• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

انتخابات میں سرکاری گاڑیوں اور کارکنوں میں آتشیں اسلحہ کی تقسیم ہوئی اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کی کامیابی کیلئے سرکاری اہل کاروں پر دبائو ڈالا گیا۔ بھٹو صاحب کی بلا مقابلہ کامیابی کے اعلان کے بعد ان کی کابینہ کے بیشتر وزراء بھی بلامقابلہ کامیاب قرار پائے، بہر حال عام انتخاب کیلئے بیالیس روزہ انتخابی مہم تلخ اور ہنگامہ خیز واقعات سے بھرپور تھی، انتخابی نتائج آئے تو پیپلزپارٹی نے 155 نشستوں پر کامیابی حاصل کی اور پاکستان قومی اتحاد کو صرف36 نشستوں پر کامیابی ملی، کچھ آزاد امید وار کامیاب ہوئے اور متعدد نشستوں پر دیگر جماعتوں کے امیدوار کامیاب ہوئے، 155نشستوں پر پیپلزپارٹی کی کامیابی ہی اصل میں خطرے کی گھنٹی تھی، ملک میں رد عمل بہت شدید ہوا اور پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا، پاکستان قومی اتحاد نے الیکشن کمیشن توڑنے، فوج اور عدلیہ کی نگرانی میں از سر نو انتخابات کرانے کا مطالبہ کردیا اور دھمکی دی کہ اگر14مارچ تک مطالبات تسلیم نہ کئے تو ملک گیر تحریک چلائی جائے گی،12 مارچ کو بھٹو صاحب نے مذاکرات کی پیش کش کی مگر پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مولانا مفتی محمود نے اسے مسترد کردیا اور بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ نئے انتخابات کرائے جائیں، بھٹو صاحب نے19 مارچ کو خط کا جواب دیا کہ از خود انہوں نے شکایات کا جائزہ لینے کا عمل شروع کردیا ہے۔ اس وقت پاکستان قومی اتحاد میں شامل جماعتیں کوئی زیادہ منظم نہیں تھیں، ان کے پاس وسائل بھی نہیں تھےاور قیادت بھی کوئی کرشماتی نہیں تھی لیکن عوام کی بہت بڑی تعداد بھٹو صاحب کی حکومت سے تنگ تھی لہٰذا حکومت کے خلاف غصے اور نفرت میں عوام نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا ساتھ دیا، پاکستان قومی اتحاد کی عوامی تحریک آگے بڑھی تو بھٹو حکومت بھی چاروں صوبائی اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کیلئے تیار ہوگئی اور اعلان کیا کہ اگر پاکستان قومی اتحاد صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کرلے تو وہ قومی اسمبلی توڑدیں گے تاکہ قومی اسمبلی کے بھی ازسر نو انتخابات ہوسکیں، لیکن پاکستان قومی اتحاد کی تحریک عوام کی شرکت کے باعث زور پکڑ چکی تھی لہٰذا وہ نئے انتخابات کے سوا کسی چیز پر راضی نہ ہوئے، یہی وہ موڑ ہے جہاں کہانی نے ایک نیا رخ اختیار کیا کہ10 اپریل کو بھٹو صاحب نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق سے ملاقات کی، اور کہا کہ’’ ان کی حکومت انصاف کے تقاضے پورے کرے گی اور انتخابی مسائل کے حل کیلئےمذاکرات کے دروازے بند نہیں کرے گی ،تاہم فوج کسی بھی ناگہانی صورت حال کے مقابلے کے لئے خود کو تیار رکھے‘‘ یہ پہلی دعوت تھی جو بھٹو صاحب نے مداخلت کیلئے فوج کو دی تھی، اس ملاقات کے بعد جنرل ضیاء الحق نے اپنے رفقاء کار کو اعتماد میں لیا تاہم وہ اس نکتہ پر اتفاق کرچکے تھے کہ حکومت کا اعتماد داغ دار ہوچکا ہے اور اسے عوام کی حمایت اور تائید حاصل نہیں رہی اور فیصلہ ہوا کہ وزیر اعظم کو بتادیا جائے کہ عوام میں ان کی حکومت کے بارے میں بہت غصہ اور ردعمل ہے اور یہ بھی فیصلہ ہوا کہ فوج سیاست سے دور رہے گی۔

