• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں توانائی، خصوصا، بجلی کا بحران حکومت کو درپیش بڑے چیلنجز میں سے ایک بہت اہم چیلنج ہے۔ تقریبا ایک دہائی سے ماہرین کہتے آرہے ہیں کہ اگر توانائی کی طلب و رسد کے درمیان حائل خلیج کو مؤثر انداز میں پُر نہ گیا تو اقتصادی تنز ّل نا گُزیر ہے۔ بجلی کی قلّت ہر سال بڑھتی جارہی ہے جس کی وجہ سے عوام کو یومیہ اوسطا چھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ برداشت کرنا پڑتی ہے۔

دیہی علاقوں میں صورت حال بہت خراب ہے جہاں دن بھر میں صرف دو سے تین گھنٹوں کے لیے بجلی دست یاب ہوتی ہے۔ ایک تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا تیرہ فی صد حصہ بجلی کے بغیررہ رہا ہے۔ دوسری جانب عالمی سطح پر اقتصادی مسابقت میں ہر سال اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے مزید ضروری ہوجاتا ہے کہ بجلی کے مسئلے کا ایک محفوظ ، مامون اور پائے دار حل وضح کیا جائے جو اسٹریٹجک اقتصادی ترقی اور سماجی انفرااسٹرکچر سے منسلک ہو۔

ان دنوں پاکستان میں توانائی کا بحران گمبھیر صورت اختیار کرچکا ہے۔آر ایل این جی کی بروقت درآمد اور ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہونے ،قدرتی گیس کی فراہمی میں کمی واقع ہونے اور بجلی پیداکرنے والے کارخانوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آنے کی وجہ سے جہاں ایک جانب عوام اور صنعت کار چیخ پڑے وہاںانرجی سکیورٹی پر نظر رکھنے والے بھی چونک گئے ہیں، کیوں اس صورت حال نے انہیں مستقبل کے بارے میں بہت فکر مند کردیا ہے ۔ 

ایسے میں یہ خبر بہت خوش آئند ہے کہ سرکاری عمارتوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کافیصلہ کرلیا گیاہے۔ حال ہی میں رہنما مسلم لیگ(ن) شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت سولر انرجی ٹاسک فورس کا اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب سمیت ٹاسک فورس کے دیگر ارکان نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کیے گئے بیان میں وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ملک میں سولر انرجی کی پیداوار بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔

اس سے قبل جنوری 2021 میں یہ خبر آئی تھی کہ سندھ حکومت کا صوبے کے دس اضلاع میں دولاکھ گھروں کو شمسی بجلی فراہم کرنے کےلیے سپلائرز کے ساتھ معاہدہ ہوگیا ہے۔ معاہدے کے تحت سجاول، بدین، مٹھی، تھرپارکر، سانگھڑ، خیرپور، گھوٹکی، کشمور، جیکب آباد اور قنبر شہداد کوٹ کے اضلاع میں دو لاکھ گھروں کو شمسی بجلی سے روشن کرنے کا منصوبہ تھا۔ اس سے قبل اگست 2020 میں وفاق سے یہ اچھی خبر آئی تھی کہ وفاقی حکومت نے قابل تجدید توانائی پالیسی کی منظوری دیتے ہوئے 2025ء تک بیس فی صد بجلی متبادل ذرایع سے حاصل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے، اس سے صنعتوں اور گھریلو صارفین کو فائدہ ہوگا۔

اس وقت کے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے اس سلسلے میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے متبادل اور قابل تجدید توانائی پالیسی کی منظوری دے دی ہے۔ اس کے لیے شفاف طریقے سے بولی کا عمل ہو رہا ہے۔ 2025ء تک پاکستان میں 20 فی صد بجلی قابل تجدید اور متبادل ذرایع سے حاصل کی جائے گی۔ عمر ایوب نے کہا کہ پاکستانی سائنس داں اور انجینئرز ہوا سے بجلی کی پیداوار کے لیے آلات بنانے کی تیاری کر رہے ہیں، اس کے علاوہ تھر کے کوئلے کے ذخائر سے بھی مجموعی طلب کی دس فی صد تک بجلی حاصل کریں گے۔

