• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہزاروں سال پہلے ایتھنز میں جنم لینے اور دنیا کو فکرودانش کے نئے راستوں سے آشناکرانے والے سقراط کو اس دور کے لوگ جو اسے چاہتے اور مانتے تھے اور جن کی مسندِ اقتدار کو اس سے خطرہ تھا،بھی یہ ضرور تسلیم کرتے تھے کہ وہ یونان کاسب سے دانا شخص ہے۔عجیب شخصیت کے مالک سقراط کے پاس ظاہری جمال، مال ودولت،کوئی بڑا عہدہ اور اقتدار نہیں تھا۔گنجے سر،چپٹی ناک، دھنسی ہوئی آنکھوں اور بے سروپا سراپے والا فلسفی کس طرح لوگوں کی محبتوں کا محور بن گیا، جو ایتھنز کی گلیوں میں پھرتا رہتا تھا، جہاں موقع ملتا لوگوں کو اندھے عقائد اور فرسودہ نظام کی اندھا دھند پیروی کی بجائے ان کے اندر سوچنے اور باطن سے رہنمائی لینے کی تحریک پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔اگرچہ اس نے کچھ نہ جاننے کا اعلان کرکے سوچنے والے اذہان کو عقل و دانش کی وسعتوں کی طرف دھکیل دیا تھا پھر بھی لوگ اس سے سوال کرتے تھے مگر وہ جواباً سوال کرکے سوچنے پر مجبور کر دیتا تھا۔انسان کیا ہے،نیکی کیا ہے،انصاف کیا ہے،حب الوطنی سے کیا مراد ہے،اخلاق،عزت نفس،خیر،دانش اور علم کیا ہے، کائنات اور انسانیت کے وسیع تر مفاد میں انسان کی اپنی ذات کیا معنی رکھتی ہے؟ انسانی روح میں جھانکنا اور مفروضات کو بے نقاب کرنا سقراط کا پسندیدہ مشغلہ تھا،وہ نوجوانوں اور عالموں کو گھیر کر مباحثے کے دائرے میں لے آتا کیونکہ علم کو فضیلت اور فضیلت کو علم سمجھنے والے کو اپنی معلومات دوسروں کے اذہان میں ٹھونسنا گوارا نہیں تھا۔وہ چاہتا تھا کہ لوگ مشاہدے اور باطنی رہنمائی کے ذریعے حقیقت تک رسائی حاصل کریں۔حقیقت کا علم انسان کے ذہن میں رکھا گیا ہے اسے استعمال کرنا انسان کا فرض ہے۔اگرچہ سقراط بہترین معاشرتی نظام کو جذبات اور عقائد کی بجائے عقل پر استوار قرار دیتا تھا مگر وہ باطنی رہنمائی جسے روحانی نظام بھی کہہ سکتے ہیں کو بھی اہمیت دیتا تھا اور اس کا یہ کہنا کہ ماورائی قوت اس کے سوالوں کے جواب دیتی اور اس کی رہنمائی کرتی ہے، بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سقراط ظاہری و مادی مشاہدات کے ساتھ روحانی و باطنی تجربات کو بھی اہمیت دیتا تھا اور شاید علم ان دو کے ملنے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔

سقراط کے سوالات و جوابات نے یونان کی فکری و نظریاتی بساط الٹ کر رکھ دی۔ اس کا سب سے بڑا جرم لوگوں کو سوچنے پر اکسانا تھا جو صاحبِانِ اقتدار کے لئے کبھی قابل قبول نہیں رہا،سقراط کو یقینِ کامل تھا کہ ایتھنز میں رائج غیر یقینی مذہبی تصورات پر کوئی ایسا پائیدار اخلاقی نظام نہیں استوار ہو سکتا جس کی ہر طبقہ پیروی کرے۔طاقتور اخلاقی نظام کے بغیر معاشرتی نظام قائم نہیں ہو سکتا اور یہ نظام اگر کسی ایک عقیدے یا گروہ کا نمائندہ ہو تو اکثریت کی توجہ نہیں حاصل کر سکتا، اخلاقی نظام کا آفاقی حیثیت کا حامل ہونا ضروری ہوتاہے۔

فکر کی بات یہ ہے کہ آج ہمارے اپنے معاشرے میں کورے کاغذ سے لے کر بہت سی ڈگریاں رکھنے والا ہر شخص علم کا دعویٰ دار ہے، اسے یہ یقین ہے کہ وہ سب سے زیادہ جانتا ہے،کسی کو سائنسی علم پر ناز ہے تو کسی کو دینی علم پر فخر ہے،علم کے حلقے سے اخلاقیات کو ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے۔جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی طرح،جس کی چرب زبانی اس کی سیاسی مقبولیت۔ روز روز کی پریس کانفرنسوں میں ایک جیسی گفتگو نے ایک عالم کا جینا محال کر رکھا ہے۔ملکی مفادات کی بجائے ذات زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہے۔ ملک میں انتشار کو ہوا دی جارہی ہے۔سقراط کے سب سے عظیم شاگرد افلاطون کا تعلق بھی اعلیٰ اشرافیہ سے تھا مگر وہ علم کی سچائی اور حقیقت کی آشنائی کے رسیا تھے، انھوں نے ایسے شخص کو استاد بنایا جو انھیں سوچنے اور کھلی آنکھوں سے مشاہدے کی ترغیب دیتا تھا۔ کیا ہم ہزاروں سال پہلے کے انسانوں سے بھی کمتر ذہنی حالت میں ہیں؟

کب تک بے بنیاد باتوں کو ایشو بنا کر شب وروز فساد برپا ہوتا رہے گا۔فکر و دانش کی راہ کب سے منتظر ہے،آخر اس پر سفرکا آغاز کرنے میں کیا چیز مانع ہے؟سچائی ہمیشہ آفاقی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔خود پسندی اور نرگسیت کے حامل افراد کی ذات اور خواہشات سے جڑا بیانیہ سچائی نہیں تباہی لے کرآتا ہے۔ستر سال کی عمر میں اپنے ہاتھوں زہر کاپیالہ پی کر امر ہو جانے والے سقراط کو یقین تھا کہ موت اسے کبھی فنا نہیں کر سکتی کیونکہ جسم کی موت نظریے کی موت نہیں ہوتی۔انسان صرف جسم نہیں ذہن اور روح کا حامل ہے۔ جو فرد بھی عقلی اور روحانی استعداد کو استعمال میں لاتا ہے وہی انسان کہلانے کا حقدار ہوتا ہے۔آخر ذات اور کائنات کی حقیقت سمجھنے اور جاننے کی بجائے کچھ نا جانتے ہوئے ، سب کچھ جاننے کا دعویٰ کرنے کی روش پر کب عمل پیرا ہوں گے؟ آئیے عقل و فکر کا رستہ اپنائیں اور ادراک کا دائرہ وسیع کر کے حالات و واقعات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

تازہ ترین