• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج کل پاکستان میں پانامہ لیکس اسکینڈل ، وزیر اعظم پاکستان کی تبدیلی ،نیا وزیر اعظم کون ہوگا ،ویڈیو لنک پر وزیر اعظم کا خطاب غیر آئینی ہے ،شہباز شریف پر اعتماد نہیں وہ وزیر اعظم نہیں بنیں گے ،سینیٹر وزیر اعظم نہیں بن سکتا ،وزیر اعظم قومی اسمبلی سے ہی لیا جائے گا ،آرمی چیف نے فیصلہ کر لیا ،اسحاق ڈار کو وزیر اعظم کے اختیارات ملنا مہنگا پڑے گا ،وزیر اعظم پاکستان قطعاً بیمار نہیں ان کی بیماری ایک بہانہ ہے ،وہ اپنے ذاتی ڈاکٹر کو چھوڑ کر لندن کے عام اسپتال میں داخل کیوں ہوئے ؟بیماری ایک ڈھونگ ہے جس کے ذریعے پانامہ لیکس سے عوام کا دھیان ہٹانا مقصود ہے ،وزیر اعظم کا خاندان لندن منتقل ہو رہا ہے ،وزیر اعلیٰ شہباز شریف لندن پہنچ گئے ،کوئی بڑی خبر آنے والی ہے ،وزیر اعظم کے بچوں کے بیانات نے انہیں پھنسا دیا ،وزیر اعظم نے لندن کے عام ریسٹورنٹ پر اہل خانہ کے ساتھ کھانا کھایا ،مسلم لیگ ن میں سے نئی سیاسی پارٹی وجود میں آ رہی ہے ،نئی جماعت ’’ عام آدمی پارٹی ‘‘ کے نام سے کام کرے گی اور اس میں وزیر اعظم کے خاندان کے کچھ لوگ بھی شامل ہوں گے اس پارٹی کا دفتر ماڈل ٹائون میں ہوگا ،وزیر اعظم نے آصف زرداری سے مدد مانگ لی ،مولانا فضل الرحمان وزیر اعظم اور آصف زرداری کی صلح کرانے لندن پہنچ گئے ،چوہدری نثار احمد کو وزیر اعظم بنایا جا سکتا ہے ،مسلم لیگ ن میں فارورڈ گروپ بن گیا ،وزیر اعظم اوپن ہارٹ سرجری سے ایک دن پہلے ٹاور برگر کیسے کھا سکتے ہیں ؟وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ خبریں اور افواہیں ہیں جو پاکستان میں تو گردش کر ہی رہی ہیں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں کا دھیان بھی انہی خبروں کی جانب مبذول ہے ۔پاکستان کے اخبارات ، جرائد اور الیکٹرانک میڈیا ان خبروں کی گردش میں شاید اتنی ’’ سنسنی ‘‘ پیدا نہ کر رہا ہو جتنی فیس بک اورعام آن لائن اخبارات کی طرف سے پیدا کی جا رہی ہے ان اخبارات کے مالکان اپنی ویب سائٹ کی رینکنگ بڑھانے اور اس کی آڑ میں گوگل کے اشتہارات حاصل کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ کمائی ہو سکے ،ویب سائٹ کے مالکان اور فیس بک کے ’’ فلاسفر ‘‘ اس بات سے بے خبر اپنی جانب سے بنائی جانے والی خبر کی تشہیر میں مشغول ہیں کہ ایسی باتوں کا دیار غیر میں مقیم پاکستانیوں پر کیا اثر ہو سکتا ہے ۔فیس بک پر وہ افراد بھی فلاسفر بن جاتے ہیں جنہیں ان کے اپنے والدین کمرے سے یہ کہہ کر نکال دیتے ہیں کہ بیٹے باہر چلو ہمیں کوئی ضروری بات کرنی ہے ۔میری ناقص رائے یہ کہتی ہے کہ وزیر اعظم کو بیماری کا ڈرامہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی بیماری کوئی ڈرامہ ہوتی ہے ۔حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو ، تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان ،مولانا فضل الرحمان ، خورشید شاہ ، پختون پارٹی کے سربراہ ،مسلم لیگ ق کے چوہدری شجاعت حسین ،پرویز الہٰی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے سربراہان اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہیں جبکہ ان پارٹیوں کے ممبران اور چاہنے والوں نے فیس بک پر اپنے فلسفے کا طوفان بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے ۔