اس موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کا کہنا تھا کہ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں سالانہ بنیادوں پر بولی دینے کا عمل ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نئی پالیسی کے تحت قابل تجدید توانائی کے آلات کی تیاری پر خصوصی رعایت دے رہی ہے۔ پالیسی کے تحت ان کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ہوں گے جو پیداوار کے ساتھ ٹیکنالوجی بھی منتقل کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ پالیسی کے حوالے سے ہم نے پورا میکنزم بنایا ہے۔اگرچہ یہ خبر بہت اچھی تھی مگر اس پر عمل بہت ہی کم ہوا۔

توانائی کے شعبے کے ماہرین طویل عرسے سے متنبہ کرتے چلے آرہے ہیں کہ ہمارے قدرتی گیس کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں، پن بجلی کی پیداوار بدلتے ہوئے موسمی حالات کی وجہ سے کسی بھی موسم میں غیر متوقع ہوسکتی ہے اور ملک میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بیرونی ذرایع پر ہمارا انحصاربڑھتا جارہا ہے جو بہت خطرناک صورت حال ہے۔

چنانچہ ہمیں توانائی کے متبادل اور قابلِ تجدید ذرایع پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ عرضہ قبل اس وقت کے وفاقی وزیر برائے توانائی، حماد اظہر نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے خود کہا تھا کہ آر ایل این جی کی ملک میں دست یابی کے ضمن میں اس وقت جو مشکل پیش آئی ہےاس نے خطرے کا سگنل دیاہے کیوں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر ایسا کبھی بھی ہوسکتا ۔پھر ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کافی عرصے سے معلوم یہ حقیقت دہرائی کے ہمارے قدرتی گیس کے ذخائر ختم ہورہے ہیں۔

ایسی صوت میں ہمارے پاس متبادل راستے کیا ہیں اور دنیا کس طرف جارہی ہے؟اس بارے میں ہمارے کاپردازانِ حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔لیکن سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کی وجہ سے اب ہمیں اس ضمن میں زیادہ دور جانے کی ضروت نہیں کیوں کہ اب توانائی کے کئی غیر روایتی اور قابلِ تجدید ذرایع ہمارے سامنے ہیں اور زیادہ تر اعتبار سے قابلِ عمل بھی۔

ویسے بھی ماہرین انرجی سکیورٹی کے ضمن میں کسی ایک ذریعے یا ملک پر انحصار سے منع کرتے ہیں۔ جوہری اور پن بجلی گھروں کی تعمیر میں پانچ سے دس سال لگ سکتے ہیں۔لیکن ہم توانائی کاانتظام بہتر تو بناسکتے ہیں ناں، تاکہ موجودہ پلانٹس اپنی مکمل صلاحیت کے مطابق کام کرسکیں۔ اس کے علاوہ تیس پینتیس فی صد بجلی کاضیاع کم کیا جانا چاہے۔

توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم قابلِ تجدید توانائی کے ذرایع سے مستفید ہونے کا سنجیدگی سے فیصلہ کرلیں تو توانائی کے بحران میں بری طرح پھنسے ہوئے پاکستان کے لیے یہ بہت خوش آئندہوگاکہ اس ایک اسٹریٹجک فیصلے سے ملک میں لوڈشیڈنگ کم ہوسکتی ہے، لاکھوں ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں، معیشت کی بحالی میں مدد مل سکتی ہے، محاصل کی بنیادیں وسیع ہوسکتی ہیں، ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے والوں کی تعداد میں نمایاں کمی آسکتی ہے، بیرونی قرضوں سے بہت حد تک جان چھوٹ سکتی ہے اور تیل کی درآمدپر خرچ ہونے والا بہت زیادہ زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔ 

واضح رہے کہ ہمارے دوست ملک چین نے اپنی معیشت کی بنیادیں وسیع کرنے اور اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لیے قابلِ تجدید توانائی کے ذرایع بہت دانش مندی کے ساتھ استعمال کیے ہیں اور مسلسل ان کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ تاہم حکومت کے اس اقدام سے اسی صورت میں حقیقی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جب ان ذرائع کے استعمال کے لیے ٹھوس، موثر اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کی جائے،اس ضمن میں دنیا کے کام یاب ماڈلز کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اور اس شعبے کے دیانت دار، مخلص اور قابل افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے ان کی آراء اور سفارشات کی روشنی میں حتمی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔

بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع استعمال کرکے ہم ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ پچاس فی صد تک کم کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب موجودہ صورت حال میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہماری بجلی کی پیداواری لاگت میں سالانہ اٹھارہ تا بیس فی صد کے حساب سے اضافہ ہوتا رہے گا۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق اس پیداواری لاگت کاپچّیس فی صد حصہ (آزاد ذرایع کے مطابق چالیس فی صد) لائن لاسز، بجلی کی چوری اور بعض افراد کو مفت بجلی کی فراہمی کی وجہ سے ہے جس کے نتیجے میں فی یونٹ نرخ میں پینتالیس فی صد تک اضافہ ہوجاتا ہے (یعنی 9 + 2 + 1 = 12 روپے)۔ 

اگر ہم اپنی بجلی کی کُل پیداوار میں سےتیس فی صد قابلِ تجدید توانائی کے ذرایع سے حاصل کرنے لگیں تو حکومت بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ پچاس فی صد تک کمی لاسکتی ہے۔ دوسری طرف چند برسوں میں دنیا بھر میں سولر پینلز کے نرخوں میں ستّر فی صد سے زاید حد تک کمی آچکی ہے اور سولر پینلز سے حاصل ہونے والی فی واٹ بجلی کے نرخ بھی کافی کم ہوچکے ہیں۔ سولر پینلز کی زندگی میں پندرہ گنا اضافہ ہونے کی بھی بات کی جارہی ہے۔ 

واضح رہے کہ اس وقت سولر پینلز بنانے والے دنیا کے معروف ادارے ان کے لیےبیس تا پچّیس برس کی وارنٹی دیتے ہیں۔ جب یہ وارنٹی بڑھے گی (یعنی سولر پینلز کی عمر میں پندرہ گنا اضافہ ہوجائے گا) تو ان سے پیدا ہونے والی بجلی کے نرخ مزید کم ہوجائیں گے، کیوں کہ یہ پینلز ایک بار لگانے کے بعد کئی دہائیوں تک انہیں تبدیل نہیں کرنا پڑے گا۔ یوں ان کی دیکھ بھال، مرمت اور تبدیلی کے اخراجات بہت کم ہوجائیں گے۔

طرزِ فکر تبدیل کرنے کی ضرورت

ہمیں توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے روایتی فکر سے ہٹ کر سوچنا ہوگا۔ مثلاً سعودی عرب تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ منصوبہ بنا چکا ہے کہ 2030ء تک وہ چوّن گیگاواٹ بجلی توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع سے پیدا کرے گا۔ اپریل 2013ء میں منظر عام پر آنے والے اس منصوبے کے مطابق یہ ملک اکتالیس گیگا واٹ بجلی ہوا، جیوتھرمل اور ویسٹ انرجی کے پلانٹس سے پیدا کرے گا۔ دوسری جانب ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ اگر اس شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے تو اس کے نتیجے میں ملک میں ملازمت کے لاکھوں مواقعے پیدا ہوسکتے ہیں۔ 

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے ہم پرائم منسٹر یوتھ ایمپلائمنٹ پروگرام میں بعض تبدیلیاں کرکے یہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں۔ مثلاً اس کا دائرہ بیس تا تیس لاکھ بے روزگار نوجوانوں تک بڑھادیا جائے اور وظیفے کے بجائے بینکس سے بلاسود قرضے فراہم کیے جائیں اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ ملنے والی رقم معیشت کے تین شعبوں سے روزگار کمانےکےلیے قابل تجدید توانائی کے ذرایع پر خرچ کریں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں اس منصوبے پر ہونےوالی تنقید ختم ہوجائے گی اور اس منصوبے کی افادیت میں اضافہ ہوجائے گا۔ 

