لیلیٰ اگر اقتدار ہوتی تو مجنوں کا دیوانہ پن کئی گنا زیادہ ہوتا۔ جتنی تگ و دو سیاستدان اقتدار کے حصول کےلیے سالہا سال بلکہ عمر بھر کرتے ہیں اس عشق کا رتی بھر جنون رانجھا، پنوں، فرہاد اور مجنوں میں ہوتا تو سب اپنی اپنی محبوبائوں کے ساتھ اور ان کی اولادوں اور ان کے بچوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارتے۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ اقتدار کی ہوس کسی بھی دوسرے جذبے سے زیادہ آتشِ آرزو بھڑکاتی ہے۔ہم سیاسی رہنماؤں کو دیکھ دیکھ کر تھک جاتے ہیں مگر انہیں اقتدار کی لٹکتی گاجر تھکنے نہیں دیتی۔ یہ اس پر لپکتے رہتے ہیں۔ نئے جذبوں اور زاویوں سے زور لگاتے ہیں۔ان میں جدت کی صلاحیت بدرجہ اَتم موجود ہوتی ہے۔ یہ نئے پینترے بدل کر اور نئی پنیوں میں پرانے وعدے لیکر میدان میں آتے ہیں، اپنے اپنے چاہنے والوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کچھ نہ کچھ گاجر لے ہی مرتے ہیں۔ یہ سدا اقتدار کی آغوش میں رہنا چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سیاسی رہنما دھول اپنے مداحین، چاہنے والوں اور ووٹروں کی آنکھوں میں ہی جھونکتے ہیںکیوںکہ وہ با آسانی ان کی بات مان لیتے ہیں۔ مخالفین تو ان کے جھانسوں اور’’جھاکوں‘‘ میں نہیں آتے۔ وہ ہر بات پہ شک کا اظہار کرتے ہیں اور مخالفت برائے مخالفت کرتے ہیں۔وہ تو ٹھیک بات کو بھی غلط سمجھتے ہیں کیونکہ مخالف نے کہی ہوتی ہے۔لہٰذا رہنماؤں کا اصل ہدف اپنے ہی ووٹر ہیں جو ہر جھوٹ سچ پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لیتے ہیں۔ رہنما جو بھی جھوٹے سچے خواب دکھاتے ہیں، وہ چپ چاپ خوشی خوشی انہیں اپنی بند آنکھوں میں سمو لیتے ہیں۔ نواز شریف لاکھ صفائیاں دیں، پی ٹی آئی والے ان کے خلاف قائم مقدموں کو درست ہی سمجھیں گے۔اور چاہے الزامات درست ہوں، پی ایم ایل ن والے اسے حکومت و عدلیہ کی سازش سمجھیں گے۔ عمران خان ہزار دانوں والی تسبیح استعمال کر لے، مخالفین اسے جھوٹا ہی سمجھیں گے اور وہ جتنے بھی یو ٹرن لے لیں،پی ٹی آئی والے آمنا صدقنا کہیں گے۔ پس ثابت ہوا دھول اپنوں کے لیے ہے۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ عوام بھی دھوکے میں ہی رہنا چاہتے ہیں تو رہنما انہیں دھول، دھوکے اور دھاندلی سے نوازتے رہتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کا وتیرہ تو واضح ہو گیا کہ وہ جو کرتے ہیں وہ کیوں کرتے ہیں۔ مگر عوام کا رویہ ایک معمہ ہے۔ رہنماؤں کی اندھا دھند تقلید اور ہر بات کی توثیق کی کیا وجوہات ہیں؟ کیا یہ سچ ہے کہ وہ اپنے طور پر سوچنے صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے بنی بنائی بات پہ یقین کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ یا پھر وہ سادہ لوح ہیں اور ان کے پاس رہنماؤں اور حکومت کی سچائی کو پرکھنے کی علمی و ذہنی صلاحیت اور استعداد کی کمی ہے۔ یہ بات جزوی طور پر صحیح ہو سکتی ہے۔ اکثر ووٹراپنے رہنما کے سحر میں گم ہو کر اپنی سوچ سمجھ اس کے سپرد کر دیتے ہیں اور فرض کرتے ہیں کہ جو وہ کہہ رہا ہے وہ حقیقت ہی ہونی چاہئے۔ اس کوذہنی کاہلی اور عملی کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر خود کر نہیں پاتے تو کسے لیڈر یا ہیرو کے پیروکار بن کر تسکین و تسلی حاصل کرتے ہیں۔ ٹارزن، سپر مین، سپائیڈر مین وغیرہ جیسے کرداروں سے بچے اور بڑے کیوں متاثر ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی غیر مرئی طاقت اور کارناموں میں اپنی کمزوری کی تشفی کرتے ہیں اور تسکین حاصل کرتے ہیں۔ اور قریب کی مثال سلطان راہی کی فلموں کی ہے جن کو عام طبقے میں بے پناہ پذیرائی ملتی تھی۔ سلطان راہی بڑھک مار کر طاقتور کو چیلنج کرتا تھا اورچاہے بدمعاش ہو یا جیل کا ظالم ڈپٹی ان کو گنڈا سے کی نوک پر راہِ راست پہ لے آتا تھا۔ تماشائیوں کو ان بڑھکوں اور گنڈا سے کے واروں میں اپنی محرومیوں پہ مرہم لگتی محسوس ہوتا تھا۔ وہ بھول جاتے تھے کہ یہ فلمی بڑھک ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ سیاستدانوں نے یہ کمزوری بھانپ لی ہے اور ایسی بڑھکوں سے اپنے مداحین کے دل گرماتے رہتے ہیں اور اقتدار میں آتے رہتے ہیں۔ اگر ہم کمائی اور دولت میں اضافے کے خواہشمند ہوں اور ایسے میں کوئی یہ بتلائے کہ اس کے پاس ایسا منصوبہ ہے کہ ایک سال میں دولت دوگنی ہو جائے گی تو اکثریت اس کے لیے تیار ہو جائے گی۔ یہ کوئی مفروضہ نہیں۔ ڈبل شاہ اور ایسے سینکڑوں کیسوں سے ہم آگاہ ہیں۔ اور اس کا نتیجہ دھوکے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ہم ملک کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ایک اونچی آواز والا بڑھک باز ہمیں یقین دلاتا ہے کہ وہ یہ کام کر دے گا۔ ہم اندھادھند اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اور اس کی غلط صحیح باتوں کو مانتے جانتے ہیں۔ یہ معصومانہ اور غلامانہ رویے والے کوئی ان پڑھ یا جاہل لوگ نہیں ، بہت تعلیم یافتہ بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ رہنما بدلیں یا عوام کو بدلیں؟ جواب یہ ہے کہ عوام بدلیں گے تو رہنماؤں کو بدلیں گے۔ تو پہلے عوام اپنی آنکھیں اور دماغ کھولیں۔ اپنی خواہشات کے دست بستہ غلام بن کر رہنماؤں کی اندھا دھند پیروی مت کریں۔ ان کا ہدف تو اقتدار ہے۔ اس دوڑ میں وہ ہر قسم کے بلند بانگ دعوے کریں گے۔ بڑھکیں ماریں گے کیوں کہ ہم طبعاً اس سے خوش ہوتے ہیں۔ ہمارے جذبات سے کھیلیں گے۔ عوام کا فرض ہے کہ تھوڑا سا وقت نکال کر اپنے اپنے پیارے سیاسی رہنما کے وعدوں اور دعوؤں کی چھان پھٹک کریں۔ دوسروں سے زیادہ اپنے اپنے رہنماؤں کو چیلنج کریں۔ ان کے اندر زیادہ جھانکیں کیوں کہ انہوں نے ہی آپکی آنکھوں میں دھول جھونکنی ہے۔ ان کی بڑھک پر بھڑک مت اٹھیں۔ ہر نعرے کو سچ مت جانیں۔ ہر نعرہ نعرہ ٔمستانہ نہیں۔ ہر چمکیلی شے سونا نہیں۔