• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی سب سے بڑی آبادی والے صوبے پنجاب میں پائی جانے والی سیاسی کشیدگی کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کام نہیں کر پارہی جس کے اثرات حکومت اور اس کے امور پر پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سماج دشمن عناصر کو ایسے حالات میں زیادہ کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے ۔ صوبے میں حکومت کے ہوتے ہوئے بھی حزب اختلاف اسے ماننے کو تیار نہیں ۔ ڈی سیٹ ہونے والے منحرف اراکین پنجاب اسمبلی کی خالی ہونے والی سیٹوں پر ضمنی انتخابات سر پر ہیں جس کےلئے مؤثر انتظامی مشینری کا ہونا ناگزیر ہے۔ پی ٹی آئی نے 16 اپریل کو حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ بننے والے انتخاب کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے اور اس کی تقریباً اڑھائی ماہ سماعت کے بعد جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے درخواستیں جزوی طور پر منظور کرتے ہوئے منحرف اراکین کے ووٹ شامل کئے بغیر 16 اپریل کو ہونے والے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے حوالے سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ بطور وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور انکی کابینہ کے تمام فیصلوں کو آئینی تحفظ حاصل رہے گا ۔ دوران انتخاب انتشار پیدا کرنے والوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی ۔ چار ججوں کی رائے کے مطابق اگر نئے انتخابات کا کہتے تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی نفی ہوتی۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ اگر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بننے کےلئے مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکے تو آرٹیکل 130(4) کے تحت دوبارہ انتخاب کرایا جائے جب تک کہ عہدے کےلئے موجود کسی امیدوار کو اکثریت حاصل نہ ہو۔ فیصلے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ جب تک انتخابی عمل مکمل نہیں ہوجاتا اور پریذائیڈنگ افسر منتخب وزیر اعلیٰ کے نتیجے سے گورنر کو آگاہ نہیں کرتا اس وقت تک پنجاب اسمبلی کا اجلاس ملتوی نہیں ہوسکتا۔ گورنر آئین کے تحت کسی ہچکچاہٹ کے بغیر نو منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے کا فرض اگلے روز صبح گیارہ بجے سے پہلے ادا کرے گا۔ عدالت عالیہ کا یہ فیصلہ تمام شکوک و شبہات دور کرنے اور صوبے کے سیاسی حالات بہتر ہوجانے کا باعث بننا چاہئے جو گذشتہ ساڑھے تین ماہ سے عوام الناس میں غیر یقینی صورتحال پیدا کئے ہوئے ہیں۔ لوگ مسائل پیش کرنے کےلئے اپنے حلقوں میں منتخب نمائندوں کی راہ تک رہے ہیں ۔ پنجاب کو تمام صوبوں میں سب سے بڑی آبادی اور ملکی سیاست کا مرکز ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ پی ڈی یم کی وفاق اور پنجاب میں پیش کردہ کامیاب تحریک عدم اعتماد کا منطقی انجام تو ہوگیا لیکن اس سے متعلق دونوں معزز ایوانوں خصوصاً پنجاب اسمبلی میں گذشتہ تین ماہ سے تمام پارلیمانی آداب بالائے طاق رکھے گئے اور ہنوز حزب اقتدار اور مخالف اپنے اجلاس بھی الگ الگ جگہوں پر کرنے پر مجبور ہیں۔ حتیٰ کہ ایک ہی صوبے میں ملکی تاریخ میں پہلی بار دو بجٹ اجلاس منعقد کئے گئے اور بجائے یہ کہ منتخب نمائندے اپنے حلقوں کی نمائندگی کرتے ، سیاسی کھینچا تانی میں مصروف دکھائی دیے۔ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ میں بلدیاتی انتخابی عمل انجام پذیر ہوچکا ہے لیکن پنجاب کی الجھی ہوئی سیاسی فضا کے باعث بنیادی سطح کے مسائل مزید الجھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پی ڈی ایم سے وابستہ سیاسی جماعتوں نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو موجودہ ڈیڈ لاک ختم ہوجانے کا پیش خیمہ قرار دیا ہے تاہم پی ٹی آئی نے تحفظات کا اظہار کرتےہوئے جمعہ کے روزاسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ دائمی صورت اختیار کرتی سیاسی محاذ آرائی کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔بہتر ہوگا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں سیاسی جماعتیں اپنے رویوں میں لچک لائیں اور اپنی جماعت اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر ملکی مفاد کو ترجیح دیں، صحتمند پارلیمانی سرگرمیوں کی بحالی جس کی کسوٹی ہو۔

تازہ ترین