مدثر اعجاز، لاہور
رئیس احمد کی ٹانگ میں آج پھر شدید درد اُٹھ رہا تھا، جس کی شدّت سے اُس کا جسم جنوری کے ٹھنڈے موسم میں بھی پسینے سے شرابور ہو گیا تھا۔ دانت بھینچے، ہونٹ سکیڑے رئیس احمد بمشکل اپنی چیخیں روک پارہا تھا اور سرہانے بیٹھی اس کی بیوی، نیک بخت بےبسی سے اُسے دیکھ رہی تھی۔ رئیس احمد کے لیے درد کا یہ دَورہ نیا نہ تھا کہ مہینے میں دو، تین بار ایسا ہوتا ہی تھا۔ ’ ’کب تک ایسے بیٹھی رہوں گی؟ انہیں فوراً اسپتال لے کر جانا پڑے گا۔‘‘ رئیس احمد کی بیوی نے سوچا۔ وہ اپنے شوہر کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو دیکھ کر بہت اداس اور پریشان ہوجاتی تھی کہ وہ کبھی ایسا نہ تھا، وہ تو ایک باہمّت، مضبوط انسان تھا، جانے کیوں اب ذرا سی تکلیف میں اس قدر تڑپ اُٹھتا تھا۔
رئیس احمد نے اپنی ساری زندگی بڑی بہادری اور رکھ رکھاؤ سے گزاری تھی۔ متوسّط درجے کی سرکاری نوکری کے باوجود اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے اور دو بیٹیوں کو اچھی تعلیم دلوائی، بچیوں کی شادیاں کیں، جو اپنے گھروں میں خوش و خرّم تھیں۔ اس کا گھر چھوٹا ضرور تھا، مگرجو پینشن ملتی، اُس سے زندگی مزے میں گزر رہی تھی۔ دونوں میاں بیوی کو کبھی موسمی بخار کے علاوہ کوئی بیماری نہیں ہوئی تھی، پھر چار، پانچ سال سے یہ ٹانگ کا درد اُٹھنے لگا، جو ان کا سارا سکون تباہ کردیتا۔
’’اُٹھیں رئیس! اسپتال چلتے ہیں۔ آپ ذرا ہمّت سے کام لیں اور دروازے تک آئیں، مَیں رکشا لے کر آتی ہوں۔ ‘‘نیک بخت نے چادر اوڑھ کےاپنے میاں کی پرانی رپورٹس، ایکسرے کا لفافہ پکڑتے ہوئے کہا۔ وہ جانتی تھی کہ درد سے بے چین رئیس ابھی ہائے ہائے کرتا جیسے تیسے بھی ہو، اُٹھے گا اور گرتا پڑتا دروازے تک پہنچ ہی جائے گا، پھر اسپتال کا کوئی چھوٹا ڈاکٹر یا نرس اسے ایک، دو ٹیکے لگا دے گی، جس سے اس کا درد ختم ہو جائے گا اور وہ بھلا چنگا اُس کے ساتھ پیدل ہی گھر آجائے گا۔
مگر اس دفعہ وہ کچھ اور ہی سوچ رہی تھی۔ ’’رئیس! اب کی بار ہم بڑے ڈاکٹر کو ملے بغیر واپس نہیں آئیں گے، پھر چاہے ان کا انتظار کرتے کرتے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہوجائے۔ مَیں ڈاکٹر سے کہوں گی کہ وہ اچھی طرح تمہاری ٹانگ کا معائنہ کرے اور دوبارہ ایکسرے بھی کروائے، آخر باربار یہ درد کیوں اُٹھتا ہے۔‘‘رکشے مَیں بیٹھ کر رئیس احمد کی بیوی بولی۔ ’’ارے چھوڑو بھی نیک بخت، کیا فائدہ ان سب باتوں کا؟ کئی دفعہ بڑا ڈاکٹر دیکھ چُکا ہے اور ایکسرے بھی ہو چُکے ہیں، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آتا۔ اب تو بس مَیں اس درد کے ساتھ ہی قبر میں جاؤں گا۔‘‘ رئیس احمد نے بھیگی آنکھیں پونچھتے ہوئے درد سے لرزتی آواز میں جواب دیا۔’’کیا واقعی اس قدر درد ہے کہ تمہارے آنسو نہیں رُک رہے؟‘‘
