• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کئی سال پہلے مجھ سے اُس وقت کے آئی ایس آئی کے اسلام آباد کے سیکٹر کمانڈر نے رابطہ کیا اور کہا کہ مجھ سے ڈی جی آئی ایس آئی ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا، بالکل ضرور ملیں لیکن یہ ملاقات یا تو میرے گھر میں ہوسکتی ہے یا کسی عوامی مقام یعنی ہوٹل وغیرہ میں۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے بتایا گیا کہ ڈی جی صاحب میرے گھر تشریف لائیں گے۔

 ایسا ہی ہوا لیکن جیسے ہی ڈی جی آئی ایس آئی ہمارے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے، سب سے پہلے اُنہوں نے اپنا موبائل فون ایک صوفے کی گدی کے نیچے دبا کر رکھ دیا اور ہم کچھ فاصلے پر دوسرے صوفے پر بیٹھ گئے۔

عمران خان اسٹیبلشمنٹ سے کیوں مایوس ہوئے؟ انصار عباسی نے بتادیا


 یعنی ڈی جی آئی ایس آئی کا اپنا فون بھی ٹریک ہورہا تھا اور صوفے کی گدی کے نیچے رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم جو بات کریں وہ ایجنسیاں ریکارڈ نہ کرسکیں۔ جب جنرل مشرف نے مارشل لاء لگایا تو اُنہوں نے اپنے پرانے دوست اور انکم ٹیکس کے اُس وقت کے اعلیٰ افسر طارق عزیز کو اپنا پرنسپل سیکریٹری تعینات کیا۔

ایک بار طارق عزیز صاحب نے مجھے بتایا کہ مارشل لگانے کے چند روز کے اندر ہی جنرل مشرف اُن کے گھر ملاقات کے لئے آئے لیکن اُن کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بات کرنے کی بجائے طارق عزیر کو گھر کے لان میں لے گئے اور وہاں بات کی اور یہ وضاحت کی کہ ایسا اس لئے کر رہے ہیں تاکہ اُن کی بات چیت ایجنسیاں ریکارڈ نہ کر سکیں۔

ان واقعات کا تذکرہ کرنے کا مقصد قارئین کو یہ بتانا مقصود ہے کہ ایجنسیاں حکومت اور ریاست کے ہر اہم ذمہ دار کے فون ریکارڈ کرتی ہیں، اُن پر نظر رکھتی ہیں اس سلسلے میں آرمی چیف ہوں یا ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی سب کے فون کی ریکارڈنگ کی جاتی ہے، کون کس سے ملتا ہے، کس سے بات کرتا ہے؟ یہ معلوم کرنا ایجنسیوں کے لئے ایک معمول ہے۔ عمران خان جب وزیراعظم تھے تو اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کے ٹیلی فون کالز ایجنسیاں ریکارڈ کرتی ہیں جس پر اُنہوں نے کہا، جی بالکل، آئی ایس آئی اور آئی بی ایسا کرتی ہیں۔

 پھر اُنہوں نے اس پر ایک لمبی وضاحت دی کہ ایجنسیوں کے لئے ایسا کرنا کیوں ضروری ہے۔ خان صاحب نے اس پر امریکہ کی بھی مثال دی اور بتایا کہ دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے۔

 حال ہی میں جب بشریٰ بی بی کی تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کے اہم رکن سے گفتگو کی مبینہ آڈیو سامنے آئی اور پھر میں نے عمران خان اور اُن کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی ایک اور مبینہ آڈیو کا ذکر کیا تو اس پر پی ٹی آئی سٹپٹا گئی اور یہ سوال اُٹھا دیا کہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت وزیراعظم کے فون ریکارڈ کرتی ہیں؟

 ٹی وی چینلز کا بھلا ہو جنہوں نے تحریکِ انصاف کو عمران خان کا پرانا انٹرویو چلا کر یاد دلایا کہ ایسا اگر ایجنسیاں کر رہی تھیں تو خان صاحب کی مرضی کے مطابق ہی کر رہی تھیں بلکہ وہ ایجنسیوں کے اس کردار کو ضروری سمجھتے تھے۔

 ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ایجنسیوں کے اس کردار کا مقصد نیشنل سیکورٹی کا تحفظ کرنا ہے نہ کہ کسی کو بلیک میل کرنا۔ جہاں تک بشریٰ بی بی کی مبینہ آڈیو کا ذکر ہے، اُس کے متعلق مجھے ذرائع نے آگاہ کیا ہے کہ وہ آڈیو ریکارڈنگ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کے ذمہ دار کے لیپ ٹاپ سے ملی تھی۔

جہاں تک عمران خان اور اُن کے پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی مبینہ آڈیو کا تعلق ہے جس کے بارے میں میں نے اپنے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا، ہو سکتا ہے وہ اب لیک ہی نہ ہو کیوں کہ ڈاکٹر شیریں مزاری کی پریس کانفرنس نے اُس بات کی تصدیق کردی ہے جس کا مبینہ آڈیو میں ذکر تھا۔

ڈاکٹر مزاری نے پریس کانفرنس میں دھمکی دی تھی کہ اگر عمران خان اور اعظم خان کی بات جیت کی آڈیو سامنے لائی گئی تو یہ سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ہوگی جس پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ہاں یہ ابھی معلوم کرنا باقی ہے کہ اس مبینہ آڈیو کا تعلق کس ایجنسی سے ہے؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین