• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں تقریباً تین دہائیوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہوں میں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے کچھ اصول اپنا رکھے ہیں ۔میں جب بھی ہر سال نئی آنے والی کلاس میں پہلی بار جاتا ہوں تو طلبا و طالبات سے کہتا ہوں کہ میں ایک پبلک سرونٹ ہوں آپ کی دی ہوئی فیسوں سے تنخواہ پاتا ہوں اس لئے دراصل میں آپ کا نوکر ہوں۔ اپنی بہترین تدریسی صلاحیتیں بروئے کار لاکر آپ کی شخصیت کو بدلنا میرے مطمح نظر ہے میں اپنے طلبا و طالبات سے یہ بھی کہتا ہوں کہ آپ مجھ سے اپنا سودا پورا لیا کریں جب آپ کسی دکاندار سے کہتے ہیں کہ ایک کلو چینی تول دو تو دوچار گرام بھی چینی کم ہو تو آپ اصرار کرتے ہیں کہ چینی پوری کرو۔ہم نے پیسے پورے ادا کئے ہیں اسی طرح کالج کو بھی آپ نے پوری فیس ادا کر رکھی ہے اس لئے کلاس روم میں پورے چالیس منٹ گزاریں ۔نہ دیر سے آئیں نہ وقت سے پہلے جائیں اگر پیریڈ کا وقت ہو گیا ہے اور میں اسٹاف روم میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا ہوں یا چائے پی رہا ہوں تو آپ مجھے کلاس روم میں چلنے کو کہیں، میں کبھی ناراض نہیں ہوںگا، یہ الگ بات ہے کہ میں نے اپنی پوری سروس میں آج تک اپنے شاگردوں کو اس بات کا موقع ہی نہیں دیا کہ وہ پیریڈ کا وقت ہو جانے پر مجھے بلانے آئیں۔میرا شوقِ تدریس آج بھی سروس کے پہلے دن کی طرح جوان ہے، اس لئے ہمیشہ وقت سے پہلے کلاس روم میں پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں، میں نے اپنے شاگردوں کو کہہ رکھا ہے کہ کلاس روم میں آنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ۔پڑھنا آپ کا حق ہے اور پڑھانا میری ذمہ داری، کلاس روم کے دو دروازے ہوں تو کہتا ہوں کہ ہمیشہ سامنے والے دروازے سے داخل ہوں۔ پچھلا دروازہ کبھی استعمال مت کریں کیونکہ پچھلا دروازہ ہمیشہ چور استعمال کرتے ہیں۔میرے شاگردوں کو کلاس میں کسی بھی وقت کوئی سوال کرنے کی اجازت ہوتی ہے ۔حتیٰ کہ میں انہیں اپنا فون نمبر تک دے دیتا ہوں اور کہتاہوں کہ آپ کسی بھی وقت اپنے نصاب اور زندگی سے متعلق کوئی مشورہ کر سکتے ہیں ۔ ٹیوشن کو میں نے ہمیشہ ایک لعنت سمجھا ہے میرے بچپن میں میرے والد گرامی جناب بشیر احمد راٹھور نے یہ بات میرے ذہن میں بٹھا دی تھی کہ جو استاد کلاس میں نہیں پڑھاتا وہ اکیڈمی میں بھی کچھ نہیں پڑھا سکتا ۔

اتنا عرصہ گزرنے تک میں یہی سمجھتا رہا تھا کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا اگر کوئی دیکھ رہا ہوتا تو کہیں نہ کہیں سے صدائے تحسین ضرور بلند ہوتی ۔مجھے کوئی اعزاز ملتا حتیٰ کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی میٹرک کی اردو کی کتاب میں میری نظم’’بہادر بچے ‘‘ پچھلے سات برسوں سے پڑھائی جا رہی ہے، چوتھی جماعت کی ’’اخلاقیات‘‘ کی کتاب ( جو غیر مسلم بچوں کو پڑھائی جاتی ہے ) میں دو نظمیں ’’سچائی ‘‘ اور ’’ایمان داری ‘‘ شامل ہیں ۔ آئی ایس پی آر کشمیر پر میرا نغمہ جاری کرتا ہے لیکن سارے اعزازات گلوکاروں اور اداکاروں میں تقسیم کر دیئے جاتے ہیں ہم جیسے لوگ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں ۔

یہ ساری باتیں کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اسلام آباد کے ایک ادارے نے دیانت داری اور صدق دل سے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے سرکاری ملازمین کی حوصلہ افزائی کا بیڑا اٹھایا ہے ’’اکائونٹیبلٹی لیب‘‘ کے نام سے کام کرنے والا یہ ادارہ پچھلے 6برسوں سے سرگرم عمل ہے ہر سال چاروں صوبوں سے ایک ایک سرکاری ملازم کو ڈھونڈتا ہے اور اسلام آباد بلا کر کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ہزاروں طلبا و طالبات کے سامنے انہیں ’’نشان دیانت‘‘ (INTEGRITY ICON)عطا کرتا ہے، ایک اعزاز اسلام آباد کے کسی ایک سرکاری ملازم کو دیا جاتا ہے۔2020میں میرے دوست اور سیکرٹریٹ اسٹاف ٹریننگ اکیڈمی کے ڈی جی مختار پارس کو ’’نشان دیانت‘‘ ملا تھا مختار پارس کوثر و تسنیم میں دُھلی زبان لکھتے ہیں فکر وفلسفہ میں گندھے انشائیے تخلیق کرتے ہیں ۔اس برس مجھے ’’اکائونٹیبلٹی لیب‘‘ کی طرف سے ’’نشان دیانت‘‘عطا کرنے کا مژدہ سنایا گیا تو مجھے یقین آ گیا کہ اگر آپ کوئی اچھا کام کر رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں دیکھا ضرور جا رہا ہے اور نہیں تو اللہ تو دیکھ رہا ہے،یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات کے سامنے یہ اعزاز دینے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ سب جب زندگی کے مختلف شعبوں میں جائیں گے تو کم از کم دیانت کو ضرور مدنظر رکھیں گے ویسے بھی آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی ہے یہ ناسور ختم ہو جائے تو ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہو سکتا ہے اس برس یہ ’’نشان دیانت‘‘ سندھ کے محمد نصیر موسوی، بلوچستان کے رومانہ مراد کھوسو، کے پی کے کی شہزادی نوشاد گیلانی، اسلام آباد کی ظل ہما کو دیا گیا ۔ پنجاب سے خاکسار کو چنا گیا اعزاز یافتگان کو یہ اعزاز آسٹریلین قائم مقام ڈپٹی ہائی کمشنر کیتھرین ٹامی نے دیئے ۔

کم از کم مجھے تو یقین آ گیا ہے کہ ہمیں ہر وقت کوئی نہ کوئی دیکھ رہا ہوتا ہے اور کوئی نہیں تو اللہ ضرور دیکھ رہا ہے۔

تازہ ترین