جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریٹائرڈ ججز کو کسی بھی قسم کی مراعات دینے کی مخالفت کردی، اُن کا کہنا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کے لیے مراعات کی منظوری کا مطلب ہے کہ ہم بطور جج یہ عہدہ ذاتی فائدے کے لیے استعمال کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان کو لکھے گئے خط میں ان کا کہنا تھا کہ رجسٹرار نے فل کورٹ کی منظوری کے لیے ایک سرکلر بھجوایا ہے، اس کا فائدہ ریٹائر ہونے کے بعد ہم ججز کو ہوگا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا کہ جج کے حلف میں شامل ہے کہ وہ ججز کے ضابطہ اخلاق پر عمل کرے گا۔
انہوں نے یہ بھی تحریر کیا کہ ججز کا اپنے لیے مراعات کی منظوری دینا ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ رجسٹرار اور ہم ججز کو علم ہونا چاہیے کہ ہمارے عہدے کے تقاضے کیا ہیں، رجسٹرار کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ہر جج کی جانب سے کچھ بھی کر سکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریٹائرڈ جج کو کسی بھی قسم کی مراعات دینے کی تجویز سے اختلاف کرتا ہوں۔
خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریٹائرمنٹ سے کچھ ماہ قبل فل کورٹ میٹنگ بلائی جس میں ریٹائرڈ چیف جسٹس کے لیے گریڈ 16 کے سیکریٹری کی منظوری لی گئی۔
انہوں نے کہا کہ فل کورٹ سے 2018 میں منظوری اُس وقت لی گئی جب مجھ سمیت کئی ججز چھٹیوں پر تھے، جب فل کورٹ منٹس منظوری کے لیے مجھے بھجوائے گئے تو میں نے اعتراض لگایا اور اختلاف کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ کیا ایسی حکومت جس کے مقدمات عدلیہ کے سامنے ہوں، وہ فل کورٹ کے فیصلے کو نظر انداز کر سکتی؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انصاف کی فراہمی کو متاثر کرنے والے کئی اہم معاملات 2019 سے توجہ طلب ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ کی ان معاملات کے بجائے نظر عوامی وسائل کی طرف ہے۔