واضح رہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں کانگریس کی پہلی حکومت کے دور میں اسی طرح کا منصوبہ بدعنوانیوں کی وجہ سے ناکام ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں ووکیشنل ٹریننگ کے منصوبوں میں توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع کا استعمال بھی شامل کیا جائے۔ ہمارے برادر ملک سعودی عرب نے منصوبہ بنایا ہے کہ تیس برسوں میں وہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع کے استعمال کو فروغ دے کر ملک میں ملازمت کے تیس لاکھ نئے مواقعے پیدا کرے گا۔ یورپ، امریکا اور چین ملازمت کے لاکھوں نئے مواقعے پیدا کرنے کے لیے یہ ذرائع کام یابی سے استعمال کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟

آسان شرائط پر قرض

اگر لوگ پانچ روپے بیعانے (ڈائون پیمنٹ) کی ادائیگی پر ملک میں موٹر سائیکل، پانچ ہزار روپے بیعانے پر قسطوں پر ایرکنڈیشنر حاصل کرسکتے ہیں تو پانچ سو یا ہزار روپے کی ادائیگی پر سولر سسٹم یا وِنڈمل سسٹم کی فراہمی کے لیے ہم کیوں نہیں کوششیں کرسکتے؟ اگر لوگ پچّیس تا پچھہتّر ہزار روپے خرچ کرکے گھریلو استعمال کے لیے یو پی ایس یا جنریٹر خرید سکتے ہیں تو ہم انہیں اس سے کہیں سستسے داموں سولر سسٹم خریدنے پر مائل کیوں نہیں کرسکتے؟ 

واضح رہے کہ سولر سسٹم کی دیکھ بھال پر آنے والا خرچ یو پی ایس اور جنریٹر کے مقابلے میں کہیں کم ہوتا ہے۔ اگر برطانیہ میں سولر اور وِنڈ سسٹم لگانے کے لیے حکومت بینکس کی مدد سے لوگوں کو آسان شرائط پر قرضے فراہم کرسکتی ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ ہم گھروں، چھوٹے کاروبار، کسانوں اور گھریلو صنعتوں کو ان ذرایع کے استعمال کے لیے آسان شرائط پر نرم قرضے فراہم کرکے مہنگی بجلی کا استعمال کم کرسکتے ہیں، ماحول کو آلودگی سے بچا سکتے ہیں، تیل کی درآمد کا بِل کم کرسکتے ہیں، مختلف کاروباری اداروں کی مصنوعات کی پیداواری لاگت اور خدمات کے معاوضے کم کرسکتے ہیں، لائن لاسز اور بجلی کی چوری کم کرسکتے ہیں اور اپنے عوام کو ادویات، اسکولز، اسپتالوں، اشیائے خورونوش، پانی کی ری سائیکلنگ اور ٹرانسپورٹ کے بِلز کی مد میں ریلیف فراہم کرسکتے ہیں۔

شمسی توانائی کا بڑھتا ہوا استعمال

آج پورے یورپ اور چین سمیت متعدد ممالک میں وسیع پیمانےپر سولر پینلز کا استعمال ہو رہا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں شمسی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں پر مسلسل تحقیق اور ایجادات ہو رہی ہیں۔ حتیٰ کہ ایسے طیارے کی بھی آزمایش کی جاچکی ہے جو شمسی توانائی سے چلتا ہے۔ سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر میں پینٹ والے، لچک دار، پی وی اور سولر تھرمل پینلز کا استعمال ہو رہا ہے۔ 

انہیں ٹرانسپورٹ سے متعلق سہولتوں میں (مثلاً گاڑیوں کی چھتوں پر، ریلوے اسٹیشنز، بس اسٹاپس اور ہوائی اڈوں پر) تجارتی مقامات پر (مثلاً دکانوں، چائے خانوں، تجارتی اداروں اور ریستورانوں، شاپنگ مالز، شادی ہالز وغیرہ میں) اور اشتہاری بِل بورڈز وغیرہ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ 

اس کے علاوہ عوامی مقامات پر روشنی کے لیے بھی ان کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ ہم اپنے فُٹ پاتس، راستوں اور پُلوں کے نیچے انتظامات کرکے کائناتی توانائی بھی حاصل کرسکتے ہیں، جس کی مدد سے ہم اپنے بازاروں کو روشن کرسکتے ہیں۔ شنگھائی ایکسپو 2011ء میں چین کے پویلین میں اس کا عملی مظاہرہ کیا جاچکا ہے۔