میاں محمد نواز شریف مسلم لیگ ن کے سربراہ ہیں ، پاکستان کے وزیر اعظم ہیں لیکن وہ ایک ماں کے بیٹے اور بچوں کے باپ بھی ہیں ، وہ ہماری طرح ایک انسان ہیں انہیں اس وقت دعائوں کی ضرورت ہے تمام سیاسی کارکنان اور ان کی پارٹیوں کے سربراہان اپنے اختلافات قائم رکھیں لیکن جس شخص سے انہیں اختلاف رائے ہے اس کی زندگی اور صحت کی دعا کریں ۔وزیر اعظم پاکستان کی بیٹی مریم نواز نے پوری قوم سےاپیل کی کہ ان کے والد کی صحت یابی کے لئے دعا کریں ،مسلم لیگی تودعائیں کرنا شروع ہو گئے لیکن کچھ ناقدین اور دوسری جماعتوں کے شرارتی کارکن مریم نواز کی اس اپیل پر ’’واہ حیاتانہ ‘‘ فلسفہ جھاڑنے اور طنز کرنے لگ گئے جو انتہائی افسوس ناک عمل ہے۔میں نے پاکستانی فلموں ، ڈراموں ،افسانوں اور کہانیوں میں دیکھا اور پڑھا ہے کہ دو دشمنوں کے مابین صلح کا باعث ایک بیٹی ہی بنتی ہے ۔پنجابی فلموں کا تو یہ مشہور ڈائیلاگ ہے کہ ’’ دھی دشمن دی ہووے تاں وی دھی ہوندی اے ‘‘ اس کا مطلب ہے کہ دشمنی اپنی جگہ لیکن بیٹی کا مقام ایک جیسا ہی ہوتا ہے ۔مریم نواز کو قطعاً یہ یاد نہیں کہ پاکستان میں ان کی حکومت ہے ، وہ بھول گئی ہے کہ اس کے چچا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں ،اس کا دھیان اس طرف بھی نہیں کہ اس کا باپ ایک ایٹمی طاقت کا وزیر اعظم ہے اسے یاد ہے تو صرف یہ کہ اس کا باپ بیمار ہے ،اس کا دھیان ہے تو اس طرف کہ اس کے والد اوپن ہارٹ سرجری کرانے جا رہے ہیں وہ پل پل اپنے باپ کے ساتھ ہے اس کی تیمارداری کر رہی ہے اور خود دعائیں کرتے کرتے پاکستانی عوام سے بھی اپنے باپ کی صحت یابی کی دعائوں کی طلب گار ہے ،کیونکہ وہ ایک بیٹی ہے ۔
تین دن پہلے کی بات ہے کہ ہماری قوم میاں محمد نواز شریف کو ایک جرات مند فیصلہ کرنے والے وزیر اعظم کے طور پر یاد کر رہی تھی ۔یوم تکبیر 28مئی ہر سال آتا ہے اور ہربار پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اپنے آپ کو ایٹمی طاقت ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔میرے خیال میںدنیا کی بڑی طاقتوں کے پریشر کے باوجودایٹمی دھماکہ کرنے کاحکم دینے والے دلیر وزیر اعظم کو بیماری کا بزدلانہ بہانہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت پاکستان کو ترقی کی جانب نہیں لے جا سکی ۔گوادر پورٹ کا منصوبہ ، میٹرو بس ، اورنج ٹرین ، نئی موٹر ویز ،بجلی بنانے کے کارخانے ،بڑی سڑکیں ، ٹریفک کو کنٹرول کرنے کے لئے اوورہیڈ برج ،خاص کر چائنا کے ساتھ مل کر پاکستان میں بہت سے منصوبوں پر سرمایہ کاری یہ عوامل پاکستانی عوام کے دلوں میں گھر کرنے کے لئے احسن اقدام ہیں ۔میں پاکستان کی موجودہ حکومت کی حمایت میں کوئی بات نہیں کر رہا بلکہ میں تو خود چاہتا ہوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ، قومی ادارے ، عدالتیں اور عوام مسلم لیگ ن کی حکومت سے پورا حساب لیں ،پانامہ لیکس اسکینڈل کی مکمل انکوائری ہونی چاہئے ، میرا موقف تو صرف یہ ہے کہ ایک بیٹی کی اپنے باپ کے بارے میں کی جانے والی فریاد کو سنتے ہوئے وزیر اعظم کے لئے نہیں بلکہ ایک باپ کی صحت یابی اور زندگی کی دعا کے لئے ہاتھ ضرور اٹھانے چاہئیں ۔شایدمیری یہ سوچ اس لئے ہے کہ میںبھی بیٹیوں کا باپ ہوں ۔
تازہ ترین