو کچلنے کی پوری صلاحیت اور عزم رکھتی ہیں یہ فیصلہ نہایت احسن ہے کہ اس معاملے میں پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ افغان طالبان کا ممنون ہونا چاہئے کہ وہ ٹی ٹی پی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنے کیلئے مذاکرات میں سہولت کاری کر رہے ہیں۔ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کو بھی اس حوالے سے متفقہ لائحہ عمل اختیار کرنے چاہئے۔

تازہ ترین