ہمیں اس شعبے میں اپنے دوست ملک چین سے اور بھی سبق سیکھنے ہوں گے۔ مثلاً اس نے یہ ذرایع استعمال کرکے اپنی زرعی پیداوار میں تیس فی صد تک اضافہ کرلیا ہے۔ ہماری حکومت کسانوں کو بجلی کے استعمال پر ایک تا سوا ارب روپے کی سبسڈی دینے یا ٹیوب ویلز کے لیے مفت بجلی فراہم کرنے کے بجائے اگر کسانوں بلاسود قرضوں کی فراہمی کا انتظام کردے تاکہ وہ اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے قابلِ تجدید ذرایع استعمال کرنے لگیں تو اس سے ہمارے بھی زرعی شعبے میں نمایاں بہتری آسکتی ہے، سرکاری خزانے پر پڑنے والا بوجھ کم ہوسکتا ہے، پاور سیکٹر کے گردشی قرضوں سے جان چھوٹ سکتی ہے، ماحولیاتی آلودگی میں کمی آسکتی ہے، پیداواری لاگت کم ہوسکتی ہے اور پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

متحدہ عرب امارات میں ہائبرڈ وِنڈ ملز کا استعمال بڑھ رہا ہے جو نہ صرف بجلی پیدا کرتی ہے بلکہ یومیہ آٹھ سو لیٹر پانی بھی زمین کے نیچے سے کھینچ کر اوپر لاتی ہے۔ چین میں پانی کو کھینچنے اور پھینکنے، پانی کو صاف اور ری سائیکل کرنے کے لیے ان ذرایع سے توانائی کا حصول تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، کیٹل فارمنگ بہتر ہوئی ہے، ڈیری کی مصنوعات کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور ملازمت کے نئے مواقعے پیدا ہوئے ہیں۔ اگر ہم اپنے لوگوں کو برطانیہ کی طرح اس کام کے لیے قرضے فراہم کریں اور ان سے یہ کہیں کہ وہ ماہانہ بجلی کے بھاری بھرکم بِل ادا کرنے کے بجائے بینکس میں ہر مہینے ان قرضوں کی قسطیں ادا کیا کریں تو ہم میں سے بہت سے افراد یہ پیش کش خوش دلی سے قبول کرنے کو تیار ہوں گے۔

یہ صرف حکومت کا کام نہیں

کیا یہ سارے کام ہماری حکومت کو کرنے ہوں گے، کیا وہ ایسا کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہے، کیا اس کے لیے سرکاری خزانے میں رقم موجود ہے اور کیا یہ صرف حکومت کی ذمے داری ہے؟ یقیناً یہ سب کچھ اکیلے کسی حکومت کے لیے کرنا ممکن نہیں ہے۔ تو کیا اس کے لیے ہمیں نجی شعبے کی مدد لینا ہوگی اور کیا نجی شعبہ اس کے لیے تیار ہوگا؟ بلاشبہ یہ کام نجی شعبے کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہوگا اور ہمارا نجی شعبہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے۔ ہمارے بہت سے تاجر، صنعت کار اور سرمایہ کار اس بارے میں لاتعداد مرتبہ بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ 

وہ توانائی کے قابلِ تجدید ذرایع میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے چین ہیں، لیکن آج تک کسی حکومت نے اس جانب سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ دس جون 2013ء کو بھی اسلام آباد کے تاجروں اور صنعت کاروں کی نمائندہ تنظیم اسلام آباد ایوانِ صنعت و تجارت نے اس بارے میں حکومت سے مطالبہ کیا تھا۔ اس تنظیم کے صدر، ظفر بختاوری نے حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ وفاقی میزانیے میں شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے مراعات کا اعلان کرے۔ 