نیک بخت نے شوہر کا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا۔ ’’ہاں نیک بخت، بہت شدید درد ہے، ایسا لگتا ہے، جیسے موت کا فرشتہ جسم سے روح کھینچ رہا ہو۔ دل کرتا ہے کہ وہ ایک ہی بار میں اپنی چیز لے جائے اور جسم کو سکون مل جائے۔‘‘ رئیس احمد نے کراہتے ہوئے کہا۔ ’’توبہ کریں رئیس ، ہمّت رکھیں، زندگی سے ایسے مایوس نہیں ہوتے۔ چلیں، اسپتال آگیا، بس اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ نیک بخت نے کہا۔ رکشا عین ایمرجینسی وارڈ کے سامنے رُکا۔ نیک بخت نے وہاں رکھی ایک وہیل چیئر لی، اس پر رئیس احمد کو بٹھایا اور خود پرچی بنوانے چل دی۔ ’’آج پھر میاں جی کو درد کا دورہ پڑ گیا آنٹی جی؟‘‘ پرچی بنانے والے نے رئیس احمد کی بیوی کو پہچانتے ہوئے ازراہِ ہم دردی کہا۔’’ہاں بیٹا، یہ درد تو مصیبت ہی بن گیا ہے ہمارے لیے۔
کئی بار تمہارے ڈاکٹر سے دوالی ہے، بہت بار ٹیکے بھی لگوائے، مگر درد ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑتا۔ اے بیٹا! مَیں تو کہتی ہوں، اِس بار ہمیں کسی طرح ہڈیوں والے بڑے ڈاکٹر سے ملوا دے، شاید وہ اس درد کا کوئی پکّا علاج کردے۔‘‘ نیک بخت نے التجائیہ انداز میں کہا۔ ’’ارے آنٹی جی! پکّا علاج تو تب ہو، جب بیماری کا کچھ پتا چلے۔
درجنوں بار تو تم ایکسرے کروا چُکی ہو، ڈاکٹروں کو ہڈی پر کوئی چوٹ نظر ہی نہیں آتی اور نہ ہی ٹانگ پر کوئی زخم ہے۔ خون کے ٹیسٹس کی رپورٹ بھی ٹھیک آتی ہے۔‘‘’’بیٹا! اس بار تو ہم پکّا علاج کروا کر ہی گھر جائیں گے۔ بس آج تم ہمیں بڑے ڈاکٹر سے ملوا دو۔‘‘ رئیس احمد کی بیوی نے منّت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’اچھا چلو آنٹی جی، ابھی تو تم ٹیکا لگوائو اور میاں جی کو کچھ دیر بستر پر لیٹا رہنے دو، پھر مَیں ہڈّی والے وارڈ میں لے چلوں گا اور وہاں کوئی بڑا ڈاکٹر دیکھ لے گا۔پرچی بنانے والے نے کہا تو نیک بخت وہیل چیئر دھکیلتی ہوئی ایمرجینسی وارڈ میں لے گئی۔
اندر کے مناظر اُس کے لیے نئے نہ تھے، جہاں مریضوں سے زیادہ ان کے لواحقین کا رَش تھا۔ ہر بستر کے گرد چار، پانچ افراد مریض کو گھیرے کھڑے تھے، تو سفید کپڑوں میں ملبوس نرسز کبھی انجیکشن، تو کبھی گلوکوز کی بوتلیں پکڑی ایک مریض سے دوسرے مریض کے پاس آ، جا رہی تھیں۔اس بھیڑ میں کہیں کہیں سفید کوٹ پہنے نوجوان ڈاکٹرز بھی اپنے کام میں مصروف نظر آرہے تھے، لیکن نرسز کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔ ’’بابا جی! کیا ہوا ہے آپ کو؟‘‘ نرس نے رئیس احمد کو غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ شاید وہ اس کی بیماری کا اندازہ لگانا چاہتی تھی۔
دونوں میاں، بیوی کے لیے یہ سوال غیر متوقع نہ تھا، بلکہ دونوں کو نرس کے اگلے سوال کا بھی پتا تھا، اسی لیے نیک بخت فوراً بولی’’ان کی ٹانگ میں سخت درد ہے، مگر نہ تو انھیں کوئی چوٹ لگی ہے اور نہ ہی ٹانگ پر کوئی زخم ہے۔ ہم کئی بار ایکسرے بھی کروا چُکے، خون کے ٹیسٹ کی رپورٹس بھی ٹھیک ہیں۔ مگر بیماری کا کچھ پتا نہیں چلتا، بس آپ درد ختم کرنے کا ٹیکا لگا دیں، تاکہ انہیں کچھ سکون ملے تو ہم بڑے ڈاکٹر کو دکھا سکیں۔ ڈاکٹر سے ہماری ملاقات کا وقت بھی طے ہوگیا ہے۔‘‘