جنرل محمد ضیاء الحق کے بہت سے رفقااس بات سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ جنرل محمد شریف کی گواہی موجودہے کہ بھٹو صاحب کی اس وقت کی فوجی قیادت نے مکمل حمایت کی اور انہیں حالات درست کرنے کیلئے ہر ممکن مدد بھی فراہم کی، بھٹو صاحب نے17 اپریل کو جن اقدامات کا اعلان کیا اس کی بھی مکمل تائید کی گئی ،مقصد یہ تھا کہ سیاسی بحران ٹل جائے، جنرل ضیاء الحق کا حکومت کیلئے یہ مشورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ملک میں حکومت کے ساتھ تھے اور چاہتے تھے کہ حالات درست ہوجائیں اورا س کیلئے… حکومت کو موقع بھی دے رہے تھے، مگر پیپلزپارٹی کی غیر مقبولیت عروج پر تھی اور عوام میں غصہ اور رد عمل بھی شدید تھا،اس کا جواز بھی خود حکومت کے وزراء نے ہی فراہم کیاتھا، انتخابی دھاندلی کے خلاف ملک گیرتحریک در اصل بھٹو مخالف تحریک بن چکی تھی،20 اپریل کو حکومت نے خود ایک فیصلہ کیا اور ملک کے دو اہم شہروں کراچی اور لاہور میں مارشل لا نافذ کرنے کا عندیہ دیا، فوجی قیادت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ یہ سلسلہ پھر آگے ہی بڑھے گا واپس نہیں آئے گا ،بہر حال حکومت نے لاہور، کراچی اور حیدر آباد میں مارشل لانافذ کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل محمد شریف کو اس کی ہدائت کردی گئی۔ وزیر اعظم نےاٹارنی جنرل کو فرمان جاری کرنے کیلئےڈرافٹ تیارکرنے کی ہدائت کی کہ صدر فضل الہٰی چوہدری سے اس پر دستخط کرالئے جائیں، اس کے باوجود وزیر اعظم سے کہا گیا کہ وہ ایسا نہ کریں، اس سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے، تو وزیر اعظم نے جواب دیا تو کیا پھر پورے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا جائے؟تاہم یہاں1977 کے مارشل لاکے کچھ حقائق بیان کرنا ضروری ہیں تاکہ سیاسی تاریخ کے طالب علم اس سے رہنمائی لے سکیں اور وہ اس وقت کے سیاسی حالات کے تناظر میں واقعات کو پرکھ اور سمجھ سکیں، جب ملک میں فوج نے نظم و نسق سنبھالا تو اس وقت کے صدر جناب فضل الٰہی چوہدری نے بھی اطمینان کا سانس لیا اور مارشل لا حکومت کے ساتھ کام جاری رکھنے کی درخواست بھی قبول کرلی بلکہ انہوں نے متعدد مشورے بھی دیے، بالکل آغاز پر جنرل محمد ضیاء الحق نے اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو صاحب سے بھی ٹیلی فون پر گفتگو کی اور انہیں فیصلے سے آگاہ کیا، بھٹو صاحب نے ان سے مری منتقلی کیلئے کچھ مہلت مانگی جو انہیں دی گئی اور بتایا گیا کہ وہاں آپ کاا سٹاف آپ کے ساتھ ہوگا، یہ ایک نہایت مختصر سا پس منظر ہے جس کی یہاں نشاندہی کی گئی ہے اور اس وقت کے سیاسی حالات اور واقعات دیکھنے اور سمجھنے کیلئے بھٹو صاحب کے معتمد ساتھی پیپلزپارٹی کےرہنما رانا شوکت محمود کی کتاب ’’رد انقلاب ‘‘کے علاوہ جنرل کے ایم عارف کی کتاب ’’ورکنگ ود ضیاء‘‘ اور محترم چوہدری ظہور الہٰی کی زندگی پر لکھی گئی کتاب سے بھی مدد لی گئی ہے، اس سارے پس منظر کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم آج اپنے سیاسی حالات کا بھی جائزہ لیں، سیاسی جماعتیں مل کر اس پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں۔ آج بھی حالات ماضی سے مختلف نہیں ،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کوباہم مل بیٹھ کر پارلیمانی آداب کے اندر رہ کر کام کرنے کاعادی بنناہوگا،ابھی ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم ملکی ترقی، سلامتی ،مضبوط دفاع اور عوام کی خوشحالی کے لیے کام کریں اگر ہلہ گلہ یونہی جاری رہا، تو حالات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔

تازہ ترین