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران کے لیے یہ قلیل المیعاد حل ہے۔ شمسی توانائی ماحول دوست ذریعۂ توانائی ہے اور ممکنہ طور پر کم سے کم وقت میں اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت کو سرکاری دفاتر میں شمسی توانائی کے استعمال کو فروغ دینا چاہیے اور بینکس، نجی تعلیمی اداروں میں اور سڑکوں پر روشنی کے لیے بھی اس کی مدد لینی چاہیے، حکومت کو ملک میں سولر پینلز کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دینی چاہیے اور ملک میں سولر پینلز بنانے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

نہایت سازگار موسمی حالات

پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے موسمی حالات عطا کیے ہیں کہ ہم صرف شمسی توانائی کے ذریعےچوبیس لاکھ میگا واٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف اس وقت ملک میں بجلی کی طلب تقریبا اُنتیس ہزار میگاواٹ اور شارٹ فال چھ تا سات ہزار میگا واٹ کا ہے۔ اس وقت ہم جو بجلی پیدا کر رہے ہیں اس کا زیادہ تر حصہ ان پلانٹس سے آتا ہے جو بجلی پیدا کرنے کے لیے رکازی ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم اپنے صرف دس لاکھ ٹیوب ویلز شمسی توانائی پر منتقل کردیں توسات ہزار میگاواٹ بجلی بچا سکتے ہیں۔ 

واضح رہے کہ ملک بھر کے زیادہ تر کسان اپنے ٹیوب ویلز چلانے کے لیے آج بھی نیشنل گِرڈ سے فراہم کی جانے والی بجلی پر انحصار کرتے ہیں اور تھوڑے بہت کسان یہ کام ڈیزل اور سولرپینلز کی مدد سے کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا نجی شعبہ پچھلی حکومت کو یہ پیش کش کرچکا ہے کہ اگر وہ سہولتیں اور مراعات فراہم کرے تو نجی شعبہ شمسی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کرکے یومیہ پندرہ ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کرنے کے لیے تیارہے، لیکن نہ جانے کون سے نادیدہ ہاتھ ہیں جو اس راہ میں روڑے اٹکاتے رہتے ہیں۔

کام یابی کے امکانات

کیا قابلِ تجدید توانائی کے منصوبے پاکستان میں کام یاب ہوسکتے ہیں اور کیا اس کی ملک میں کوئی مثال ملتی ہے؟ بلاشبہ یہ منصوبے پاکستان میں پوری طرح کام یاب ہوسکتے ہیں اور پاکستان میں شمسی توانائی کے کام یاب استعمال کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ مارچ 2012ء میں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی کی گرانٹ سےچوّن لاکھ امریکی ڈالرز کی لاگت سے بننے والا پہلا آن گِرڈ سولر پاور اسٹیشن اسلام آباد میں بجلی پیدا کررہا ہے۔ یہ پاور اسٹیشن 178.9کلوواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پنجاب میں سو میگاواٹ کا پلانٹ کام کررہا ہے (اگرچہ ناقص منصوبہ بندی اور دیگر مسائل کی وجہ سے اس کی پیداواری صلاحیت بہت کم ہے) کراچی، لاہور اور راول پنڈی میں متعدد مقامات پر سولر اسٹریٹ لائٹس اور سگنل لائٹس کام یابی سے استعمال ہو رہی ہیں۔ اب بہت سے گھروں اور تجارتی اداروں نے بھی شمسی توانائی سے استفادہ کرنا شروع کردیا ہے۔ ملک کے متعدد مقامات پر (خصوصاً دیہی علاقوں اور ایسے علاقوں میں جو نیشنل گِرڈ سے دور واقع ہیں) مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور لوگوں کی انفرادی کوششوں کے نتیجے میں اب سولر ٹیوب ویلز، گیزرز، بلب اور پنکھے شمسی توانائی کی مدد سے چلنے لگے ہیں اور ان میں سے بعض کی عمرآٹھ،دس برس تک ہوگئی ہے۔