نرس نے حیران ہو کر رئیس احمد کی بیوی کی طرف دیکھا اور پھر اپنی تسلّی کے لیے مریض کی ٹانگ کا بغور معائنہ کیا، تو دیکھ کر حیران رہ گئی کہ واقعی نہ اس کی ٹانگ پر کوئی زخم تھا، نہ ہی کوئی سوجن، مگر اس کے باوجود وہ درد سے بے چین تھا۔ ’’اچھا، مَیں ڈاکٹر صاحب سے پوچھ کر ٹیکا لگا دیتی ہوں۔‘‘ اس نے بے یقینی کی سی کیفیت میں جواب دیا۔‘‘ نرس نے ٹیکا لگا کر کہا ’’بابا جی! اب کچھ دیر میں آپ کو آرام آجائے گا۔‘‘یہ بات تو نیک بخت بھی جانتی تھی کہ اب کچھ دیر بعد رئیس احمد آنکھیں بند کرکے سونے کی اداکاری کرے گا، لیکن درحقیقت وہ کسی گہری سوچ میں کھو جائے گا۔
قریباً ایک گھنٹے بعد وہ دونوں پرچی والے کے ساتھ ہڈی وارڈ میں جارہے تھے۔ رئیس احمد کی چال میں کوئی لڑکھڑاہٹ نہ تھی، وہ کسی صحت مند انسان کی طرح بڑے بڑے قدم بھر رہاتھا۔’’نیک بخت! رہنے دو، کیا جانا بڑے ڈاکٹر کے پاس۔ دیکھو اب مَیں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘‘’’نہیں بھئی، آپ جو مرضی کہیں، آج تو ہم بڑے ڈاکٹر سے مل کر ہی جائیں گے۔ اللہ کرے وہ کوئی ایسی دوا دے،جس سے یہ مصیبت ختم ہو جائے۔‘‘ اس کی بیوی بولی۔’’ہاں میاں جی، مل لو بڑے ڈاکٹر سے، اب دیکھو اس عُمر میں آنٹی جی روز روز کہاں آپ کو لیے اسپتال کے دھکّے کھاتی پھریں گی۔ اپنا نہیں، تو ان ہی کاخیال کرلو۔‘‘پرچی والے کی بات کے بعد اب رئیس احمد کے پاس انکار کی گنجائش نہ تھی۔
ہڈّی وارڈ کے ہر بستر پر کوئی نہ کوئی مریض لیٹا ہوا تھا۔ کسی کی ٹانگ پر موٹا سفید پلستر بندھا تھا، تو کوئی مریض بازو، گلے کے ساتھ لٹکائے بستر پر بیٹھا تھا۔ چند مریض تو ایسے بھی تھے، جن کی دونوں ٹانگوں پر موٹا پلستر کر کے چھت پے لگی آہنی سلاخوں سے باندھ دیاگیا تھا۔ لیکن اس وارڈ میں ایمرجینسی وارڈ کی طرح لوگوں کا رش نہ تھا۔’’آگیا تمہارا مریض؟‘‘ پرچی والے کو دیکھ کر ایک ادھیڑ عُمر نرس اس کی طرف بڑھی۔ ’’جی باجی آگیا۔بڑے ہی بھلے مانس ہیں۔ ویسے توبابا جی بالکل صحت مند ہیں، مگر نہ جانے انہیں ہر دس، پندرہ دن بعد ٹانگ کے درد کا دَورہ کیوں پڑ جاتا ہے۔‘‘
پرچی والے نے بتایا۔ ’’پرانے ایکسرے لائے ہیں ساتھ؟‘‘نرس نے رئیس احمد کی بیوی سے پوچھا۔ ’’جی، سب لائی ہوں‘‘اس نے پلاسٹک کا لفافہ لہراتے ہوئے کہا۔ ’’آجائیں ادھر کمرے میں‘‘ نرس نے ایک کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ڈاکٹر کا کمرا زیادہ بڑا تو نہ تھا، مگر صاف ستھرا تھا۔ ایک طرف بیٹھنے کے لیے چھوٹی سی میز، کُرسی تھی، میز کے پیچھے چمڑے کے دوصوفے رکھے تھے اور دیوار کے ساتھ ایک چھوٹا سا بستر لگا تھا۔
ڈاکٹر کے پاس مزید دو ،تین ڈاکٹرز بھی کھڑے تھے، جن کی عُمروں سے لگتا تھا کہ وہ بڑے ڈاکٹر کے معاون ہیں۔ ’’جی اسٹاف، آگیا آپ کا مریض؟‘‘ ڈاکٹر نے نرس سے پوچھا۔ ’’جی ڈاکٹر صاحب!‘‘ اور ڈاکٹر سے پوچھے بغیر ہی رئیس احمد کو کمرے کے اکلوتے بستر پر لیٹنے کا اشارہ کیا۔ ’’سب سے آخری والا ایکسرے اور خون کےٹیسٹ کی رپوٹس بھی نکال لو۔‘‘ نرس نے نیک بخت سے کہا۔ ڈاکٹر، جونیئر ڈاکٹرز سمیت رئیس احمد کے سرہانے آکھڑا ہوا۔’’جی بزرگو، کہاں تکلیف ہے؟‘‘ڈاکٹر نے ایکسرے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’سیدھی ٹانگ میں‘‘رئیس احمد پُراعتماد آواز میں بولا۔ ’’درد ہورہا ہےآپ کو؟‘‘
ڈاکٹر نے رئیس احمد کی ٹانگ کواُوپر، نیچے، دائیں، بائیں حرکت دیتے ہوئے پوچھا۔ ’’نہیں، اب تو کہیں درد نہیں ہے۔‘‘’’بزرگو! یاد کریں، کبھی برسوں پہلے آپ کہیں گرے ہوں یا کوئی چوٹ لگی ہو۔‘‘’’جی ڈاکٹر صاحب! پانچ سال پہلے ایک چوٹ لگی تھی۔‘‘رئیس احمد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔’’برسات کے دن تھے، جب مَیں اپنے اکلوتے بیٹے کو اپنی موٹر سائیکل پر انٹرویو دلوانے لے جا رہا تھا۔ بیٹے کو کہیں سے پتا چلا تھا کہ باہر کے مُلک کی کوئی کمپنی یہاں نوجوانوں کا انٹرویو کر رہی ہے، کام یاب ہونے والوں کو اپنے مُلک میں پکّی نوکری اور رہائش دے گی۔
میرے بیٹے کو بھی باہر جانے کا بہت شوق تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رئیس احمد کی آواز بھرّا گئی، پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولا۔ ’’اُس دن مَیں اُسے موٹر سائیکل پر بڑ ے ہوٹل تک انٹرویو کے لیے لے کر جا رہا تھا۔ہم دونوں وقت پر ہوٹل تو پہنچ گئے، مگر وہاں جا کر پتا چلا کہ میرا احسن اپنی ڈگری گھر بھول آیا ہے۔ مَیں نے سوچا ہو سکتا ہے کمپنی والے فوٹو کاپی کے ساتھ اصل ڈگری بھی دیکھنے پر اصرار کریں، تو احسن کو وہاں چھوڑ کر خود ڈگری لینے گھر آگیا۔بارش کی وجہ سے سڑکیں گیلی تھیں، مَیں نے تیزی میں جو ایک موڑ کاٹا، تو موٹر سائیکل پر قابو نہ رہا، وہ پھسل گئی اورمَیں دُور تک گھسٹتاچلا گیا۔
جب کھڑا ہوا تو میری دائیں ٹانگ میں شدید درد تھا، اتنا درد کہ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ لوگ تو مجھے اسپتال لے جانا چاہتے تھے، مگر مَیں رکشا کرکے گھر چل دیا کہ مجھے تو احسن کی ڈگری لے کر واپس ہوٹل پہنچنا تھا۔جب مَیں اس کی ڈگری لے کر واپس ہوٹل پہنچا ،تو احسن ہوٹل کے باہر ہی میرا انتظار کرہا تھااور مجھے دیکھتے ہی بولا ’’مجھے نوکری مل گئی ہے بابا اور ایک ماہ میںبیرونِ مُلک چلا جاؤں گا۔‘‘ وہ یہ کہتے ہوئے خوشی سے میرے گلے لگ گیا، اس خوشی میں اسے میرے گندے کپڑے، چوٹ بھی نظر نہ آئی اور مَیں بھی بیٹے کی خوشی میں اپنی تکلیف بھول گیا۔ پھر ہمارا بیٹا ہمیں اللہ حافظ کہہ کر پردیس سدھار گیا۔
پانچ سال ہو گئے ہیں اس بات کو، اس نے وہیں اپنا گھر بسالیا ہے، وہ اپنی نوکری اور بیوی، بچّوں میں اتنا مصروف ہے کہ اُسے بوڑھے ماں، باپ کا خیال ہی نہیں آتا، نہ ہم سے بات کرنے کی فرصت ملتی ہے۔ پہلے پہل تو اس کا فون آجاتا تھا، پر اب تو وہ بھی نہیں کرتا۔ وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا، مگر پانچ سال پہلے کی یہ چوٹ ڈاکٹر، ڈاکٹر…!! اُف، میری ٹانگ…شدید درد ہورہا ہے۔جیسے موت کا فرشتہ میری روح کھینچ رہا ہو۔‘‘ رئیس احمد کی چیخوں سے پورا ہڈی وارڈ گونج اُٹھا تھا۔’’اسٹاف! انجیکشن لاؤ، مریض کی حالت بگڑ رہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ لیکن نیک بخت سمیت وہاں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ یہ درد صرف پین کِلر سے نہیں جائے گا کہ یہ گھاؤ، جسم پر نہیں ،دل پر لگا ہے، یہ مرضِ لادوا ہے۔