ہمیں اللہ تعالیٰ نے سورج کی روشنی کی طرح ہوا بھی فراخی کے ساتھ عطا کی ہے۔ ہم اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس سے بھی بھرپور انداز میں استفادہ کرسکتے ہیں اور اس ذریعۂ توانائی کے چھوٹے اور بڑے پیمانے پر کام یابی سے استعمال کی ہمارے ہاں کئی مثالیں موجود ہیں۔پاکستان میں کئی علاقوں کو وِنڈ کوریڈورز (وہ علاقے جہاں سال بھر اتنی رفتار سے ہوا چلتی رہتی ہے کہ وہاں بڑے پیمانے پر وِنڈ مِلز لگا کر بہت زیادہ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے) قرار دیا گیا ہے۔ 

ماہرین سندھ میں بھی کئی وِنڈ کوریڈورز کی نشان دہی کرچکے ہیں جن میں سے گھارو کوریڈور کو زیادہ موثر قرار دیا جاتا ہے۔ یہ کوریڈور گھارو، کیٹی بندر اور جھمپیر کے علاقوں پر محیط ہے ۔ جھمپیر میں 2008ء میں ترکی کی ایک کمپنی نے وِنڈ فارم کے منصوبے پر کام کا آغاز کیا تھا۔ اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے پر پانچ ٹربائنز کی مدد سے 6 میگاواٹ یومیہ بجلی کی پیدوار 19؍اپریل 2009ء کو شروع ہوگئی تھی۔

ہمارے پڑوسی ممالک بھارت اور چین بھی بڑے پیمانے پر وِنڈ ٹربائنز نصب کر رہے ہیں اور بھارت میں ان کے ذریعے مجموعی طور پرسات ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ جھمپیر کی بیلٹ کا محلِ وقوع کچھ ایسا ہے کہ ہوا یہاں سے گزر کر بھارت کی طرف جاتی ہے، لہٰذا ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے پر بھرپور توجہ دی جائے تو ہم بھارت کے مقابلے میں ہوا کی مدد سے کہیں زیادہ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کوریڈور میں سوائے ڈیڑھ تا دو ماہ کے سارا سال مطلوبہ حد تک ہوا چلتی رہتی ہے۔ 

یہاں مارچ تا ستمبر سب سے زیادہ ہوا چلتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کوریڈور پر سنجیدگی سے توجہ دیں تو ملک بھر کے باسیوں کا موسمِ گرما بہترین انداز میں گزر سکتا ہے کیوں کہ مارچ تا ستمبر پاکستان میں بجلی کی طلب عروج پر ہوتی ہے۔ اگر ہم صرف اس کوریڈور پر توجہ دیں تو ملک بھر کے لیے یہاں بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں صرف ہوا کے ذریعے تین لاکھ چھیالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ صرف سندھ کی گھارو تا کیٹی بندر پر محیط ساٹھ میل طویل پٹی پر وِنڈ فارمز قائم کرکے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔

دنیا کے بیش تر علاقوں میں ہوا کی رفتار 6.2 تا 6.9 میل فی سیکنڈز ہوتی ہے اور اسے اچھی کیٹیگری میں شمار کیا جاتا ہے۔ گھارو کیٹی بندر کوریڈور میں ہوا کے بہاؤ کی اوسط رفتار 7.5 تا 7.7 میل فی سیکنڈ ہے جو بجلی پیدا کرنے کے حوالے سے بہترین کیٹیگری میں آتی ہے۔ ماضی میں حکومت نے منصوبہ بنایا تھا کہ اس ذریعے سے سندھ میں2015ء تک 2500میگاواٹ بجلی پیداکی جائے گی۔ 

پورٹ قاسم کے قریب چارسومیگاواٹ کے وِنڈ فارم کے ایک منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔ دامنِ کوہ، اسلام آباد، میں بھی وِنڈ پاور پائلٹ پروجیکٹ کے منصوبے پر کام کا آغاز ہوا تھا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟ ہم آگے کیوں نہیں بڑھ رہے؟ حکم رانوں کو اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے۔ ورنہ بجلی کو ترسے ہوئے عوام کا سونامی انہیں بہالےجائے گا۔ سہولتوں اور مراعات کا اعلان اچھی بات ہے، لیکن ان سہولتوں اور مراعات کے استعمال کے لیے سرمایہ کاروں کو راضی کرنا بہت اہم مرحلہ ہے۔ دوسری صورت میں یہ اعلانات دعوئوں اور وعدوں سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